رچرڈ فائن مین مشہور امریکی طبیعات دان تھے جنہیں 1965 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ اپنے مشہور زمانہ فزکس کے لیکچرز اور کتابوں اور انٹرویوز کی مدد سے سائنسی صحافت کے کام لئے مشہور تھے۔ انکا یہ انٹرویو 1983 میں بی بی سی لندن سے نشر ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ و مختصر ردوبدل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
آئینے اور ٹرینوں کا معمہ
میں نے ایم آئی ٹی کے سائنس سکول میں داخلہ لیا۔ یہاں جب آپ پہلی دفعہ سکول جاتے ہیں تو سکول والے کوشش کرتے ہیں کہ آپ زیادہ سمارٹ نہ بنیں اس لئے کچھ سادہ سوالات طلباء کو دئے جاتے ہیں کہ ان کا جواب معلوم کریں۔ یہ ایک طرح کی ٹریننگ ہے تاکہ آپ کا تخیل مضبوط ہوسکے اور یہ بہت دلچسپ عمل ہے۔ میں آپ کو کچھ باتیں بتاتا ہوں جو مجھے یاد ہیں۔ جب آپ سے ایسا کوئی معمہ دریافت کرتا ہے تو پہلے آپ معصوم بن کر اسکا سوال سنتے ہیں لیکن چونکہ فریٹرنٹی میں آپ کے بڑے بھائیوں نے آپکی تربیت کی ہوتی ہے تو آپ ایک دو سیکنڈ ایسا منہ بناتے ہیں جیسے گہری سوچ میں ہوں اور پھر فوراً اس کا جواب دے دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پرانا سوال آئنیوں کے بارے تھا۔ فرض کریں آپ بالوں میں دائیں طرف مانگ نکالیں تو آئینے میں مانگ بائیں طرف دکھائی دیتی ہے۔ آئینے میں دایاں اور بایاں باہم الٹ جاتے ہیں لیکن اوپر اور نیچے والی سمت کچھ بدلاؤ نہیں آتا، پاؤں نیچے اور سر اوپر ہی دکھائی دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آئینہ یہ کام کیسے کرتا ہے؟ ایسے ہی اگر لیٹ کر آئینے میں دیکھیں تب بھی مانگ بائیں طرف ہی دکھائی دیتی ہے حالانکہ اب بال اوپر نیچے والی حالت میں ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے آئینے کو کسی طرح پتا چل جاتا ہے کہ مانگ دائیں ہے اس لئے اس کو الٹ دینا ہے اور اوپر نیچے کی سمت کو تبدیل نہیں کرنا؟
کچھ دماغ کھپانے کے بعد آپ کو جواب مل جاتا ہے۔اگر محور بنا کر دیکھیں تو دایاں ہاتھ اگر مشرق کی سمت ہو تو بایاں ہاتھ مغرب کی سمت ہوتا ہے، ایک وضاحت یہ ہے کہ آئینے میں چونکہ محور الٹ جاتا ہے اس لئے دایاں بایاں نظر آتا ہے لیکن اس نئے محور کا مشرق و مغرب اب بھی وہی رہتا ہے یعنی دایاں ہاتھ مشرق اور بایاں مغرب ہی رہتا ہے۔ جبکہ شمال و جنوب آئینے میں وہی رہتے ہیں جو آئینے کے سامنے کھڑے آپ کو محسوس ہوتے ہیں۔ مگر یہ غلط وضاحت ہے۔ آپ کی ناک، دماغ کے پچھلے حصے کے شمال میں ہوتی ہےلیکن آئینے میں ناک دماغ کے جنوب کی طرف نظر آتی ہے۔ دراصل آئینے میں نہ تو دایاں بایاں الٹ ہوتے ہیں نہ ہی اوپر نیچے۔ بلکہ سامنے اور عقب آپس میں الٹ جاتے ہیں۔ ناک ہمارے لحاظ سے آئنے کی جانب ہے لیکن آئینے کے لحاظ سے ہماری جانب ہے۔ دشواری یہ ہے کہ عام طور پر ہم سوچتے ہیں کہ عکس میں ایک دوسرا شخص ہے جو ایسے ہی نظر آتا ہے جیسے دوسرے لوگ ہمیں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ عام طور پر ہم یہ نہیں سوچتے کہ آئینے میں ہمارا عکس الٹ گیا ہے۔ نہ ہم نے کبھی یہ دیکھا ہے کہ جب ایک شخص دوسری طرف کو مڑ جاتا ہے تو اس کا چہرہ الٹ گیا ہو (یعنی الٹا چہرہ لگا ہو)۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مڑتے وقت اس شخص کا دایاں پہلو بائیں جانب مڑ گیا ہے۔ لیکن اصل میں آئینے کے محور کے گرد عکس الٹتا ہے۔ یہ قدرے آسان معمہ ہے۔
ایک قدرے مشکل اور دلچسپ سوال یہ کہ ٹرین پٹری پر کیسے چلتی ہے؟ عام طور سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرین کے پہیے کے ساتھ جو کڑا لگا ہوتا ہے وہ اسکو پٹری پر جمائے رکھتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ کیونکہ کڑے کا کام پہیے کی حفاظت ہے۔ اگر کبھی کڑا پٹری کے ساتھ مس ہو تو بڑی خوفناک چیخ سنائی دیتی ہے۔ایک اور بات جو اسی سے متعلق ہے یہ کہ مڑتے وقت کسی گاڑی کے اگلے پہیے، پچھلوں کی نسبت زیادہ باہر کو نکلتے ہیں۔ اگر پہیے کسی سخت شافٹ سے جڑے ہوں تو یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے گاڑیوں میں شافٹ درمیان سے ٹوٹی ہوتی ہے جسے گئیر کی مدد سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور اسے ڈفرینشل کہتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ٹرین میں ڈفرینشل دیکھا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ ٹرین کی بوگیوں کے نیچے پہیے ایک سخت چھڑی کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں اور اس کا شافٹ ٹوٹا نہیں ہوتا۔ تو پھر ٹرین کیسے مڑتی ہے؟ اسکا جواب ہے کہ پہیے ایک کون کی طرح جڑے ہوتے ہیں یعنی ایک طرف کا پہیہ باہر سے موٹاہوتا ہے اور دوسرا اندر سے موٹا بناہوتا ہے۔ جب ٹرین نے مڑنا ہوتا ہے تو ایک طرف کا پہیہ بڑے محور کے گرد جبکہ دوسرا چھوٹے محور کے گرد گھومتا ہے اور ٹرین مڑنے لگتی ہے۔ اسی طرح ٹرین پٹری پر چلتی رہتی ہے۔ فرض کریں پٹری پر کسی جگہ کوئی پتھر پڑا ہو تو ٹرین کی ایک طرف کا پہیہ پتھر پر چڑھ کر باہر کو نکل جاتا ہے اور زیادہ بڑے محور پر گھومنے لگتا ہے لیکن دوسرا پہیہ ساتھ ہی چھوٹے محور پر گھومنے لگتا ہے اور یوں ایک چکر پورا کرنے کے بعد ٹرین واپس پٹری پر آجاتی ہے۔ بہرحال اپنے سکول کے دور میں ہمیں ایسے بہت سے سوالات دئے جاتے تھے تاکہ ہمارا تخیل مضبوط ہو اور پھر ہمیں فریٹرنٹی کا بھرپور حصہ بننے کا موقع مل سکے۔
دیکھنے کاعمل
اگر میں ایک ایک سویمنگ پول کے پاس بیٹھا ہوں اور کوئی اس میں چھلانگ لگائے تو میں پانی کی لہروں کے بننے کے عمل بارے سوچنے لگتا ہوں۔ اگر بہت سے لوگ اس میں چھلانگ لگا رہے ہوں تو لہروں کا ایک جنجال پورہ بنا ہوتا ہے۔ اگر تالاب کنارے کوئی چھوٹا سا جاندار جیسے کیڑا بیٹھا ہو تو وہ لہروں کو دیکھ کر یہ پتا لگا سکتا ہے کہ کب اور کس جگہ کس نے چھلانگ لگائی۔ بالکل یہی کام ہمارا دماغ دیکھنے کے عمل میں کر رہا ہوتا ہے۔ روشنی تین جہتی لہروں کی شکل میں ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے جبکہ پانی کی لہریں دو جہتی ہیں۔ ہماری آنکھ میں ایک انچ کے آٹھویں حصے جتنا ایک سیاہ سوراخ ہے جس میں روشنی کی یہ لہریں ایک خاص سمت سے ہی داخل ہوپاتی ہیں۔ مثلاً آنکھ کے کنارے سے روشنی داخل نہیں ہوپاتی اس لئے ہم اس سیاہ گیند کو گھماتے ہیں تاکہ اردگرد دیکھ سکیں۔ روشنی کے واسطے سے چیزوں کو دیکھنا قدرے آسان ہے بہ نسبت پانی کی دو جہتی لہروں کے جنکی مدد سے ایک کیڑا دوسری چیزوں کو محسوس کرتا ہے۔
روشنی کی لہریں ہر سمت میں ایک جال کی طرح پھیلی ہوتی ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ لہریں ایسے ہی ہیں جیسے تیر ہر سمت سے ہوا میں چلائے جا رہے ہوں لیکن روشنی کے لئے یہ مثال درست نہیں کیونکہ روشنی میں برقی لہریں بھی ہوتی ہیں جن کو فی الحال یوں سمجھ لیں جیسے پانی اوپر نیچے اپنی جگہ پر حرکت کرتا ہے، بہرحال ان تمام پیچیدہ ترین حرکات کا اوسط اثر ہماری آنکھ تک پہنچتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں۔ روشنی کی لہریں کمرے کی اشیاء سے ٹکرا رہی ہوتی ہیں اور مختلف زاویوں سے آنکھ تک پہنچ رہی ہوتی ہیں اور ہماری آنکھ اس قابل ہوتی ہے کہ ان کو دیکھ سکے۔ ان لہروں کی طاقت اور انکی لمبائی کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ کوئی کیڑا خاص لمبائی اور طاقت کی لہروں کو دیکھ سکتا ہے۔ یونہی انسانی آنکھ بھی خاص لہروں کو ہی دیکھ پاتی ہے۔
جو لہریں بہت لمبی ہوتی ہیں یعنی انکی طول موج بہت زیادہ ہوتی ہے وہ حرارت کی شکل میں محسوس ہوتی ہیں۔ہماری آنکھ انکو نہیں دیکھ پاتی۔ چھوٹی لہریں نیلگوں جبکہ بڑی لہریں بنفشی رنگ کی ہوتی ہیں۔ لیکن جب یہ بنفشی رنگ سے زیادہ لمبی ہوجائیں تو انہیں انفراریڈ کہتے ہیں۔ حرارت، انفراریڈ شعاعوں سے منسلک ہوتی ہے۔صحراؤں میں پایا جانے والا سانپ ان لمبی لہروں کو دیکھ سکتا ہے اس لئے چوہے کے بدن سے نکلنے والی حرارت سے اسکو پکڑ لیتا ہے۔ یہ تمام لمبائی والی لہریں ایک ہی وقت میں ایک جگہ موجود ہوتی ہیں۔ مثلاً میں کمرے میں صرف آپ کو ہی نہیں دیکھ سکتا بلکہ ماسکو کے ریڈیو سے نلکنے والی ریڈیو لہروں کی مدد سے پیرو میں بیٹھے کسی شخص کی معلومات بھی لے سکتا ہوں۔ ریڈیو ویوز بہت لمبی طول موج کو کہتے ہیں۔ یہی لہریں ہوائی جہاز کو زمین پر اتارتے وقت کنٹرول روم سے رابطے میں استعمال ہوتی ہیں۔ دوسری مثالیں ایکس رے، کاسمک ریز وغیرہ ہیں اور یہ سب ایک ہی قسم کی لہریں ہیں بس لمبائی اور وائبریشن کی رفتار کا فرق ہے۔ جو بات حیران کرتی ہے وہ یہ کہ یہ تمام لہریں اور برقی میدان حقیقت میں اس دنیا میں موجود ہیں! اگر آپ کو یقین نہیں کہ یہ لہریں موجود ہیں تو تار کا ایک ٹکڑا ایک سرکٹ سے جوڑیں۔ برقی میدان کی تھرتھراہٹ اس تار کے الیکٹرانوں میں ارتعاش پیدا کرے گی اور اگر آپ انکی رفتار کا درست اندازہ لگاکر ریڈیو ویوز پیدا کر لیں گے اور گھر بیٹھے ماسکو کی خبریں سن لیں گے! اگر یہ لہریں موجود نہیں تھیں تو آپ نے ریڈیو کیسے سن لیا؟ یہ لہریں ہمیشہ سے وہیں تھیں آپ نے بس اپنے ریڈیو کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے تو سب سننے لگا۔ یہ بات تو اب سب جانتے ہیں کہ لہریں موجود ہیں لیکن اصل لطف تو اس عمل کی پیچیدگی کے بارے سوچ کر پیدا ہوتا ہے۔ فطرت کتنی پراسرار ہے!
بڑے اعداد
ایٹموں کے ذریعے چیزوں کو سمجھنے میں ایک دشواری یہ پیش آتی ہے کہ وہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں، اتنے چھوٹے کہ اس پیمانے کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایٹم کے سائز کو ایک سیب کے برابر سمجھیں تو ایٹم اتنا چھوٹا ہے جتنا کہ سیب زمین سے چھوٹا ہے۔ اتنے چھوٹے پیمانے کو تصور کرنا میرے لئے بھی بہت مشکل ہے۔ اسکا حل یہ ہے کہ آپ اپنے پیمانے کو بڑا کرلیں تاکہ آپ احمقانہ باتوں سے بچ سکیں۔ لیکن فلکیات میں اس کے الٹ ہوتا ہے کیونکہ زمین سے ستاروں کا فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ روشنی اتنی تیز ہے کہ چند سیکنڈوں میں زمین سے چاند تک جاکر واپس آسکتی ہے اور یونہی زمین کے ساڑھے سات چکر ایک سیکنڈ میں لگا سکتی ہے۔ لیکن اتنی رفتار سے بھی روشنی کوقریب ترین ستارے تک پہنچنے میں سالوں لگتے ہیں۔ تمام ستارے بڑے گروہوں کی شکل میں رہتے ہیں جنہیں ہم کہکشاں کہتے ہیں۔ ایک کہکشاں قریباً ایک لاکھ نوری سال پر محیط ہوتی ہے۔ یونہی ایک کہکشاں سے دوسری تک جانے میں ایک ارب نوری سال درکار ہوگا۔ اسقدر طویل فاصلوں کو ماپنا ایک پاگل پن سا لگتا ہے۔ اسلئے بڑے فاصلوں کے لئے بھی نیا پیمانہ بنا لینا چاہیے اور ہر چیز کو تناسب میں دیکھنا چاہیے۔ یعنی فلاں کہکشاں فلاں ستارے سے دس گنا بڑی ہے وغیرہ۔ نئے پیمانے بنانے سے پیمائش زیادہ حقیقی مفہوم دینے لگتی ہے۔
اب اگر زمینی پیمانے پر دیکھیں تو یہ مشکل کام ہے۔ عام آنکھ سے ہم کوئی پانچ سو ستارے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایک کہکشاں کو اگر بہترین آلات سے مزین دوربین سے دیکھیں تو اس میں کروڑوں ستارے ہوتے ہیں جنکی روشنی لاکھوں نوری سال کا سفر کرتے پھیلتی اور انتہائی کمزور ہوچکی ہوتی ہے، جب یہ ہماری آنکھ کے چوکھٹے میں ایک انچ کے آٹھویں حصے میں داخل ہوتی ہے تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر کچھ ہے جو جگمگا رہا ہے۔ ہم ایک چمنی کی شکل کی دوربین بنا کر اس روشنی کو کچھ بہتر کرتے ہیں جس کے دو سو انچ محیط کے عدسے میں داخل ہوکر ایک چھوٹے عدسے میں سے نکلتی ہے۔ دوربین سے یہ روشنی زیادہ مرتکز ہوجاتی ہے تاکہ اسکی بہتر پہچان ہوسکے۔ ہماری آنکھ کے بجائے آجکل فوٹوسیل کے ذریعے اس تصویر کو محفوظ کیاجاتا ہے جو ہماری آنکھ سے زیادہ بہتر آلہ ہے۔ دوربین کا یہی کام ہے کہ وہ ایک بڑے پیمانے پر کم طاقتور روشنی کو اکٹھا کرکے اسے ایک چھوٹے پیمانے پر زیادہ طاقت سے دکھا سکے اور یوں ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہر کہکشاں میں کروڑوں ستارے ہیں جن کو آنکھ محض چند ستارے سمجھ رہی تھی۔ اگر صرف ہماری کہکشاں کی بات کریں تواسکے تمام ستاروں کے نام رکھنے میں تین ہزار سال لگیں گے۔ ہر ستارہ ایک ڈالر کی رقم بھی زمین پر بھیج دے تو امریکہ کا بجٹ خسارہ پورا ہوجائے۔
بہرحال، فلکیات میں بڑے اعداد اورحجم ہمارے لئے مشکل پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں بس آرام سے بیٹھ کر اتنی بڑی کائنات کے مقابلے اپنی چھوٹی سی دنیا کا لطف لینا چاہیے۔ اگر آپ کو دنیا کے چھوٹے پن سے اداسی ہوتی ہے تو اسکو یوں دیکھ لیں کہ آپ خود بھی تو ایٹموں کی دنیا سے کس قدر بڑے ہیں پھر آپ کو کائنات کے بڑے ہونے اور اپنے چھوٹے ہونے کا غم نہیں کھائے گا۔ ایکطرح سے انسان دو انتہاؤں کے وسط میں کھڑا ہے، ایٹمی دنیا کے لئے کائنات اور کائنات میں ایک ایٹم! لیکن فلکیات میں جو چیزتخیل کے لئے اہم ہے وہ ان طریقوں کا پتا لگانا ہے جنکی مدد سے روشنی ہم تک پہنچ رہی ہے۔ میں آپ کو تاریخ سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ آپ کا تخیل ایسی چیز سامنے لے آتا ہے جو ہمارے معلوم قوانین اور علم میں ابھی مشاہدہ نہیں ہوئی ہوتی۔ یہ ایک طرح کا تخلیقی تخیل ہے۔ عام طور سے ایک ستارہ، جیسے ہمارا سورج، گیس کا ایک گرم گولہ ہے جس میں ہائیڈروجن گیس کے جلنے سے بے بہا توانائی اور اسکے مرکز سے باہر کی جانب پریشر جنم لیتا ہے جس کو توازن میں رکھنے کے لئے گریوٹی مرکز کی جانب دباؤ لگاتی ہے۔
گریوٹی کو یہاں نیوٹن کے تصور قوت کے معنوں میں لینا کافی ہے۔ گریوٹی کے زیر اثر مادہ اپنے اندر ایک مرکز کی جانب کھینچتا ہے، اسی لئے چیزیں گول شکل میں آنا چاہتی ہیں۔ جیسے زمین گول اسلئے ہے کہ گریوٹی اسکے تمام مادے کو مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔ چٹانیں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ وہ چند میل اونچائی سے زیادہ پہاڑ کو تھام کر رکھ سکیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ ہماری زمین کا سب سے بڑا پہاڑ ہے۔ مگر چاند پر ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی اونچے پہاڑ ہیں کیونکہ وہاں گریوٹی اتنی مضبوط نہیں جتنی زمین پر ہے۔
بہرحال، واپس سورج یا ستارے کی زندگی کو دیکھئے۔ گریوٹی کے اندر کی طرف دباؤ کو نیوکلیئر ایندھن کی توانائی باہر کی طرف دھکیلتی ہے۔ مگر جب ستارے کا نیوکلئر ایندھن ختم ہونے لگتا ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟ لوگ اس بارے سوچ رہے تھے۔ ایک امکان یہ ہے کہ ایندھن جل کر گیس کی شکل میں ایک جگہ کھڑا رہے کیونکہ گریوٹی اسکو پھیلنے نہیں دے گی۔ لیکن دوسرا امکان یہ بھی ہے گریوٹی اسقدر طاقتور ہوکہ وہ اس کو مرکز کی جانب دبانے لگے جس سے گیس کے ایٹم آپس میں زیادہ تیزی سے ٹکرائیں گے اور پریشر پیدا کریں گے۔ یوں گریوٹی اور ایٹموں کے باہمی ٹکراؤ کے باعث یہ ستارہ اندر باہر دوری حرکت کرتا رہے گا (جیسے ایک غبارہ جس میں کچھ ہوا بھریں اور اتنی ہی نکالتےر ہیں)۔ ایسے کچھ ستارے واقعی ہیں جو وائبریشن کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک تیسرا امکان بھی ہے۔ اگر گریوٹی ایک حد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ گیس ایک بہت چھوٹے حجم میں سماجائے گی بالکل ایسے جیسے سورج سکڑ کر زمین کے سائز کا ہوجائے۔ اس صورتحال میں گیس کے ایٹم ایکدوسرے سے انتہائی قریب ہوں گے، اسقدر کہ انکے الیکٹران اور پروٹون نکل کر اڑ جائیں گے۔ جس سے گریوٹی مزید مضبوط ہوگی اور پیچھے صرف نیوٹرونز کا ایک چھوٹا مگر بہت بھاری حجم رہ جائے گا۔ یہ وہ امکان ہے جسے اوپن ہائمر اور والکوو نے پیش کیا۔ اسے نیوٹرون ستارہ کہتے ہیں۔
بہت سال تک لوگ نیوٹرون ستاروں کی تلاش میں رہے۔ ابھی حالیہ سالوں میں لوگوں کو پلسار نامی کچھ اشیاء ملی ہیں جو دور دراز سے آنے والی ریڈیائی شعاعیں ہیں۔ ان سے نکلنے والی روشنی، مثلاً تیز ترین پلسار کا دورانیہ تیس سیکنڈ ہے۔اس سے کم دورانیے والے پلسار بھی موجود ہیں۔ یہ بہت پراسرار بات لگتی ہے۔ عام طور سے ستارے بہت بڑے ہوتے ہیں اور یہ اسقدر تیز رفتار حرکت نہیں کرتے جیسے کہ پلسار میں نظر آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نیوٹرون ستارے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور بہت تیزی سے سپن کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں ایک طرح کی شعاع نکلتی ہے جیسی کہ آپ نےائر پورٹ وغیرہ پر دیکھی ہوگی، یہ شعاع کے بارے ابھی زیادہ علم نہیں ہے، لیکن یہ شعاع ستارے کے گھومنے کی وجہ سے تیزی سے گھومتی ہے اور ہم تک گھڑی کی طرح اسکی روشنی برابر وقفوں میں پہنچتی ہے۔ اب ذرا سوچیں ایک ستارہ جس کا ماس سورج کے برابر ہو اور وہ ایک سیکنڈ میں تیس مرتبہ گھوم رہا ہو، اسکو تصور میں لانا کس قدر مشکل ہے۔ نیوٹرون ستارے کا حجم بہت ہی زیادہ ہے، اس ستارے کا مادہ اگر ایک چمچ بھر زمین پر رکھ دیا جائے تو یہ اتنا بھاری ہوگا کہ زمین کے آر پار ہوجائے گا۔ اس سب کے لئے کس قدر مضبوط تخیل درکار ہے!
اس ستارے کا ہونا ریاضی کی مساواتوں میں موجود تھا مگر اب یہ حقیقت ہے کہ ایسے ستارے واقعی موجود ہیں۔ یہ تخیل کی ایک مثال ہے کہ کیسے ہمارا گہرا تخیل ہمیں نامعلوم کی خبر دے سکتا ہے۔ فلکیات جیسے مضمون میں اسکی بہت ضرورت ہے کیونکہ اس میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں ہم دیکھتے تو ہیں مگر ان کے پیچھے کی کہانی ابھی معلوم نہیں۔ ایسی ایک مثال کویزارز کی ہے جو دور دراز سے آنے والی ریڈیوویوز کی مدد سے پہچانے جاتے ہیں۔یہ کیسے پیدا ہوتے ہیں، اس بارے ابھی ہمیں آہستہ آہستہ معلوم ہورہا ہے۔ کویزار کی وضاحت کے لئے ہمیں ایک اور عجیب تصور کا سہارا لینا پڑے گا جسے بلیک ہول کہتے ہیں اور جو آئن سٹائن کے تصور زمان ومکاں کو اسکی حتمی شکل میں دیکھنے سے سامنے آیا۔ فرض کریں کہ کسی جگہ مادے کی مقدار بہت زیادہ ہو۔ وہاں کی کشش ثقل بے انتہا ہوگی، اتنی کہ روشنی بھی اس کی قید سے نکل نہ سکے۔ روشنی سے تیز کچھ نہیں اس لئے بلیک ہول میں سے کچھ بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ آپ اسے براہ راست دیکھ ہی نہیں پائیں گے۔ اب یہ سوال بنتا ہے کہ بلیک ہول جو خود نظر نہیں آسکتا، وہ کویزار جو کہ تیز روشنی ہے، اسکی وضاحت کیسے کر سکتا ہے؟ اسکی وضاحت یہ ہے کہ جو چیزیں بلیک ہول کے قریب سے گرزیں گی وہ اسکی بے انتہا گریوٹی کے باعث گھومتے ہوئے اسکے مرکز کی طرف جائیں گی۔ اس گرنے کے عمل میں وہ جو توانائی پیدا کریں گی وہ کویزار کی روشنی کہلائے گی، کیونکہ رگڑ، برقی و مقناطیسی قوت اور دیگر بہت سے پیچیدہ عوامل اس میں روشنی پیدا کر سکتے ہیں جو کہ پھر ایک پھوار کی مانند بلیک ہول کے کناروں سے نکلے گی جس کی ابھی مزید وضاحت نہیں ملی۔ یونہی ریڈیو کہکشائیں، جن میں سے ریڈیو ویوز کی پھوار مخالف سمتوں سے نکلتی ہیں انکی بھی وضاحت ابھی نہیں ملی کہ وہاں مادے میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ شعاعیں ایک جھٹکے میں آتی ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ شاید کہکشاں کے مرکز میں بھی بڑا سا بلیک ہول ہے۔ اور یہ ہمارے تخیل کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ یہ معمہ ابھی (1984 ) تک حل نہیں ہوا۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں