“احسن التقویم سے اسفلاسافلین تک”

گزشتہ اتوار جیالے دوست وقار بلوچ کے ساتھ کوٹلی امام حسین علیہ السلام میں دہشت گردی کے شکار شہدا کی قبور پہ جانا ہوا، قبروں کے کتبے پڑھ کر انتہائی دکھ، کرب اور احساس ندامت کا سامنا ہے۔ سر پہ “اشرف المخلوقات” کا تاج سجائے، “احسن تقویم” کا روشن لقب پیشانی کا جھومر بنائے، میرا ہم جنس حضرت انسان اپنے ہی ہم نفسوں خدا کے مجبور اور کمزور بندوں کو عقیدے، سوچ اور نظریے کے اختلاف کی بنیاد پہ قتل کیے جارہا ہے اور پیچھے زندہ رہ جانے والوں کی زندگیوں کو ہاویہ کے عذابوں سے بھی بدتر بنائے جارہا ہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں انسانیت تو ایک شرف ہے، جو پاکیزگی، روشنی، خیر خوشبو، احسان اور قربانی کے جذبوں سے عبارت ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا انھیں انسان کہلانا زیب دیتا ہے؟ کیا اشرف المخلوقات کی عبائے زریں ان حیوانوں سے بدتر لوگوں کے بدن پہ سجائی جاسکتی ہے جو احسن تقویم نہیں اسفلاسافلین ہیں جو امن کے خوابوں کو پامال کر کے انسانوں کی زندگیوں کو جہنم بنا کے اپنی جھوٹی جنت سجاتے ہیں۔ مگر دراصل اپنے لیے جہنم کے ابلیسی محل کے ایوان روشن کرتے ہیں، یہ لوگ انسانیت کے ماتھے پہ بدنما داغ ہیں، اور ان سے بھی زیادہ لعنت کے حقدار ہیں۔ وہ لوگ جو اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کی ڈھال سے ان کی بداعمالیوں کا دفاع کرتے ہیں، یہ وہ مکروہ کردار مجرم ہیں جو ان کے ظلم کی وکالت میں تاویلیں پیش کرتے ہیں اور ان کے ظلم کو بڑھاوا دیتے ہیں،
انسانیت کے مجرموں کو معاشرے میں “سپیس” دینے کی بات کرتے ہیں۔
انسانیت ایک مقدس پرامن خاندان ہے، امن کے دشمن اس پورے خاندان کے دشمن ہیں اور امن کے دشمنوں کے وکیلوں کا بھی اس مقدس خاندان سے کوئی تعلق نہیں، امن دشمن اور ان کے فکری سپورٹر ہر امن پسند شہری کی نفرت کے مستحق ہیں، ہر امن پسند شہری کو ان سے برات کا اظہار کرنا چاہیے۔ لکھنے والوں کو ان کی خباثتوں پہ لکھنا چاہیے اور بولنے والوں کو ان مکروہ کرداروں کو ننگا کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

شفقت لاشاری
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply