مکمل خواب،ادھوری ملاقات/رضوان ظفر گورمانی

سنو رافعہ!
ابھی ابھی میں نے تمہیں خواب میں دیکھا۔یقین مانو خواب تھا کہ میں سو رہا ہوں میں بے چین سا اٹھتا ہوں پیاس سے حلق میں کانٹے ہیں جس کی چبھن میں ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں۔میں صحن میں نکلتا ہوں اور پانی کے لیے نل کی طرف جانے لگتا ہوں۔بچے جاگے ہوئے ہیں۔پرجوش سی آوازوں سے احساس ہوتا ہے شاید انہیں بس لینے آ چکی ہے۔میں صحن میں مزید چند قدم گھسیٹتا ہوں تبھی بیرونی دروازے سے آگے کچن کے عین سامنے مجھے تم دکھائی دیتی ہو۔زرد رنگ کے سوٹ پہ بڑی سی کالی شال اوڑھے تم اک اچٹتی سی نگاہ رات کے اس پہر اس بے چین روح کی جانب ڈالتی ہو۔یقین مانو بلب کی ملگجی سی روشنی میں کالی شال نے تمہاری آنکھیں اور آدھا چہرہ چھپا رکھا ہوتا ہے۔پر یقین مانو میں تھم گیا تھا میں نے آدھے چہرے میں تمہیں پہچان لیا یہ تم تھیں۔ہلکی سی فربہی زرد سوٹ اور کالی شال اوڑھے یہ تم تھیں۔میری دھڑکنیں اتنی تیز ہوئیں میرا دل اس زور سے اچھلا لگا ابھی باہر نکلتا ہے۔
اس اک ہی لمحے میں میرے اوپر سینکڑوں احساسات گزرے۔خوشی،افسوس،غم شرمندگی سمیت سینکڑوں احساسات مگر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں ان سینکڑوں احساسات پہ حاوی صرف اک احساس تھا اور وہ تھا احساس زیاں۔میں وہیں تھم گیا مجھے لگا کسی نے مجھے نہایت سرعت سے بیچ میں سے کاٹ دیا ہو۔اور یہ احساس خواب میں بھی اتنا سچا تھا کہ جاگ جانے کے بعد بھی درد میں ہوں تکلیف میں ہوں۔میں نے غیر ارادی طور پہ جیب سے موبائیل نکالا میرا موبائیل سگریٹ کا پیکٹ سنہرا دھاتی لیٹر سب بیچ میں سے کٹا ہوا تھا۔آدھے کٹے ہوئے سامان کو ہاتھ میں لیے میں کسی بے جان مجسمے کی طرح تمہیں دیکھے جا رہا تھا۔تم بس سے اتر کر بچوں کو لینے آئی ہوئی تھیں۔مجھ پہ راز منکشف ہوا کہ تم جانتی تھی یہ میرا گھر ہے۔تمہیں میری نیند کا سونے کے وقت کا سو جانے کے بعد میں نہیں جاگتا چاہے پڑوسی ملک والے ٹینک سمیت میرے کمرے کے باہر گولہ باری شروع کر دیں۔میں نہیں جاگتا تمہیں معلوم ہے کیونکہ تم گھنٹوں میرا سر گود میں لیے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرا کرتی تھی۔میں گھنٹوں معصومانہ نیند سے بیدار ہوتا تو تم سے لڑتا کہ تم کئی گھنٹوں سے اک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے اکڑ گئی ہو گی لیکن تم کہتیں کہ میری نگاہوں کے عین سامنے وہ چہرہ تھا جس سے مجھے عشق ہے دنیا میں کسی سے بھی قیمتی یہ چہرہ یہ لمحہ!میں بھلا کیسے تھک سکتی ہوں۔
یقین مانو میں دوڑ کر تمہیں گلے لگانا چاہتا تھا میں تمہیں اپنے اندر سمونا چاہتا تھا میں تمہیں ان گزرے کئی برسوں میں دل پہ لگتے گھونسوں اور اک چہرے کے ساتھ اک دھڑکن کے مس ہو جانے اور ہوک اٹھنے جیسے احساس کا بتلانا چاہتا تھا میں رونا چاہتا تھا میں تمہیں روک لینا چاہتا تھا میں وقت میں پیچھے جانا چاہتا تھا لیکن احساس زیاں نے مجھے مجسم کر دیا خوف وسوسے اندیشے تمہارے اجنبی رویے کا ڈر تمہارے مروت بھرے پرائے لہجے کا ڈر اور میری غلطی کہ میں نے تمہیں کھو دیا باوجود اس کے کہ میرے پاس تم تھی تم تھی سراپا سپردگی تم تھیں تم میرے لیے موجود تھیں تم میری دسترس میں تھیں تم میری ملکیت میں تھی تم نے بار بار باور کرایا تھا کہ میرے حق کے تمام جذبات جسمانی اعضا بشمول دل میرے نام کر چکی ہو لیکن میں نے تمہیں کھو دیا۔ان گزرے برسوں میں نجانے کتنی بار میں نے ان مشورہ سازوں کو کوسنے دیے ہیں جنہوں نے تمہیں چھوڑنے کے مشورے دیے تھے۔ایسے ہی پچھتانے والی کسی روح نے دل سے کہا ہو گا کہ تمہیں چیزوں کی قدر ان کے کھو دینے کے بعد ہوتی ہے۔میں تمہیں کھو چکا تھا۔میرے تمام اندیشوں وسوسوں بیچ میں بیت جانے والے 13 سالوں کے وقفے کے باوجود تم نے اسی مٹھاس بھرے لہجے میں مجھے پکارا میں دوڑ کر تمہارے پاس پہنچا جیسے ایمل کھلونوں کی دکان قریب آتے ہی میرا ہاتھ چھڑا کر شیشے کے لگے شیلف کی طرف بھاگتی ہے۔میں نے تمہیں باہوں میں بھرا اور اک انجانے خوف کے تحت میں نے اردگرد دیکھا کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا کیونکہ میں جی بھر کر رونا چاہتا تھا آنسووں ہچکیوں کے بیچ تمہیں کہنا چاہتا تھا کہ میں غلط تھا بلوچ خود کو کتنا ہی مضبوط کیوں نہ قرار دیں لیکن میں روتے ہوئے سرینڈر کرنا چاہتا تھا میں مات تسلیم کرنا چاہتا تھا میں تسلیم کرنا چاہتا تھا کہ میرے مضبوطی کے تمام دعوے دلاسے ریت کا ڈھیر ہونے کا بتانا چاہتا تھا۔تم اسی وارفتگی سے مجھے تھامے ہوئی تھیں۔جس سے دکھ مزید بڑھ گیا۔میں شکست تسلیم کرتا میں سرینڈر کرتا میں معافی مانگتا میں رو پڑتا کہ میری آنکھ کھل گئی۔میں نے اپنے گلے میں آنسووں کا گولا سا محسوس کیا اور یہ بھی کہ میری آنکھوں کے کونے گیلے سے ہو چکے تھے۔
خواب ٹوٹ چکا تھا میں تمام تر احساس زیاں کے ساتھ بے حس و حرکت جسم کے ساتھ اپنے بستر پہ سن پڑا ہوں۔مجھے یقین کی حد تک یقین ہے کہ تم سوشل میڈیا پہ مجھے سٹاک کرتی ہو مجھے پڑھتی ہو میری تصویریں دیکھتی ہو ان درجنوں لڑکیوں کی طرح چپ چاپ جو کسی تقریب میں میرے فیملی ممبرز کو بتاتی ہیں کہ ہم رضوان کو فالو کرتی ہیں اور رضوان ہمیں پسند ہے اپنے خیالات اپنی تحریروں سے گدگداتا ہے۔بھلے خواب ٹوٹ چکا ہے لیکن امید نہیں ٹوٹی کاش کہ تم بتاؤ کہ تم سوشل میڈیا پہ موجود ہو اور تم روزانہ میری تصاویریں دیکھتی ہو میری زندگی میں ہونے والی تمام باتوں سے ہو۔
کاش تم یہ بن باس توڑو اور مجھے اشارہ دو مجھ پہ آشکار کرو کہ رضوان یہ میں ہوں تمہاری متروکہ املاک رافعہ۔

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply