حضرت غازی عباس علمدارؑ اور معرفت امام (؏)۔۔۔۔۔سیدہ ماہم بتول

فرزند امیر المومنین علیہ السلام، ابوالفضل حضرت عباس علمدار (؏) کی عظمت کا سب سے بڑا عامل آپؑ کی امام شناسی اور اپنے زمانے کے امامؑ کی اطاعت ہے۔ حضرت امام جعفر الصادق (؏) حضرت عباس (؏) کے زیارت نامے میں آپؑ کو خدا و ر رسول و [اپنے زمانے کے] ائمہ کے مطیع کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
الْمُطيعُ للَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِاَميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِمُ“۔
ترجمہ: [سلام ہو آپ پر اے بندہ صالح اے] اللہ، اس کے رسول، امیر المؤمنین اور حسن اور حسین علیہم السلام کے مطیع و فرمانبردار۔ (1)
تاسوعا (نویں محرم) کی شام کو شمر، حضرت عباس (؏) اور آپؑ کے تین بھائیوں “عثمانؑ، جعفرؑ اور عبداللہؑ” کے لئے امان نامہ لایا مگر حضرت عباس (؏) نے کوئی توجہ نہ دی اور اس کو جواب نہیں دیا. حتی کہ آپ کو اپنے امامؑ کا حکم ملا کہ “جائیں اور شمر کو جواب دیں” اس وقت عباس (؏) نے فرمایا: کیا کہنا چاہتے ہو؟ شمر نے کہا: “تم اور تمہارے بھائی “عثمانؑ، جعفرؑ اور عبداللہؑ” امان میں ہو”۔
اس موقع پر جناب عباس (؏) نے کہا:
تبّت يداك ولعن ما جئت به من امانك يا عدوّا للَّه، أ تأمرنا ان نترك اخانا وسيّدنا الحسين بن فاطمة، وندخل فی طاعة اللّعناء واولاد اللّعناء اتؤمننا وابن رسول الله لا أمان له؟”.
ترجمہ: ٹوٹ جائیں تیرے ہاتھ اور [خدا کی] لعنت ہو اس امان نامے پر جو تو لایا ہے، کیا تو ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور اپنے سید و سرور حسینؑ، فرزند فاطمہ (س) کو ترک کردیں اور لعینوں اور لعین زادوں کی اطاعت قبول کریں؟ حیرت ہے، کیا تو ہمیں امان دے گا اور ہمارے سید و آقا حسین (؏) فرزند رسول خدا ﷺ کے لئے امان نہيں ہے۔ (2)
امام سجاد (؏) فرماتے ہیں:
رَحِمَ اللَّهُ عمِّي الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وَ أَبْلَى وَ فَدَى أَخَاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى قُطِعَتْ يَدَاهُ فَأَبْدَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِهِمَا جَنَاحَيْنِ يَطِيرُ بِهِمَا مَعَ الْمَلَائِكَةِ فِي الْجَنَّةِ كَمَا جَعَلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَ إِنَّ لِلْعَبَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مَنْزِلَةً يَغْبِطُهُ بِهَا جَمِيعُ الشُّهَدَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ“.
ترجمہ: اللہ رحمت نازل کرے میرے چچا عباس ابن علی (؏) پر، جنہوں نے ایثار اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان اپنے بھائی امام حسین (؏) پر قربان کردی حتی کہ دشمنوں نے ان کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے چناچہ خداوند متعال نے ہاتھوں کے بدلے انہیں اپنے چچا جعفر طیار (؏) کی طرح دو شہ پر عطا کئے جن کے ذریعے وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں. بےشک خدا کی بارگاہ میں عباس (؏) کو وہ مرتبت و منزلت ملی ہے کہ تمام شہداء، روز قیامت آپ کا مقام دیکھ کر رشک و غبطہ کرینگے اور اس مقام کے حصول کی آرزو کرینگے۔ (3)
امام جعفر الصادق (؏) مختلف عبارتوں کے ضمن میں حضرت غازی (؏) کو مختلف صفات کا حامل قرار دیتے ہیں۔
بصیرت شعار، دوراندیش، مضبوط ایمان کے حامل، جانباز اور ایثار کی حد تک جہاد کرنے والے، اپنے زمانے کے امامؑ کی راہ میں جان نچھاور کرنے والے، رسول ﷺ خدا کے جانشین کے سامنے سراپا تسلیم رہنے والے، وفاداری میں استوار اور زندگی کے آخری لمحے تک جدوجہد کرنے والے وغیرہ۔ (4)
امام زمانہ (؏) شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
السلام على أبي الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاه بنفسه، الآخذ لغده من أمسه، الفادي له، الواقي الساعي إليه بمائه المقطوعة يداه – لعن الله قاتله يزيد بن الرقاد الجهني، وحكيم بن الطفيل الطائي“.
ترجمہ: سلام ہو ابوالفضل العباس ابن امیرالمؤمنین (؏) پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کردی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا [دنیا کو بیچ کر آخرت خرید لی]، وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے. خداوند متعال کی نفرت و نفرین ہو ان کے قاتلوں یزید ابن رقاد اور حکیم ابن طفیل طائی پر [خداوند متعال ان دونوں کو اپنی رحمت سے دور رکھے]۔ (5)
? حوالے:
(1) کامل الزیارات، صفحہ 786۔
(2) مقاتل الطالبیین، ابوالفرج اصفہانی، صفحہ 84۔
(3) الفتوح، ابن اعثم ج5، ص94 معالی السبطین، محمد مہدی حائری ج1، ص433۔
(4) تذکرۃ الخواص، سبط ابن جوزیؒ صفحہ152۔
(5) بحار الانوار محمد باقر مجلسیؒ جلد 45 صفحہ 41 و42۔

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply