پاکستان میں اصطبلشمنٹ (establishment) کی آپس کی گروہ بندی اور کشمکش کے باوجود اس کے تمام حصّے نیو لبرل معاشی پالیسیوں پر اکٹھے رہتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ 1980 کے بعد فوجی اور سیاسی حکومتوں کے دوران ایسے اقدامات جاری رکھے گئے جن کے ذریعے صحت ، تعلیم سمیت دوسرے شعبوں کو نجی تحویل میں منتقل کیا جائے – موجودہ دور میں بھی اس کشمکش کے دو اہم کردار – میاں نواز شریف اور عمران خان مختلف حکمت عملیوں کے ساتھ اس عوام دشمن ایجنڈے پر متفق نظر آتے ہیں – اسی طرح اصطبلچمنٹ کے تمام کرداروں کا حامی میڈیا صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ناکامی کی ذمہ داری حکومتی پالیسیوں اور فنڈنگ کی کمی پر ڈالنے کی بجائے استادوں اور ڈاکٹروں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے – پاکستان میں نوجوان ڈاکٹروں کی حالیہ ہڑتال کے خلاف پراپیگنڈہ بھی اصطبلچمنٹ کی وسیع تر پالیسی کا حصّہ ہے – نوجوان ڈاکٹر ، تکنیکی عملہ اور مدد گار سٹاف نیو لبرل پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں – یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی یہ لوگ نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف جدوجہد میں صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں –
دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جہاں استادوں اور ڈاکٹروں نے دوسرے طبقات کے ساتھ مل کر حکومتوں کی عوام دشمن نج کاری کی پالیسیوں کی مزاحمت کی – ان میں ایک نمایاں مثال ایل سلواڈور ہے جہاں ڈاکٹروں اور شعبہ صحت کے دوسرے کارکنوں نے عوام کے ساتھ مل کر حکومت کی نیو لبرل پالیسیوں کا مقابلہ کیا – دسمبر1999 میں پہلی بار 20,000 لوگوں نے ایک احتجاج میں حصّہ لیا جو اس حد تک پھیلا کہ اگلے تین مہینوں میں حکومت نے اپنے نج کاری کے پروگرام کو روکنے کا عندیہ دیا – اکتوبر 2002 میں جب حکومت نے نئی پالیسی کا اعلان کیا تو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ پھر باہر نکلے اور حکومت کو اس پالیسی پر عمل درآمد روکنا پڑا- ان مظاہروں میں جنہیں مظاہرین کے سفید کپڑوں یا جسم پر کیے سفید رنگ کی وجہ سے سفید مارچ بھی کہا جاتا ہے میں سے بعض میں 250,000 تک لوگ شامل ہوئے – اس تحریک کے دوران بھی میڈیا نے مظاہرین کے مقاصد کے متعلق غلط فہمیاں پھیلائیں لیکن عوام میں صحت کے حولے سے اس قدر شعور موجود تھا کہ انہوں نے ڈاکٹروں اور کارکنان صحت کے خلاف کیے گئے تمام پراپیگنڈہ کو مسترد کر دیا –
ایل سلواڈور کی تحریک سے ایک اہم سبق یہ ملتا ہے کہ نوے کی دہائی کے وسط تک جب مختلف شعبوں جیسے ٹیلی کمیونیکیشن کے کارکن صرف اپنے شعبے کی حد تک جدوجہد کر رہے تھے نج کاری کے خلاف تحریک بہت محدود تھی – لیکن جب نج کاری نے صحت کی سستی سہولتوں کو متاثر کرنا شروع کیا اور صحت کے کارکنوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کیا تو دوسرے شعبوں کے کارکن اور عوام بھی اس میں شریک ہو گئے –پاکستان میں بھی نوجوان ڈاکٹروں کی اس تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس تحریک کو نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف ایک وسیع تر تحریک کا حصّہ بنایا جائے – یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ایل سلواڈور میں سوشلسٹ نظریہ رکھنے والا ایک موثر گروہ موجود تھا اور مظاہرین کو اسمبلی میں موجود نج کاری کے مخالف اراکین اسمبلی کی ایک موثر تعداد کی حمایت حاصل تھی – بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کی پارلیمنٹ میں کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو نیو لبرلزم کے خلاف مزاحمت میں عوام کے ساتھ کھڑی ہو –
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں