لاہوریے۔۔حسّان عالمگیر عباسی

ناظرین، مری سے کُل پانچ سو کا انڈہ کھا کے جب بتی چوک لاہور پہنچا تو دھند کا راج تھا اور توقع کے برعکس کم کپڑوں کی وجہ سے یوں لگ رہا تھا کہ لاہور ٹھنڈ میں بھی مری سے آگے نکل گیا ہے۔ جب سے پانچ سو کے انڈے والا سیاپا ختم ہوا تو یہ احتیاط کہ کہیں بُرا نہ لگ جاؤں نے شعور بیدار کیا ہے اور اس شعور نے مشاہدے کی طاقت میں کچھ اضافہ سونپا ہے۔ ویسے تو لاہور میں چار پانچ سال گزارے ہیں لیکن یہ دو دن سے شعوری طور پہ لاہور اور لاہوریوں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ آج دو چنگچیوں پہ رائیونڈ سے ٹھوکر اور ٹھوکر سے ملتان روڈ آنا ہوا۔ ایک بات تو لکھ لینے والی ہے کہ لاہور والے زندہ دل اور ان کے کھانے کمال حد تک مزیدار ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ جن حضرات و خواتین کی جیبیں وزنی ہیں وہی اس سہولت سے فوائد سمیٹ سکتے ہیں بلکہ دینار درہم ڈالرز سے محروم پانچ سو والا طبقہ بھی کھا پی سکتا ہے اور اچھا کھا پی لیتا ہے۔ ابھی تک ان کے پائے وائے چھولے کلچے نان چائے پی لی ہے اور کڑاہیاں وڑاہیاں ویسے ہی آنا ہو تو چار پانچ بار کھا پی لیتے ہیں کیونکہ یہاں کی مہمان نوازی بھی مشہور ہے۔ ایک شادی بھی اٹینڈ فرمائی اور اس تقریب کی جدا گانہ طبیعت نے بہت متاثر کیا۔ دولہا بھائی سے دوستی نے اس مشاہدے کو چار چاند لگائے۔ لاہور میں ایک الگ سی فیل آتی ہے۔ یہاں آ کے دل و ذہن دونوں کھل جاتے ہیں۔ ثقافت اور طرح طرح کے رنگ و بو و ڈائیورسٹی میں دیکھنے والی آنکھوں کو متاثر کرنے کی بہت ہمت طاقت ہے۔ یہاں سب ہے اور سب کچھ ان کی ثقافت ہے جس کا اظہار سبھی فخر سے کرتے ہیں۔

خیر مری میں انڈہ پانچ سو اور چائے تین سو میں پی ہے ،تو شعور اجازت دے رہا تھا کہ لاہور کو الگ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج جب رائیونڈ سے ملتان روڈ آرہا تھا تو ایک ہی چنگچی پہ بہت سی ہونیوں (happenings) سے واسطہ پڑا۔ چنگچی  پہ پچھلی سیٹ ملی حالانکہ اگلی کا مطالبہ کیا تھا اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک خوبصورت روح پہ جائز نظر ڈال لی بلکہ پڑ گئی لیکن فوراً ہٹانے کی نیت باندھ لی تھی جس دوران منظر ہی غائب ہو گیا جسے نہ ڈھونڈ کر نیکیوں کی تجوری بھر لی۔ اسی چنگچی نے جب سرخ بتی کا بھرم رکھا اور رک گیا تو پیچھے والی چنگچی کے ڈرائیور صاحب نے اہم شاہراہ کے بیچ چوراہے میں پانی کا پان اچھالا تو ویسے ہی بُرا لگا جیسے کسی مری کے موڑ پہ کوئی پشاوری یا مقامی کے پانچ سو کا انڈہ فروخت کرنے پہ اچھا نہیں لگا تھا۔ ساتھ بیٹھی سواری نے کالی سیاہ آتی وکیل کی گاڑی پہ بلغم اچھالنے کو غنیمت سمجھا اور اسی کے ڈرائیور نے باقاعدہ رکشہ روک کے وہیں ایک طرف قضائے حاجت فرمائی (یہ ہم سب کی مجموعی شکل ہے) البتہ یہی ڈرائیور دیانت و امانت کا بھی لاج رکھ گیا جب ایک سواری کو یہ کہہ کر ساٹھ روپے واپس کر دیے کہ اس کا کرایہ اس کے دوست نے تب دے دیا تھا جب وہ اسے سی آف کرنے آیا تھا اور اسی سواری نے میرے ساتھ بیٹھے بزرگ کی ضرورت کو جانچ سمجھ کر کرائے سے دو ہاتھ آگے قریب قریب اڑھائی سو دے دیے۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے تو وہ ہاتھ ہلا کر دینے والی کی مہربانی پہ دعا دے کر مجھے سمجھانے لگے۔ یہی رکشے والا جلد باز نکلا اور مین روڈ چھوڑ کر سروس روڈ پہ پہنچ گیا اور ڈھلوان سے گرتے گرتے بچت ہو گئی۔ آگے گیا تو مجھے اس نے بڑے پیار سے دس روپے یہ کہہ کے واپس کر دیے کہ آپ کے صرف پچاس ہیں جو میں نے نہیں لیے بلکہ شاید لے لیے تھے۔ لاہوریوں کے بارے میں یہ رائے تھی کہ ان کی ٹرانسپورٹ سروس بہترین ہے یا باقیوں سے بہتر ہے لیکن اس بار چونکہ شعوری طور پہ یہ سب دیکھ رہا تھا لہذا رائے بدل نہیں رہا لیکن بتاتا چلوں کہ دس پانچ کے لیے ضعیف ڈرائیور پتلوٹے اور پتلی گردن والے ڈرائیور ضعیف کی لے رہے تھے اور یہ کئی بار دیکھا لیکن چونکہ میں پتلا ہوں نہ ضعیف بلکہ ضیف یعنی مہمان ہوں لہذا میرا بڑا خیال کر گئے ہیں۔ واللہ ایک فوٹو کاپیئر نے تو کتاب کو پن اپ کرنے تک کے پیسے بھی نہیں لیے اور جامعہ کے اساتذہ کوآرڈینیٹرز سب نے بہت زبردست تعاون بھی کیا۔ ان کے لہجوں میں رعونت کی بجائے عاجزی تھی۔

پچھلے بار جب میں آرینج ٹرین پہ سوار ہوا تھا تو مزہ آیا تھا اور ٹرین کا اعزاز یہ ہے کہ لاہوری نیچے ہیں اور یہ اوپر ہے اور دونوں جگہیں الگ پہچان رکھتی ہیں۔ نیچے ڈنڈا نہیں ہے لیکن اوپر ڈنڈا ہے لہذا اوپر نظم و ضبط جبکہ نیچے ایک بندہ دوسرے سے تنگ ہے اور ضبط ہی کر رہا ہے۔ خیر آج اس سہولت سے محروم رہا بلکہ جان کے نہیں گیا کیونکہ پچھلی دفعہ لاہور میں ایک جگہ ایک جابر چور نے فون کھینچ لیا تھا اور ابھی ابھی قسطوں پہ نیا نکلوایا ہے لہذا نہیں چاہتا تھا کہ اس بار ڈر کے مارے جیب میں فون رکھوں تو کوئی جیب ہی کاٹ لے۔ آج آرینج ٹرین کو صرف گزرتے دیکھا اور بار بار دیکھا اور پہلے سے زیادہ مزہ آیا۔ پہنچتے ہی وحدت روڈ پہ چلا گیا اور چلتا گیا اور اتنے میں ریڑھیوں کی لکیر آ گئی جس میں طرح طرح کے پھل، مونگ پھلی چنے ریوڑیاں، گاجر کا جوس اور حلوہ اور بہت کچھ سجا سجایا موجود تھا۔ زمین پہ چھلکے ہی چھلکے تھے۔ میں نے ایک مسمی کھائی تو چس بڑی آ گئی اور فیصلہ لیا کہ ایک اور اندر پھینک لی جائے۔ مسمیاں موٹی تازی دیکھ کر لگا شاید دونوں کے ساٹھ ستر ہوں گے لیکن اس نے چالیس بول کر دل جیت لیا کیونکہ یہی مسمیاں مری میں ان سے مہنگی ہیں۔ خیر میں نے اسے پچاس دے دیے اور ساتھ ایک مالٹا بھی اٹھا لیا۔ میں دوسری مسمی کے چھلکے وہیں رکھ آیا تو اس نے نیچے پھینک دیے تو میں نے کہا کہ ایک ٹوکری ہی رکھ لو تاکہ ہم اپنی ٹوکریاں استعمال کرتے ہوئے ٹوکری یوز کریں تو کہنے لگا کہ صفائی نصف ایمان ہے اور رات ایسا کر کے ہی ریڑھی باندھے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دوسری مسمی کھا رہا تھا۔ بمشکل آدھی کھائی کیونکہ مسمی رس سے بالکل خالی تھی گویا کسی نے نچوڑی ہو جیسے گھر میں خواتین کپڑے نچوڑ کر تار پہ ڈالتی ہیں۔ سامنے سے آئے فقیر کو میں نے آدھا حصہ دے دیا جس نے دعا دی تو خوشی ہوئی۔ میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کیونکہ بددعا دے تو دے خوشی سے لے لینے کا قائل نہیں ہوں۔ یہ ہے لاہور جہاں بہت سی اچھی چیزیں ہیں جو پاکستان کے ہر شہر میں پلس مائنس کے ساتھ نظر آئیں گی اور یہ اچھائیاں ہی ہماری اصل صورتیں ہیں۔ جو جو برائیاں نظر آئیں لاہوریوں پہ ڈالنے کی بجائے یہ کہہ لیتے ہیں کہ برے لوگ شاید فیصل آباد، ملتان، پشاور، مری یا نتھیا گلی سے آئے ہیں۔ ہماری غلطیاں قومی اور مجموعی طور پہ ہم پاکستانیوں کی غلطیاں ہیں اور ایک نمبری اور پاکستانی شاید دو متضاد مخلوقات ہیں۔ ہم بحیثیت قوم بہت برے اور بہت اچھے ہیں۔ اس حقیقت کو ہم مری اور دیگر شہروں کے مقابلے کر کے چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply