ہم لاہور سے پلٹ آئے۔۔۔ سید عارف مصطفٰی

لاہور والے یار من پروفیسر سلیم ہاشمی جائز تعلقات میں بھی اس قدر والہانہ پن دکھاتے ہیں کہ جتنا ناجائز تعلقات والے بھی نہیں کرپاتے سو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اردو کانفرنس برپا کریں اور ہم کراچی بیٹھے رہ جائیں سو 8 ستمبر 2018 کی اس تقریب میں شرکت کے لیئے ہم اپنے ہمدم دیرینہ عزیزبرنی کے ساتھ نکل پڑے اور کسی نہ کسی طرح خیبر میل ٹرین کے ایئرکنڈیشنڈ ڈبے کا ٹکٹ لے کے سوار ہوگئے .

ٹرین کا یہ سفر زیادہ پرلطف ہوسکتا تھا جو اگر ہمارے ہم رکاب ایک مولوی صاحب نہ ہوتے کہ جو کسی سامع کے لیئے عرصے سے ترسے ہوئے معلوم ہوتے تھے اور تمام سفر میں جہادی جذبے سے ہماری سماعتوں کو لہو لہو کرڈالنے کے مورچے پہ ڈٹے رہے ۔۔ دوسری طرف ہمارے ساتھ ایک اور ہمراہی پولیس کے درمیانے درجے کے ایک قریب الفارغ پولیس افسر تھے اور ہمارے صحافی ہونے کا شک پڑتے ہی اپنے ان تمام معرکوں اور کارناموں کی کتھا لے بیٹھے کہ جو انہوں نے خوابوں اور خیالوں میں سرانجام دیئے تھے ورنہ اگر واقعی انجام دیئے ہوتے تو وہ اس کچھوا صفت ٹرین میں دھکے کھانے کے بجائے بڑے افسر بن کے ہوائی جہاز میں سوار ہوئے ہوتے ۔۔۔

دوسری طرف ہمارے   بنیادی ہم سفر یعنی فہیم برنی نے تو اکثر ٹرین کی برتھ ہی سنبھالے رکھی کہ جہاں پہ وہ زیادہ تر ایسی والہانہ لگن سے جمے رہے کہ جیسے یہ برتھ ہی انکی برتھ پلیس ہو یا پھر جیسے کوئی زچہ پہلی بار میں ہی لڑکا پیدا کرڈالنے کے کارنامے کے بعد ہسپتال کے بیڈ پہ بڑے احساس فخر کی سرشاری اور شدید نقاہت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ہمہ وقت نیم دراز سی دھری رہتی ہے ۔۔۔

تھوڑی تھوڑی دیر میں ٹرین کی دھکڑ دھکڑ کی جناتی لوری سے انکی آنکھیں بند ہوجاتی تھیں اور منہ کھل جاتا تھا۔۔۔ پھر وہ ہوتے تھے اور انکے اسرافیلی خراٹے ۔۔۔ جن کے آگے ٹرین کے فراٹے بھی ماند پڑجاتے تھے ۔۔۔۔ کئی بار تو ہم ٹرین رکنے کی بدگمانی میں ذرا کی ذرا اترپڑنے کو اتارو ہوئے لیکن پھر پتا چلا کہ برنی کے خراٹے تھمے ہیں ٹرین نہیں تھمی (اس سفر کی تفصیل پھر کبھی سہی)

لاہور پہنچے تو وہاں کی فضاء سخت گرمی سے جھلسی ہوئی پائی اور ایسی پھوڑا پھنسی پرور صورتحال کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہاں وہاں جابجا خوش خوراک حضرات اور پہلوان لوگ اپنا پورا کرتا اٹھاکےاندھا دھند پھیلا اپنا گودامی پیٹ عجب وارفتگی سے بےتحاشہ کھجاتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ بعضے تو بنیان کی قید سے بھی آزاد ہوتے ہیں اور ایسے میں اپنے لاتعداد میراتھن غذائی معرکوں کی جیت میں ہاتھ لگنے والے لحمی پہاڑ کا بار بار دورہ کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بیحد عبرت انگیزمنظر ہم جیسوں کے لیئے بہت روح فرساء نظارہ ہوتا ہے ۔۔۔ ہم تو کسی مجمع میں اپنی ہی اشیاء کو کھجانے کو بڑی سسکی سی نکلنے تک ٹالے رکھتے ہیں اور پھر مجبور ہوکے چاروں طرف دیکھ کے یہ کام آناً فاناً اس لپک جھپک سے کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو یہی اندیشہ ہوتا ہوگا کہ کسی اور کے ذاتی سامان سے بد ذاتی کررہے ہیں ۔۔۔ اب کے بھی وہاں یہ عجیب معاملہ   دیکھا کہ بڑے بڑے جامہ زیب لوگ بھی جو صبح اپنے نئے تراشیدہ سوٹ کی داد پارہے ہوتے ہیں دفتر سے گھر لوٹنے کے بعد انکی تمامتر جامہ زیبی ڈھیلے سے بنیان کی کھپ میں کھپ جاتی ہے اور دھوتی کی ڈب میں ڈوب جاتی ہے

اس بار کی لاہور یاترا میں سب سے زیادہ حیران کن بات شہر کی بڑھوتری تھی ۔۔۔ سارا لاہور شہر ہی کسی مفلس کے ناقبل علاج سرطان کی مانند تیزی سے بڑھے چلا جارہا  ہے اور وہ شہر کہ جس میں کبھی رکشے میں بیٹھیں اور نہ روکیں تو گیارہویں منٹ پہ وہ شہر سے باہر ہوتا تھا اب رکشا ناک کی سیدھ میں ایک گھنٹہ بھی چلے تب بھی کچھ نہ کچھ لاہور باقی موجود دکھتا ہے ۔۔۔ یعنی ایک ہی لاہور اب کئی لاہوروں پہ مشتمل ہوا معلوم ہوتا ہے۔۔ یہاں کی ہر چیز ہی بدل رہی ہے کہیں اچھے روپ میں تو کہیں برے روپ میں ۔۔۔ مثلاً کبھی اس شہر کی ایک بڑی خاص چیز یہاں کی لسی تھی جو پہلے دہی کی بنتی تھی اب کے پایا کہ دھوکہ دہی سے بنتی ہے ۔۔ یوں آخر میں وہ ٹھاٹھ دار مونچھیں نہیں بن پاتیں کہ جن سے خود کو ‘ لسی شدہ’ دکھاکے کسی کو ہڑکا سکیں ۔۔۔۔ اور محض دھوون سے قابل نمائش پائے کی مونچھیں ہرگز برآمد نہیں ہو پاتی ہیں ۔۔۔ پائے سے یاد آیا کہ لاہوریوں کا ذوق پائےخوری قدرے کم تو نظر آیا لیکن اب بھی کوئی لاہوری اگر سری پائے سے نبردآزما ہو تو پھر یہ معاملہ سراسر معرکہ حق و باطل کا بن جاتا ہے؂

ویسے یہاں کے خصوصی پائے یعنی پھجے کے پائے کھانے کے لیئے اک خصوصی امتحان سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ شہر کے مشہور ترین ‘پھجے کے پائے’ کا ہوٹل ہیرا منڈی میں واقع ہے جہاں ملک بھر کی کانوں سے زبردستی نکالے ہوئے اور چند وہیں پالے گئے چنیدہ ہیرے وافر طور پہ دستیاب ہیں ۔۔ ہم نے محسوس کیا کہ اس ہوٹل کے پائے کی لذت کے بس افسانے ہی افسانے ہیں اور اسکا سبب بھی سمجھ میں آگیا کیونکہ یہ دیکھا کہ کھانے کے دوران حرام ہے جو کسی کی توجہ اپنی پلیٹ پہ ہو ، بس اسی ولولے میں گاہکوں کو جیسا بھی مل جاتا ہے بےدھیانی میں کھا مرلیتے ہیں ۔۔لیکن کھانے کے دوران وہ جو بار بار ہونٹ چاٹتا دکھتے ہیں تو یار لوگ شدید مغالطے میں اس عمل کو پائے کے ذائقے کے سبب باور کرتے ہیں۔

اس بار کی لاہور یاترا میں ایک حوصلہ شکن بات یہ پائی کہ اب اس شہر میں تعمیراتی مضبوطی پہ پورا دھیان ہے اور اسکے لیئے چند آسان انسانی راحتیں مسدود ہوتی جارہی ہیں اور اب کسی بھی دیوار کی اوٹ میں بیٹھ کے اسے گرانے کا شغل خطرے سے خالی نہیں رہا۔۔۔ ورنہ پہلے تو ہر دیوار زیر بنیاد آٹھ آٹھ آنسو روتی دکھائی پڑتی تھی اور ان آنسوؤں کے نشانات وہیں تادیر موجود ملتے تھے تا آنکہ ‘ نئے’ آنسو نہ بہہ  نکلیں اور یوں اب کے لاہور کا ماحول بیحد تشویشناک پایا یعنی بڑی حد تک صاف شفاف ۔۔۔ تشویش اس امر کی تھی کہ وہ قدیمی تانگے بھلا کہاں ناپید ہوئے کہ جنکے گھوڑوں کے ہاضمے کی رپورٹ سر راہ بھبھکتی تھی اور جو سوکھ کے سفوف بن کے فضاؤں میں رقصاں رہتی تھی ۔۔۔ سڑکیں یوں صاف رہتی تھیں کہ جیسے ابھی ابھی وزیراعظم کا گزر ہوا ہو ۔۔۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ  کوچوانوں کی صداؤں اور گھوڑوں کی ٹاپوں کے بغیر اب گڑھی شاہو اور لکشمی چوک کیسے پہچانوں گا۔۔۔

یہ بھی بعید از فہم تھا کہ لاہور کے خاکروب اور صفائی کا عملہ اپنے گھر کب جاتے ہیں ۔۔۔ ہمارے یہاں تو بس وزیراعظم صدر اور گورنر و وزیراعلیٰ کل کی آمد کے موقع ہی پہ جھاڑو اور وائپر لیئے یہاں  وہاں پھرتے ہیں اور صاف کی ہوئی شے کو بھی متعدد بار رگڑتے جھاڑتے دکھتے ہیں ۔۔۔ ورنہ تو وہ عموماً کچرے کو یہاں وہاں بہت انصاف سے سڑکوں پہ برابر سے تقسیم کرتے  نظر آتے ہیں ۔

لاہور پہنچتے ہی ہمارے میزبان شعیب بن عزیز  نے فوراً ہی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں لا کھڑا کیا جسکی تفصیل اک الگ مضمون میں دی جائیگی اور اسکے علاوہ بھی ہم کئی دعوتوں اور محفلوں میں مدعو کیئے گئے لیکن ہمہ وقت لرزاں ہی رہے کیونکہ یار من برنی پہلے تولو پھر بولو کے شدت سے قائل تو ہیں مگر صرف دوسروں کے لیئے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر وہ خود تول کے بولنے لگے تو پھربولنے کو شاید کچھ بھی نہ بچے گا اور انکی مست گفتاری نے ہمیں کئی بار وافر بیعزتی کی خندق کے عنقریب پہنچایا لیکن قسمت کی یاوری تھی کہ ہر بار بال بال بچے ۔۔۔ دراصل وہ ہر چیز پہ اک ایسی لاپرواہی سے آبیل مجھے مار قسم کا جہادی تبصرہ کرنے کے عادی مبصر ہیں کہ جو انکے احاطہء گمان میں ذرا بھی آپائے ۔۔۔ اسی سبب جب جب وہ کسی تیسرے کے سامنے چہکتے تھے ہمارے حواسوں کے قدم بہکتے تھے اور لاحول ولا کے ورد کے دوران انکی بات کا اطمینان بخش خاتمہ ہمارے لیئے بہت مسرت کا باعث ہوتا تھا۔۔۔ اب کے انہوں نے لاہور میں رکشوں میں دروازے لگے دیکھے تو بہت بدمزہ ہوئے ۔۔۔ حالانکہ وہاں گرمی کا موسم تھا اور انہیں پہلے سے فہیم برنی کی آمد کی خبر بھی نہ تھی جس پہ انہوں نے جو فی البدیہ ناقابل اشاعت رواں تبصرہ کیا اسے اگر وہ رکشے والا سن پاتا تو شاید ساتھ چلتی نہر والی سڑک پہ از خود رکشہ پلٹ دیتا اور پھر شاید کوئی راوی ہمیں دریائے راوی سے برآمد ہوتا دیکھنے کی روایت قلمبند کرتا ۔۔۔ وہ رکشے کے دروازے لگانے والی بداعتمادی پہ کافی دیر بدمزہ رہے کیونکہ دریں حالات وہ ان دروازوں کے پار سجی کہکشاؤں کو اپنی تجزیاتی نظروں سے ٹٹولنے سے قاصر تھے تاہم وہ ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں ، اور انکی نگاہیں آگے پیچھے دائیں بائیں واقع کسی نہ کسی دراڑ سے در آنے یا خلا یا گیپ سے سر نیہوڑا کے اندر پہنچنے کی کوششیں کرتی ہی دیکھی گئیں جیسے کچھ سرفروش کسی نہ کسی طرح گرلز اسکول و کالج کے اندر تک جاپہنچنے کی ہرممکن کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔۔۔

وہ اور ہم قسمت کے دھنی تھے کہ اؤل تو شاعر بے مثل اور یار بے بدل شعیب بن عزیز کی فراہم کردہ سہولت قیام بہت عمدہ طریق پہ میسر آگئی دوسرے یہ کہ  ہماری آمد کے تیسرے ہی روز بادل خؤب گھر کے آئے اور شاید ہماری آمد کی خوشی میں چھما چھم بارش بھی ہوگئی گھنگھور گھٹا سے برکھااترنے کی دیر تھی کہ فہیم برنی کے غزال ترنم نے قلانچ بھری اور آن کی آن بشیر احمد کے مدھر سنگیت کی وادیوں میں اتر گیا ۔۔۔ رکشا انکی تانوں سے گونجنے لگا ” یہ موسم یہ مست نظارے ، پیار کرو تو ان سے کرو” یا پھر یہ کہ ‘ جدھر دیکھتا ہوں میں ادھر تو ہی تو ہے” وغیرہ وغیرہ ۔۔ رکشے والا بھی مسحور ہوکے رکشہ لہرانے لگا۔۔ رستے سے ہمیں کیپٹن بلیک والے سگار بھی مل گئے ۔۔۔ بس پھر کیا تھا ۔۔ سارا سفر ثمر بار ہوگیا ۔۔ گھنٹے بھر میں دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ہوگیا اور کہیں کہیں نئے لاہور میں سے بھی پرانا لاہور ابل پڑا۔۔۔ ڈیفنس اور قصور پورہ ایک پیج پہ آتے معلوم ہوئے اور جوہر ٹاؤن جوہڑ ٹاؤن بنتے بنتے رہ گیا ۔۔۔ تاہم چونکہ لاہور باغوں کا شہر ہے لہٰذا برسات نے سبزے کی چھب  کو اس قدر دلپذیر کردیا کہ نگاہ ڈولنے لگی اور بدن کا پور پور لطف و انبساط سے بھرسا گیا

گھر پہنچے تو شدید تھکن کے باوجود بہت مسرور تھے لیکن موسم کی اس مہربانی کے باوجود ہم لاہور مزید نہیں رک سکتے تھے حالانکہ ہمیں تو اور آگے یعنی اسلام آباد بھی جانا تھا اور ایک اہم مقصدی اجلاس میں بھی شریک ہونا تھا لیکن ہمیں بادل نخواستہ فوری واپس آنا ہی پڑا کیونکہ برادرم فہیم برنی کی اہلیہ نے انہیں فوراً کراچی طلبی کا نوٹس جاری کردیا تھا جسکی وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ انکے گھر آنے والی پانی کی پائپ لائن گھر کے سامنے پھٹ گئی تھی ، اور یارو اب مجھ سے یہ مت پوچھیئے گا کہ اس نوٹس کے نتیجے میں بیگم سے بہت ڈرنے والے ہمارے بھائی فہیم برنی کی جو شے پھٹی تھی وہ کیا تھی ۔۔۔ لیکن چلیں میں بتادیتا ہوں ۔۔ وہ چیز کلیجہ تھی ۔۔۔ اب آپ بھلے یقین کریں یا نہ کریں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واپسی والی رات دیر گئے میں نے فہیم برنی سے کہا کہ ہم لوگ یوں آناً فاناً واپس جارہے ہیں اور جبکہ اپنے میزبان کو بتایا بھی نہیں ہے حالانکہ انکی فراہم کردہ رہائشی سہولت سے خوب مستفید ہوئے ہیں ۔۔۔ اس پہ برنی نے کہا کہ یار کیا کریں اس وقت تو شعیب صاحب سے فون پہ بھی بات نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ تو سو رہے ہونگے اور ہمیں تو علیٰ الصبح نکلنا ہے جس پہ میں نے انہیں کہا کہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس واپسی کی اطلاع اور اظہار تشکر کا ایک ایس ایم ایس میسیج کردیتے ہیں لیکن لکھیں گے آپ ، وہ بہت جز بز ہوکے بولے ٹھیک ہے میں ایس ایم ایس لکھوں گا ضرور، لیکن لکھوائیں گے آپ ۔۔۔ ۔۔۔ اس پہ میں نے جو میسیج لکھوایا وہ ویسا ہی تھا جیسا کہ شکر گزاری کے پیغامات ہوا کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن برنی مطمئن نہ تھے اور مزید بڑا پیغام لکھوانے کی ہدایت کرتے جارہے تھے ۔۔۔ اس پہ میں نے شکر گزاری و ممنونیت کے دو فقرے اور بڑھواددیئے ۔۔۔ لیکن وہ پھر بھی خوش نظر نہ آئے اور پوچھنے لگے اور کیا لکھوں ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ تو اس  پہ اقبال کے اس مبینہ شاہین نے چڑ کے مسرت شاہین کے سے ولگر انداز دلربائی سے کہا کہ لکھ دو ” آجا میرے پاس تیری پیاس بجھا دوں ۔۔۔!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply