قول و فعل میں تضاد۔۔۔۔مرزا مدثر نواز

وہ ایک بلاگر ہے جسکی وال پر کبھی کبھار کوئی اچھی و معلوماتی چیز بھی دستیاب ہوتی ہے۔ موصوف اپنا تعلق اور لگاؤ ایک بے ضرر مذہبی جماعت سے بتاتے ہیں جس پر انہیں کافی فخر ہے اور گذشتہ سینتیس سال سے اپنا وقت اور ہمدردیاں اللہ کی رضا کے لیے اس جماعت کو دے رہے ہیں۔ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن گمان کر سکتا ہوں کہ ان کا سوشل میڈیا پر موجود ہونے اور بلاگ لکھنے کا مقصد نئی نسل کو دہریت زدہ خیالات سے دور رکھنا اور اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرانا ہے لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تین چوتھائی پوسٹیں ایک سیاسی جماعت کی حمایت و مدح میں ہوتی ہیں بلکہ سیاسی جماعت کی بجائے سیاسی شخصیت یا خاندان کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اگر ان کی کسی پوسٹ پر نادان و جاہل آدمی اچھے و بہترین انداز میں اپنی رائے کا اظہار کر دے یا کوئی سوالات اٹھائے جو ان کی سوچ سے مطابقت نہ رکھتے ہوں تو جناب سیخ پا ہو جاتے ہیں اور انتہائی جارحانہ‘ ذلت آمیز اور سخت الفاظ میں جواب عنایت فرماتے ہیں‘ وال پر دوبارہ رائے کا اظہار نہ کرنے کا دھمکی والے  لہجے میں کہتے ہیں اور بالآخر جو ان کی سوچ اور رائے سے اتفاق نہ کرے تو اسے بلاک کر دیا جاتا ہے۔نیم برہنہ لباس میں تھر تھراتی ہوئی ڈانسر میں ان کو فن نظر آتا ہے اور اگر کوئی ان کے دینی لگاؤ کی وجہ سے پوچھ لے کہ اس میں کوئی برائی تو نہیں تو سیخ پا ہو کر اسے اپنی بصارت کا علاج کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے اپنی بصارت کا علاج کروا لیتے ہیں اگر آپ اپنی پسند کے کسی بھی مفتی صاحب سے اس فن کو بغیر گناہ کے دیکھنے اور اس کو پھیلانے کا فتویٰ لے آئیں بصورت دیگر یہی مشورہ آپ اپنے اوپر لاگو کریں۔ جس جماعت کے ساتھ آپ کو اپنے سینتیس سالہ لگاؤ پر فخر ہے وہ تو ہمیشہ اللہ کے پیغمبرﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گالیاں بھی سنتی ہے‘ تکلیفیں بھی برداشت کرتی ہے‘ توہین آمیز رویے کا سامنا بھی کرتی ہے لیکن قرآن و سنت کا پیغام پہنچانے کے لیے پیار و محبت کا رویہ ترک نہیں کرتی‘ توڑ کی بجائے جوڑ کی حامی ہے‘ شخصیت پرستی کی حامی نہیں‘ اس کے اکابرین رو رو کر برداشت و صبر کی تلقین کرتے ہیں۔صوفیاء و اولیاء کی سر زمین پر رہنے والو‘ اگر ان بزرگان دین کا رویہ غیر مسلموں کے ساتھ ذلت آمیز‘ عدم برداشت والاہوتا تو آج شاید وہاں اذان کی آواز نہ گونجتی۔ وہ علم و عقل جو آپ کے اندر کے راجپوت کو شکست نہ دے سکے‘ اس کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے
؂ جو علم تجھے تجھ سے نہ لے لے
اس علم سے جہل بہتر ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک اور بہت پیارے بلاگر ہیں جن کی اکژ پو سٹیں معلومات سے بھر پور ہوتی ہیں۔ ان کی بھی تقریباََ تین چوتھائی پوسٹیں ایک مخصوص سیاسی جماعت کی حمایت اور دوسری کی مخالفت میں ہوتی ہیں۔ ان کی رائے سے بھی اگر آپ اتفاق نہ کریں تو انتہائی جارحانہ انداز اپنا لیتے ہیں اور بڑے فخر سے بلاک کرنے کی دھمکی کا اظہار کرتے ہیں۔ موصوف کئی دفعہ اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کا مقصد صرف اور صرف نوجوان نسل کو دہریت سے دور رکھنا اور اسلام کے قریب کرنا ہے۔ حقیقتاََ یہی مقصد ہے تو پھر کسی مخصوص سیاسی جماعت و خاندان کی حمایت میں اس قدر آگے چلے جانا اور اپنے بلاگز کو ان کی حمایت تک محدود رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بطور ایک صحافی‘ تجزیہ کار یا کالم نگار آپ کی ہمدردیاں کسی مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ ہو سکتی ہیں لیکن دوسروں کو بھی ان کی اپنی رائے کا حق دیں اور اختلاف رائے کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں نہ کہ یہ رویہ رکھیں کہ صرف میں ہی عقل کل اور ہدایت یافتہ ہوں۔ اگر دہریت کی طرف رجحان رکھنے والوں کو آپ انتہائی ذلت آمیز طریقے سے جواب دیں گے اور ہمیشہ غصے میں بھرے نظر آئیں گے اور اس کا اظہار بھی کریں گے تو کوئی کیسے آپ کے خیالات کی طرف مائل ہو گا اور آپ کیسے تبلیغ جیسے عظیم فریضہ کا حق ادا کریں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

محترم طفیل ہاشمی صاحب بھی سوشل میڈیا پر بہت اچھی پوسٹیں لکھتے ہیں‘ ان کی ہر پوسٹ نہایت مختصر اور معلومات سے بھر پور ہوتی ہے‘ ہر بات کا مدلل جواب ہوتا ہے۔ محترم بھی ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن اختلاف رائے رکھنے والوں کو کبھی ذلیل نہیں کرتے‘ اگر کوئی ناشائستہ الفاظ بھی استعمال کرے تو چشم پوشی سے کام لیتے ہیں اور اپنی رائے دینا مناسب نہیں سمجھتے‘ کیا ہی پیارا انداز ہے۔ محترم جناب قاری حنیف ڈار صاحب سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن میں نے انہیں بھی کبھی جارحانہ اور متشدد رویہ اپناتے ہوئے نہیں دیکھا‘ اپنی پوسٹوں پر رائے کا اظہار کرنے والوں کو نہایت شفقت بھرے انداز سے جواب دیتے ہیں۔
خالق کائنات کی مصلحتیں و حکمتیں ہیں کہ اس جہاں میں ہر ایک کی سوچ و خیالات دوسرے سے مختلف ہیں۔ خالق نے بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جو زندگی بھر مخلوق کو خالق کی طرف بلاتے رہے۔ حضرت نوعؑ ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو معبود برحق کی طرف بلاتے رہے اور نتیجے میں ایک سو سے بھی کم لوگوں نے ان کی بات کی تصدیق کی۔ اللہ برحق نے جس پیغمبر کو بھی بھیجا‘ اسے یہ پیغام دیا کہ آپ نے حکمت و دانائی سے میری مخلوق کو میری طرف بلانا ہے‘ حضرت موسیٰ و ہارونؑ کو فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ فرعون سے نرم انداز میں گفتگو کرنی ہے۔ اپنے لاڈلے و پیارے نبیﷺ کو فرمایا کہ حکمت و دانائی سے میرا پیغام اپنی قوم تک پہنچائیں‘ کوئی مانے یا نہ مانے‘ اس کا جوجھ آپ پر نہیں اور آپ کو اس پر رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اے میرے پیارے نبیﷺ کی امت‘ اپنے چہروں پر سنت سجانے والو‘ کیا بنی کا یہی طریقہ تھا کہ صرف اپنے آپ کو ہدایت یافتہ جان کر اختلاف رائے رکھنے والوں کو ذلیل و رسوا کیا جائے‘انہیں جاہل کہا جائے‘ ان پر لعنت کی جائے؟اگر نہیں!یقیناََ نہیں تو پھر قول و فعل میں تضاد کیوں؟

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply