گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباًبہتر چارسو چھانوے کلومیٹر ہے جس میں ستانوے فیصد پہاڑ اور گلیشر اور نیشنل پارکس پر مشتمل ہیں۔ باقی تقریبا ڈھائی فیصد زمین میں تقریبا ڈیڑھ فیصد وہ زمینیں ہے جو زمانہ قدیم میں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سنگلاخ پہاڑوں خطرناک مقامات کو چیر کر واٹر چینل بنا کر آباد کیا۔ تقریبا ڈیڑھ فیصد زمیں ایسی ہے جو بنجر پڑی ہے مگر قابل کاشت ہے جسے سکھوں کے دور میں خالصہ سرکار کا نام دیا اور اس اصطلاح کو ڈوگروں نے بھی استعمال کیا اور 1947 سے لیکر آج گلگت بلتستان کیونکہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اس وجہ سے اس صطلاح میں کوئی رد بدل نہیں کی گئ۔اس مسلے کو سمجھنے کیلئے اس بات کا سمجھنا لازمی ہے کہ گلگت بلتستان حکومت جس کی بنیاد کسی آئین اور قانون کے مطابق نہیں بلکہ صدارتی حکم نامے پر رکھی گئی ہے۔ اُنہوں اس اصطلاح کو باقاعدہ سرکاری زمین کہنا شروع کردیا۔ جسےاب اسمبلی میں قانون سازی کے زریعے باقاعدہ مستقل طور پر سرکاری زمین قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان میں اٹھارہ سے بیس لاکھ کنال زمین ایسی ہے جو خالصہ سرکاری کے نام سے محکمہ مال کے ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ تقریبا بارہ لاکھ اٹھاسی ہزار پر موجودہ گلگت بلتستان آبادہے جس کی آبادی لگ بھگ پچیس لاکھ سے ذیادہ ہے۔ یوں اگر اس مسودہ کا اطلاق ہوتا ہے تو گلگت بلتستان کے پہاڑیں جس میں معدنیات اور قدرتی جڑی بوٹیاں ہیں اور چراہ گاہیں جہاں عوام مال مویشی اور گھاس چرائی کرتے ہیں، عوام سے چھن جائیں گی۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جو لوگ عوام سے ووٹ لیکر عوامی مسائل کی حل کیلئے اسمبلی پہنچایا تھا اُنہوں نے پہلے گرین ٹورازم کے نام پر عوام سے معشیت کے مواقع چھین لی اور لینڈ ریفارمز کے زریعے زمینوں کی بندربانٹ کیلئے کوشش کی اور اب خالصہ زمینوں کو سرکاری زمین قرار دیکر عوام بیدخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس بات میں کوئی شک یا انکار نہیں کہ وہ تمام زمینیں جو خالی پڑی ہوئی ہے اس حوالے سے قانون سازی کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کا مسلہ پیچیدہ اور منفرد ہے۔ اس خطے کے عوام جب خطے کو باقاعدہ دیگر صوبوں کی طرح صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتا ہے تو اقوام متحدہ کی قراردادیں آڑے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ آرسا، این ایف سی شامل ہے نہ گلگت بلتستان کا قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کا حق ملا ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ اس خطے کا متنازعہ ہونا ہے۔گلگت بلتستان کی قسمت مسلہ کشمیر سے منسلک ہے، یہ بات سپریم کورٹ آف پاکستان بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں اقوام متحدہ کے قراردادوں میں بھی یہی لکھا ہوا ہے جس پر حکومت پاکستان باقاعدہ دستخط کار ہیں۔ ایسے میں گلگت بلتستان کی جعرافیائی حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اقوام متحدہ کے قراردادوں اور مسلہ کشمیر کے حوالے سے ریاست پاکستان کے اصولی موقف کی سنگین خلاف ورزی ہے۔خالصہ سرکاری کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے مسلہ کشمیر کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان لداخ سابق ریاست جموں و کشمیر کا حصہ اور ریاست کا تیسرا بڑا صوبہ تھا جسے صوبہ گلگت لداخ کہتے ہیں اور آج بھی سرکاری دستاویزات اور اقوام متحدہ کے قراردادوں میں گلگت لداخ صوبہ ہی درج ہے۔ خالصہ سرکار کو سمجھنے کیلئے اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تومعلوم ہوتاہے کہ ڈوگروں سے پہلے سکھ سلطنت برصغیر میں ایک بڑی طاقت تھی جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں اُبھری۔ سکھوں نے 1799ء میں لاہور پر قبضہ کیا اور پنجاب کے ارد گرد کے علاقوں پر سلطنت قائم کی اور یہ سلطنت 1799ء سے 1849ء تک قائم رہی۔اس وقت ہندوستان میں کئی سکھ سیاسی تنظیمیں خالصہ ریاست کی بحالی کے لئے باقاعدہ سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس ریاست کا نام خالصہ سرکاریا سکھ پنجابی بادشاہت تھا جو امرتسر اور لاہور سے ابھر کر پنجاب و گرد و نواح پر قابض ہوئی۔ اور جس کے اثرات اس وقت گلگت لداخ تک بھی پہنچے۔
مولوی حشمت اللہ اپنی کتاب تاریخ جموں میں لکھتا ہے کہ خالصہ سرکار حکومت 1799 سے 1849 تک رہی اور اس کے بعد پنجاب میں لڑی جانے والی انگریز سکھ جنگوں میں یہ سلطنت تباہ و برباد ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں پھیلی نیم خود مختار سکھ مسلوں یا راجدھانیوں کو منظم کر کے خالصہ سرکار یا سکھا شاہی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اپنے عروج پر یہ سلطنت خیبر پاس سے لے کر تبت کے وسط تک اور مٹھی کوٹ کشمیر تک پھیل چکی تھی۔ زور آور سنگھ کشمیر میں سکھوں کے گورنر جموں، گلاب سنگھ کا وزیر تھا جو وہاں سے آگے سکھا شاہی کے قیام کے لئے بڑھا۔ اُنہوں نے لداخ کو مقامی راجاوں کی ملی بھگت سے 1840 میں فتح کرکے اسی سال سکردو کو بھی فتح کرلیا۔ فتح کے بعد اُنہوں نے بلتی سپاہیوں کو بھی اپنی فوج میں شامل کرکے تبت پر بھی حملہ آور ہوئے۔دوسری طرف سکھ فوج کا ہی کرنل نتھو شاہ، گلگت پر حملہ آور ہوئے اور پہلی مرتبہ راجہ گوہر امان کو شکست دے کر اس نے گلگت میں قدم جما لئے۔ وہ 1848 میں، نو مل کے قریب جنگ میں ہلاک ہوگئے۔
تاریخ خالصتان مطابق خالصہ سرکار لاہور، ملتان، پشاور اور کشمیر کو ملا کر چار صوبوں پر مشتمل تھے۔ جبکہ کرنل زور آور سنگھ گلگت پر سرینگر کی جانب سے حملہ آور ہوا تھا اور سرینگر کے حکمران کو ہی جواب دہ تھے۔ 16 مارچ 1840 کو معاہدہ امرتسر کے تحت انگریزوں نے گلگت اور لداخ بشمول بلتستان کی وزارتیں، جموں کے ڈوگرہ راجے کے حوالے کیں۔ کرنل نتھو شاہ، حکمران تبدیل ہونے پر پریشان ہو کر سرینگر پونچ گئے تاکہ معلوم کرسکے کہ اُنہیں اب تنخواہ اور مراعات کون دے گا۔مہاراجہ کشمیر نے اسے اپنی گلگت عملداری جاری رکھنے کو کہا۔بالآخر 1860 میں کرنل نرائن سنگھ گلگت پر پوری طرح سے قابض ہو گیا۔ یوں بلتستان کے ذیادہ تر اراضی سکھوں کے دور میں ہی خالصہ ریاست کی ملکیت ہوگئی اور اُنہوں نے لینڈ ریفارمز کے ذریعے زمینوں کی قانونی حیثیت مرتب کی ۔ یوں اگر ہم سکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کو سامنے رکھتے ہوئے اگرستائیس اکتوبر1947 کو مہاراجہ کی طرف سے ہندوستان سے الحاق کی داستان کا مطالعہ کریں تو مقامی لوگوں کے حقوق غصب کیے جانے تاریخ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ 27 اکتوبر 1947 کو جب مہاراجہ گلاب سنگھ نے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کی تو گلگت لداخ میں کشمیر فوج کے آفیسر کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور صوبہ گلگت لداخ کا گورنر برگیڈر گھنسارا سنگھ گلگت میں گرفتار ہوئے ۔یوں ایک طرح سے گلگت تا لداخ سے مہاراجہ کشمیر کی حکومت ختم ہوگئی۔ دوسری طرف میں گلگت میں جمہوریہ گلگت کا اعلان ہوگیا جو صرف16 دنوں تک اپنے ہی لوگوں کی غداری اور لاشعوری کے سبب اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ گلگت لداخ جو اُس وقت جنگی حالات میں تھے ایک غیر مقامی ارتباطی آفیسر کے سُپرد ہوگیا اور اُنہوں جمہوری نظام کی بنیاد رکھنے کے بجائے سرحدی قانون ایف سی آر نافذ کر دیا جو 1974 تک جاری رہا۔ انقلاب گلگت کے بعد گلگت بلتستان نہ مکمل طور پر پاکستان میں شامل ہوسکے اور نہ ہی اس خطے کو مسلہ کشمیر کے تناظر میں اقوام متحدہ کی قرارداد 13 اگست 1948 کے مطابق حقوق ملے بلکہ پاکستان نے وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی ، کشمیر رہنما سردار ابراہیم نے اس خطے کی سیاسی قیادت کو کسی قسم کی اعتماد میں لئے بغیر معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے زریعے گلگت لداخ کے انتظامی امور پاکستان کے سُپرد کی جو تاحال جاری ہے۔ یعنی گلگت بلتستان والوں کے ساتھ ایک اور تاریخی دھوکہ ہوگیا جس کی سزا آج تک یہاں کے عوام بھگت رہے ہیں۔ذولفقار علی بھٹو نے جہاں ایک طرف راجگری نظا م کا خاتمہ کیا وہیں اُنہوں مسلہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا بدترین آغاز کیا ، حالانکہ بھٹو صاحب اس بات کی مجازاتھارٹی نہیں تھے۔ اُن کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو باقاعدہ پاکستان میں شامل کرنا چاہتے تھے ۔ اُنہوں گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر میں جب پیپلزپارٹی کا بنیاد رکھا تو مرحوم امان اللہ خان صاحب کوپارٹی صدر کی آفر کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس خطے کو صوبہ بنانا چاہتے ہیں لہذا آپ پارٹی میں شامل ہوجائیں تو امان اللہ خان صاحب نے ایک ہی جملہ کہا کہ آپ مسلہ کشمیر کو کیا کریں گے؟ اور وہ لاجواب ہوگیا۔
اُس وقت سے لیکر آج تک یہاں کی خالصہ زمینوں کی (وہ سرکار جو خود کہتا ہے کہ یہ خطہ متنازعہ ہے) بغیر کسی معاوضے کے بندر بانٹ جاری ہے جسے اب گلگت بلتستان حکومت کے زریعے باقاعدہ قانون بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین اہم فیصلوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 آور اقوام متحدہ کے متفقہ قراردادوں کی روشنی میں جب تک مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی پیش رفت نہیں ہوتے گلگت بلتستان زمینوں سے چھیڑچھاڑ ایک نیا محاذ کھول سکتا ہے ۔جس سے یقینا ہندوستان فائدہ اُٹھائے گا کیونکہ پاکستا ن ہر فورم پر انڈیا کے زیر انتظام جموں کشمیر لداخ میں اقوام متحدہ کے قراردادوں خلاف ورزی پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔ لہذا گلگت بلتستان کی اسٹرجیک اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس خطے میں بیوروکریسی کے زریعے اس قسم کے ہتکنڈوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو مسلسل اس خطے کی نئی نسل میں باغیانہ اور محرومانہ سوچ پیدا کر رہا ہے جو کسی بھی حوالے سے پاکستان کے مفاد میں نہیں۔گلگت بلتستان قدرت کا وہ انمول شاہکار ہے جہاں وسائل کی کمی نہیں لیکن وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے کوشش کرنے کے بجائے مسلسل مسائل پیدا کرنے والے فیصلوں نے گلگت بلتستان احتجاج والا خطہ بنایا ہوا ہے جس سے نہ صرف مسلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف پر منفی اثر پڑ رہا ہے بلکہ سیاحت کے شعبےکو بھی بہت ذیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان میں خالصہ زمینوں کے حوالے سے غلط تشریحات کو ترک کرکےسٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزیوں کو روکیں اور مقامی سطح معاشی مواقع پیدا کرنے کیلئے وسائل فراہم کریں اور گلگت بلتستان میں آئین ساز اسمبلی قیام کو یقینی بنائیں۔ تاکہ اس خطے وسائل اور مسائل کا حساب کتاب ہوسکے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں