رائے بنا لینا۔۔حسان عالمگیر عباسی

جہاں بہت سے مسائل ہیں وہاں فوری گمان کر لینا assuming اور یکدم رائے بنا لینا یعنی judgmental ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ کتاب کا کور آپ کو کتاب کی اصلیت نہیں بتا سکتا۔ کتاب کا کور خوبصورت ہونے کا مطلب نہیں ہے کہ کتاب میں سب بہترین ہے اور کتاب کے کور کی بدصورتی کتاب کا من میلا نہیں کر دیتی۔ اچھا کسی کو جانچنے کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ پرکھنا اور بدگمانی تو ویسے ہی غیر قرآنی حرکت ہے۔

ہمارے معاشرے میں اگر کوئی شخص ایمانی قرآنی بات کرتا ہے تو ساری امیدیں اسی سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو فخر جتانے اور دوسرے نظریے اور دلائل کے مقابل اسے برہان سمجھتا ہو۔ اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ وہ راتوں کو جاگتا بھی ہو گا؟ یہ قرآن و حدیث کوئی مولوی بن جانے کی دوائی نہیں ہے بلکہ یہ عظیم قوم یعنی امت مسلمہ کا سرمایہ افتخار ہے۔ راتوں کو جاگنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا اگر دین یعنی نظام کفریہ ہے۔ ایک داڑھی والا اور راتوں کو جاگنے والا کوئی مخصوص یا الگ مخلوق نہیں ہوتی۔ وہ ہم میں سے ہے۔ فلم بھی دیکھ سکتا ہے۔ امیدیں باندھنا اور توقع کرنا عجیب و غریب حرکت ہے۔ اگر کوئی چیز غلط ہے تو پہلے اپنے اندر سے ختم کرنی ہوتی ہے۔ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ اچھائی و برائی بھی خود طے کرنی ہے اور اچھائی صرف دوسرے ہی سے متوقع ہے؟ یہ خوامخواہ آئیڈیالائز کرنا غلامانہ سوچ ہے۔ آئیڈیل رہنما صرف محمد ص ہیں۔ اگر جانچنا یا پرکھنا ہے تو ان کے ماڈل کے مطابق اپنے آپ کو پرکھنا ہے۔ ارشاد ہے کہ رسول ص کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ایک شعر ذہن میں آ رہا ہے۔

جب بھی دنیا میں قیادت کا سوال آتا ہے
دل میں فوراً ہی محمد ص کا خیال آتا ہے

ایمان اندر اور باہر کی مجموعی کیفیت کا نام ہے۔ بظاہر مولوی مومن نہیں بن جاتا۔ ہر ایک کو زندگی گزار لینے دیں۔ توقعات وابستہ نہ کریں۔ ایمان کی کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔ اگر اتنا ہی پیار ہے تو دعائیں دیا کریں اور محبت لٹایا کریں۔ سامنے والا جو بھی ہے سانس لے رہا ہے چاہے انسان ہے یا جانور۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک شخص کو جنتی کہہ دیا گیا۔ جب وہ آیا تو سامنے والے نے جانچنا شروع کر دیا۔ نہ وہ تہجد گزار تھا اور نہ عبادت گزار۔ بس فرائض کی حتی المقدور ادائیگی تھی۔ چند دنوں بعد اس نے پوچھا کہ آپ میں ایسا کچھ نہیں ہے جہاں سے اندازہ ہو سکے کہ وہ جنتی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ عام انسان ہے لیکن من میلا نہیں ہے۔ سب کے لیے صاف ستھرا ہے۔ بغض و عناد نہیں رکھتا۔

ایک عام زندگی گزارنے دی جائے تو افضل ہے۔ کوئی دین کا علم بلند کرلے تو دین کے سارے تقاضوں کو پورا کرنے کی امید اس سے باندھ لینا فضول عمل ہے۔ آپ بھی تو مسلمان ہو۔ اپنا محاسبہ تو پہلے کرو۔ دین دلیل بھی تو ہو سکتا ہے۔ دیگر تہذیبوں کے مقابل فخر جتانے والا احساس بھی ہو سکتا ہے۔ اس کو محض نمازوں اور روزوں سے تعبیر کر کے اس کی اہانت عجیب حرکت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خیر کی تلاش ہونی چاہیے۔ ننانوے برائیوں میں اگر ایک خیر ہے تو خیریت ہے۔ نناوے اچھائیوں میں اگر ایک برائی ہے تو بھی خیریت ہے۔ ایک شخص کو دین اگر پسند ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب سامنے والی کی ذمہ داری لگ گئی ہے کہ اس کی برائی پہ اس کی کلاس لینے لگے گا یا دل ہی دل میں اس بنیاد پہ منافق سمجھنے لگے گا۔ منافق وہ خود ہے جو اوچھی حرکت کر رہا ہے۔ مومن مومن کا آئینہ ہے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن دوسرے کا خیرخواہ ہے۔ وہ برائی پہ مرچ مصالحے نہیں چھڑکتا۔ اسے خیرخواہانہ انداز میں بتا دیتا ہے۔ الدین نصیحة سے مراد ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے۔ دین بظاہر دینی نظر آنے والے کے لیے نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے اترا ہے۔ پرکھنے کے لیے اپنا گریبان زیادہ قریب ہوتا ہے۔ انگلی دوسرے پہ ہوگی تو تین آپ کا منہ بھی چڑا رہی ہوتی ہیں۔ اللہ نے ہم سب کی برائیوں پہ پردے ڈال رکھے ہیں اور اگر خدا ظاہر کر دے تو سروائیول مشکل ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عام بندوں میں عامیانہ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply