• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خواجہ سراؤں کی خرید و فرخت کا سلسلہ بند کیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

خواجہ سراؤں کی خرید و فرخت کا سلسلہ بند کیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

وطن عزیز میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی تحریک میں اہم موڑ اس وقت آیا جب میں نے انکے حقوق پر باقاعدگی سے لکھنا شروع کیا۔ مجھے یہ خیال امریکہ میں خواجہ سراؤں کے حقوق کی تحریک کو پڑھنے کے بعد آیا۔ امریکہ کی مشہور خواجہ سراء ایکٹوسٹ ورجینا پرنس نے 1960ء میں “ٹرانس وسٹا” کے نام سے ایک میگزین شائع کرنا شروع کیا۔ اس میگزین میں خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل پر بحث کی جاتی تھی۔ اس میگزین نے امریکہ میں خواجہ سراء کمیونٹی کے مسائل کے حوالے سے آگہی میں اہم کردار ادا کیا۔

ہماری تحریک میں ایک سال قبل اہم موڑ اس وقت آیا جب راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ہماری دوست میڈم صباء گل نے گرو چیلہ سسٹم کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے آزاد دھڑے کا اعلان کیا۔ میڈم صباء گل نے کمیونٹی کو پیغام دیا کہ جو خواجہ سراء گرو کے رویے اور خرید و فروخت سے تنگ ہیں وہ آزاد دھڑے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ گرو سے میں نمٹ لونگی۔

میں نے میڈم صباء گل کا انٹرویو کیا اور گرو چیلہ سسٹم میں موجود خامیوں کو جاننے کی کوشش کی۔ گرو چیلہ سسٹم کے خلاف میرا کالم چھپنے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں کے گرو حضرات نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور گرو چیلہ سسٹم کے فوائد گنوانے شروع کر دیئے۔ میں نے انکے موقف پر بھی کالم لکھ دیا۔

گرو چیلہ سسٹم سے تنگ آئے ہوئے خواجہ سراء میڈم صباء گل سے رابطہ کرنے لگے۔ میڈم صباء گل پنجاب کے مختلف اضلاع میں جاکر آزاد دھڑے میں شامل ہونے والے خواجہ سراؤں کیلئے تقاریب منعقد کرتیں اور گرو مافیہ کو چیلنج کر دیتیں۔ پھر یہ تحریک پنجاب سے سندھ پہنچی وہاں بھی آزاد دھڑے بننا شروع ہوئے۔
گرو چیلہ سسٹم کے حوالے سے میڈم صباء گل کا موقف بہت واضح ہے۔ میڈم کہتی ہیں کہ یہ سسٹم غلامی کے دور کی نشانی ہے۔ جس میں انسانوں کی خرید و فروخت بھیڑ بکریوں کی طرح کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان کی آزادی چھن جاتی ہے۔

گرو، چیلوں سے دیہاڑی یا ہفتے کے حساب سے پیسے لیتے ہیں۔ نہ دینے کی صورت میں خواجہ سراء کو سزا بھی دی جاتی ہے۔ یہ سزائیں ذہنی یا جسمانی دونوں قسم کی ہو سکتی ہیں۔ ذہنی سزاؤں میں چیلے کو ڈانٹ ڈپٹ یا گالم گلوچ سے نوازا جاتا ہے جبکہ جسمانی سزاؤں میں مار پیٹ یا پھر سیکس ورک پر مجبور کیا جاتا ہے۔

میڈم صباء گل کہتی ہیں کہ وہ اب تک نوے ہزار سے زیادہ خواجہ سراؤں کو گرو مافیا سے آزادی دلوا چکی ہیں۔ لیکن خروید و فروخت کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ چند روز قبل میڈم صباء نے ہمیں خرید و فروخت کے حوالے سے دو ویڈیوز بھیجی ہیں۔ پہلی ویڈیو میں آٹھ دس خواجہ سراء ایک محفل میں کھڑے ہیں۔ امراؤ نامی ایک خواجہ سراء کہتا ہے کہ میں اپنی چیلہ آدی ملک کا حقہ پانی بند کر رہا ہوں۔ پھر وہ ایک خواجہ سراء کو کچھ پیسے دیتے ہوئے کہتا ہے میں آدی کی چٹائی اپنی ماسی شریکا کو دے رہا ہوں۔ پنڈی، ہزارہ یا پورے پاکستان میں کسی خواجہ سراء نے آدی ملک کو اپنا چیلہ بنایا تو اسے مجھے دس لاکھ روپے دینے پڑیں گے۔

ایک اور ویڈیو میں دو مرد بیٹھے ایک خواجہ سراء کا لین دین کر رہے ہیں۔ خواجہ سراء سر جھکائے بیٹھا ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے۔ یہ میرا چیلہ ہے جو مردوں اور زنانیوں دونوں میں ہے۔ میں زنانیوں کا لین دین نہیں کرتا اس لیئے اسے بیچ رہا ہوں۔ دوسرا آدمی اسے ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ میں گرو کو پہلے تین لاکھ روپے دے چکا ہوں۔ اب یہ مورت میری ہوچکی اور گرو کا حساب کلیئر ہوچکا ہے۔

گرو چیلوں کی خرید و فروخت کے وقت اس قسم کی ویڈیوز بنا کر گروپوں میں ڈال دیتے ہیں تاکہ لین دین کا ثبوت بھی رہے اور دوسرے گرو حضرات کو بھی پتہ چل جائے کہ کون سا چیلہ کس گرو کے پاس ہے۔ ویڈیوز کا ایک اور فائدہ بھی ہوتا ہے۔ اگر چیلہ گرو کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بھاگنے کی کوشش بھی کرے تو کوئی اور گرو اسے پناہ نہ دے اور وہ تھک ہار کر واپس آ جائے۔
میڈم صباء گل خرید و فروخت کے اس دھندے کے خلاف سینکڑوں ویڈیوز بنا چکی ہیں۔ حکومت، انسانی حقوق کی وزارت اور ایف آئی اے سے اپیل کر چکی ہیں کہ اس مکرو دھندے کو روکا جائے۔ لیکن ابھی تک کوئی بڑی کاروائی عمل میں نہیں آئی۔
گرو چیلہ سسٹم کے حوالے سے میرا موقف ہمیشہ سے بہت واضح رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے خواجہ سراء جنھیں گھر، خاندان اور معاشرے والے تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ گرو انہی بچوں کو سر چھپانے کو ٹھکانہ دیتے ہیں۔ گرو ان خواجہ سراؤں کے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جو ریاست کو کرنا چاہیئے۔ باقی ہر سسٹم میں اچھائیاں اور برائیاں ضرور ہوتی ہیں۔ برائیوں کو دور کر کے اس نظام سے فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں گروؤں کے ڈیروں کے ہوتے ہوئے حکومت کو خواجہ سراؤں کیلئے الگ سے ری-ہیبلیٹیشن سینٹرز بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ان ڈیروں کو ہی سینٹرز کا درجہ دے دینا چاہیئے۔ ان ڈیروں کا کرایہ اور بجلی کے بل حکومت ادا کرے۔ ڈیروں کے گرو حضرات کو انچارج کا درجہ دیا جائے۔ اسے مناسب تنخواہ اور سرکاری عہدہ فراہم کیا جائے۔

انہی ڈیروں پر دینی اور دنیاوی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ جو خواجہ سراء کام سیکھنا چاہتے ہیں۔ڈیروں میں ہی ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کیئے جائیں۔ ہنر حاصل کرنے والے خواجہ سراؤں کی روزگار کی فراہمی میں مدد کی جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کیلئے خواجہ سراؤں کے ڈیرے ایک ایسا سنہری موقع ہیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مختصر وقت میں خواجہ سراؤں کی بہبود کے بڑے منصوبوں کا آغاز کر سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خواجہ سراؤں کی خرید و فروخت، قتل اور تشدد کے واقعات نفرت کی ایسی آگ ہے جو آہستہ آہستہ خواتین اور دیگر کمیونٹیز کو بھی اپنی لپیٹ میں رہی ہے۔ پر امن معاشرے کے قیام کیلئے اسکا جلد از جلد سدباب ضروری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خواجہ سراؤں کی خرید و فرخت کا سلسلہ بند کیا جائے/ثاقب لقمان قریشی

  1. اسلام علیکم ثاقب بھائی ، شاید ہم بہت ہی بنیادی مسئلہ بھول گئے ہیں ۔ جو ہر جنس کے لیے ضروری ہے ۔ وہ ہے انسان کی بنیادی جبلت بھوک،حفاظت اور عزت۔۔ یہ تینوں بنیادی حقوق کو طے کرتے ہیں ۔ ان میں سے ایک بھی اگر نہ ہو تو گمراہ ہونا لازمی امر ہے ۔۔۔ ان کا اثر میرے خیال میں خواجگان میں زیادہ ہے ۔ اور گرو بھی اس کی وجہ سےیی انتہائی اقدام کرتے ہیں ۔ جب تک بنیادی ضروریات کو پورا نہیں کیا جائیگا کسی بھی جنس کو بہتر نہیں کیا جاسکتا ۔ عورتوں کے مسائل کی بھی وجہ یہی ہیں

Leave a Reply