معاشرے کی آنکھ ۔۔۔۔اے وسیم خٹک

اخبارکا اندرونی صفحہ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ زیادہ تر ریٹائرڈ اور پنشن لینے والے افراد پڑھتے ہیں سارے اخبارات کی جان ہوتا   ہے اور اخبار کی پالیسی اسی صفحے سے عیاں ہوتی ہے کیوں کہ یہاں پر اداریہ چھپتا ہے جس کو کالم نویسی کہتے ہیں اور لکھنے والے کو کالم نگار کہتے ہیں ایک ٹائٹل کے ساتھ تصویر چھپتی ہے جس سے کالم نگار کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے جو جتناسنجیدہ نظر آئے گا لوگ اس کو زیادہ پڑھیں گے ہم نے جب ان صفحات پر لکھنا شروع کیا کہ شاید کالم کو جگہ نہ ملے، بہت سے اخبارات نے اس لئے جگہ نہیں دی اور بہت سے کالم میرے ردی کی ٹوکری کی زینت بنے کہ میں بہت سچ لکھنے کا روادار تھا، پھر خود کو یوں ہم نے اس میدان میں ایڈجسٹ کرلیا اور لکھنا شروع ہوئے ۔ درمیان میں سٹڈی کا گیپ آیا اس عرصہ میں اس صفحے کی محبت نے سارے کالم نگاروں سے روشناس کرایا ،بعض کو ہم ناموں سے جاننے لگے اور خواتین کو ان کی تصویروں سے پہچاننے لگے، یہ جان کر مجھے خوشی ہے کہ پاکستان کے جتنے بھی اخبارات ہیں ان میں سے کالم نگاروں کی تعداد زیادہ ہورہی ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق روزانہ لکھنے والے کالم نگار پانچ سو کے قریب ہیں جن کو لوگ پسند کرتے ہیں اور ان کے قلم میں مزید نکھار محبتیں دیکھ کر آجاتا ہے، بہت سے صحافی ایسے ہیں جو سیاست دانوں سے زیادہ گہری سیاسی بصیرت رکھتے ہیں اور صحافی سے زیادہ وہ بہترین سیاست دان بن سکتے ہیں، مشاہد حسین سید کی مثال یہاں دی جاسکتی ہے اور اس بات سے بھی کسی کو بھی انکار نہیں کہ سیاست اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اگر سیاست نہ ہوتی تو شاید صحافت بھی یوں نہ چمکتی ،دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں مگر یہ دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے کہ ان صفحا ت کو قلیل تعداد میں لوگ پڑھتے ہیں اور نئی نسل کو تو پتہ بھی نہیں ہے کہ اس کے اندر معلومات کا ایک خزینہ ہوتا ہے وہ تو ممبئی کو بھارت کا دار الخلافہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو فلمی خبروں اور سپورٹس کی خبروں سے فرصت نہیں ملتی ،وہ تو نئی  انڈین فلموں کے بارے میں زیادہ پڑھنا پسند کرتے ہیں، بہ  نسبت ارشاد حقانی کے کالم کو، وہ انڈین ایکٹریسز کے بارے میں بے تاب ہوتے ہیں ان کے لائف سٹائل ان کے چٹ پٹے قصوں کو پڑھنا ،ان کے لئے سب کچھ ہے ،وہ کس لئے ایاز  میر یا نجم سیٹھی کو پڑھیں۔۔۔

بعض اوقات تو میرا دل چاہتا ہے کہ سارے اخبارات سے فلمی صفحات ختم ہوجائیں مگر پھر معاشی بے بسی  اور وسائل کی لاچارگی نظر آتی ہے جو کسی بھی طور ممکن نہیں اور مالکان جوو یج بورڈ کے مخالف ہیں وہ کس طرح اس بات کو مانیں گے کہ ریڈر شپ میں کمی آئے اور سرکولیشن میں کمی یقینی ہے، یہ فلمی صفحات1990 ء کے بعد بہت زیادہ ہوگئے بلکہ ہر دن اخبارات میں نظر آنے لگے پہلے اس کیلئے ایک دن مقرر ہوتا تھا، مساوات اخبارسے شروع ہونے والا زہر رفتہ رفتہ سارے اخبارات حتیٰ کہ جنگ تک بھی پھیل گیا ،آج ہفت روزہ اخبارت بھی فلمی تصاویر اور خبریں شائع کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور یوں ثواب داریں حاصل کررہے ہیں ہم آج اندرونی صفحے میں لکھنے والوں پر فلم اٹھانے کی جسارت کررہے ہیں جن پر لکھنا چھوٹا منہ اور بڑی بات کے مصداق ہوگا مگر کیا کریں ہم بھی اس راہ کے ان مسافروں میں شامل ہوگئے ہیں جن پر وہ برسوں سے چل رہے ہیں اور ایک مقام حاصل کرچکے ہیں ہم تو اس میدان میں نئے ہیں اور ایک دانہ خاک میں مل کرہی گل وگلزار ہوتا ہے اور سونے کو کندن بننے میں ایک عمر درکار ہوتی ہے ایسے صحافی ہیں جو دن کو رات اور رات کو دن میں ثابت کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں اور ہر نقطہ کو اس اندازے سے اٹھاتے ہیں کہ بندہ پریشان ہوجاتا ہے ۔عطاء الحق قاسمی صاحب اپنی شیریں باتوں سے چاہے ہنسا ہنسا  کر  لوٹ پوٹ کردیں اور چاہیں  تو ہچکی بندھا دیں جبکہ حسن نثار کے لفظوں کے تانے بانے جذبات میں طغیانی کا سبب بنتے ہیں اور قاری نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں بہہ جاتا ہے کہ اگر علم کو یہیں روکا تو ان کو کچھ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر صفدر محمود سے کسی سڑک پر  پو چھو شہر کی پوری تاریخ سنادیں گے احمد ندیم قاسمی صاحب پر بھی یہ سایہ فگن تھے اور کالم نگاری کیلئے کسی عطیہ سے کم نہیں تھے اور ان کی ان کہی باتیں بھی بہت کچھ کہہ جاتی تھیں

ڈاکٹر  اجمل نیازی جنہوں نے اصولوں پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کی، سچائی کا سرچشمہ ہیں، وہ کاٹ قلم میں ہے کہ دیواریں لرزا کر رکھ دیں، فاروق قیصر صاحب جن کو ہر کوئی انکل سرگرم کے نام سے جانتا ہے ان  کی تعریف کرنا تو مجھ سے نہیں ہوتا کیوں کہ وہ اپنی تعریف آپ ہیں۔ ہارون رشید صاحب کا کالم اندھیروں میں چراغ دکھانے کا باعث بنتا ہے حیدر جاوید سید صاحب علم کو ایک ہی کالم میں لوگوں تک پہنچانے کیلئے پر تولتے ہیں، اباسین یوسفزئی شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری میں بھی اباسین ہیں اور ایک ہیں بہاول پور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل جاوید چوہدری صاحب ایک افسانوی لہجہ کے کالم نگار ہیں انہوں نے ایک افسانوی لہجہ کالم نگاری میں دریافت کیا ہے اور کسی واقعہ کو کہانی  میں بیان کرنے کے فن سے واقف ہیں ۔اس انوکھے پن کی وجہ سے ہر دلعزیز ہیں اس کی دیکھا دیکھی بلال غوری بھی اس میدان میں آئے ہیں جو ایک نجی ٹی وی کے پروگرام کی سکرپٹنگ کرتے ہیں اور سا تھ میں کالم نگاری کو بھی اوڑھنا بچھونا بنا یا ہوا ہے مستنصر حسین تارڑ صاحب پر لکھنا میرے قلم کی طاقت سے باہر ہے ،امجد اسلام امجد، کشور ناہید کو میں شاعر سے زیادہ بہترین کالم نگار سمجھتا ہوں جن  کی شاعری سے زیادہ بیداری کالم سے ہوتی ہے۔

مریم گیلانی صاحبہ لفظوں کی کھلاڑی   ہیں ہر بات کو ایک خوبصورت ڈھنگ میں کہنے کا فن جانتی ہیں منصورہ احمد اور بشریٰ اعجاز صاحبہ جتنی پیاری لگتی ہیں اس سے زیادہ پیارا لکھتی ہیں عورتوں کے ایشوز پر لکھنے میں ان دونوں کو ایک ملکہ حاصل ہے یونس قیاسی کو ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے تب سے اچھالکھتے دیکھ رہے ہیں ارشاد احمد حقانی جو کالم نگاری کے ماؤنٹ ایورسٹ تھے جہاں جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اسی طرح توفیق بٹ صاحب کو خدانے لکھنے کی کافی توفیق دی ہے اسی طرح میرے پشاور یونیورسٹی کے فیورٹ ٹیچر خالد سلطان جو کبھی باؤنسرکے نام سے لکھتے تھے اور بہت سوں کے  چھکے چھڑائے ہیں ،سلیم صافی صاحب جو خیر سے کچھ دن ہماری یونیورسٹی کے فیلور ہے، پشاور کے صحافیوں میں بہترین کالم نگار ہیں وہ دوسرے رحیم اللہ یوسفزئی بن سکتے ہیں ان  کے قلم کا جواب نہیں لکھنے پر آئے تو کسی کو بھی نہیں  چھوڑتے۔ عمران خان کو جتنا سلیم صافی نے رگڑا ہے شاید کسی نے عمران پر اتنا لکھا ہوـ جس کے بعد یوتھیوں نے توپوں کا رخ سلیم صافی کی جانب کردیا مگر ہیلی کاپٹر کے ایشو میں وہ اتنا الجھے کہ سب بھول گئے ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بنوں کے ہمارے دوست ہوا کرتے تھے خیر سے درانی نہیں تھے ،قلم محاذ سے قلم چلاتے تھے مگر اب کچھ جھنجھٹوں  میں پڑ کر لکھنا بھول گئے ہیں میرا کالم لکھنے میں فدا عدیل کا بڑا ہاتھ ہے اب ویب سائٹس کی بھرمار ہوگئی ہے اور  اُن سائٹس پر بہت سے رائٹرز لکھ رہے ہیں ـ ہر ویب سائیٹ کے اپنے رائٹرز ہیں جو ریگولر اُن کے ساتھ قلم دوستی میں مصروف ہیں ـ جس سے اردو کی ترویج بھی ہورہی ہے اور لوگوں کو نئی معلومات کے لئے اب دوسرے دن کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ـ اس راہ پر خطر میں بہت سے منجھے ہوئے لکھاری اور بھی ہیں جو بہت اچھا لکھ رہے ہیں مگر طوالت اجازت نہیں دے رہی ہے اس لئے ان سے معذرت اس دعا کے ساتھ کہ ان صفحات اور ویب سائٹس پر لکھنے والے اپنا کام جاری رکھیں کیوں کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت کسی قوم کو بنا بھی سکتی ہے  اور بگاڑ بھی سکتی ہے اور معاشرے کے ناسوروں کو صرف یہ صحافی ہی بے نقاب کرسکتے ہیں اس لئے میری آپ سب سے گزارش ہے کہ اس راہ پُر خطر پر اپنا سفر جاری وساری رکھیں کیوں کہ  آپ معاشرے کی  آنکھ ہیں ۔۔۔۔۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply