کیا قربانی صرف جانور کا ذبیحہ ہے؟۔۔۔مرزا مدثر نواز

عید قربان کا تہوار فرزندان توحید یا اہل ایمان کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے جسے ہر سال جوش و خروش سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ متقی و گنہگار ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق خوبصورت ترین جانور خرید کر اسے اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی عظیم قربانی کی یاد کو تازہ کیا جائے لیکن اس قربانی کے پیچھے چھپے پیغام کو ہم سمجھنے سے قاصررہتے ہیں اور بد قسمتی سے منبر و محراب بھی اس پیغام کو سادہ لفظوں میں ڈحال کر اس واقعہ کی اصل روح کو پیش کرنے سے عاجز ہے۔ کیا قربانی صرف جانور کو ذبح کرنے‘ گوشت کھانے اور بانٹنے کا نام ہے؟یا پھر فلسفہ قربانی کوئی اور ہی سبق دیتا ہے؟
تورات اور قرآن پاک دونوں سے یہ ثابت ہے کہ ملت ابراہیمی کی اصلی بنیاد قربانی تھی اور یہی قربانی حضرت ابراہیمؑ کی پہغمبرانہ اور روحانی زندگی کی اصل خصوصیت تھی‘ اور اسی امتحان اور آزمائش میں پورے اترنے کے سبب سے وہ اور ان کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالا مال کی گئی۔ لیکن یہ قربانی کیا تھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی بلکہ روح اور دل کی قربانی تھی‘ یہ ماسوی اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی اللہ کی راہ میں تھی‘ یہ اپنی عزیز ترین متاع کو اللہ کے سامنے پیش کر دینے کی نذر تھی‘ یہ اللہ کی اطاعت ‘ عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا‘ یہ تسلیم و رضا اور صبر و شکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی‘ یہ باپ کا اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کر دینا نہ تھا بلکہ اللہ کے سامنے اپنے تمام جذبات اور خواہشوں ‘ تمناؤں اور آرزوؤں کی قربانی تھی اور اللہ بزرگ و برتر کے حکم کے سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کر دینا تھا اور جانور کی ظاہری قربانی اس اندرونی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا۔ اسلام کے لفظی معانی ’’ اپنے کو کسی دوسرے کے سپرد کر دینا اور اطاعت و بندگی کے لئے گردن جھکا دینا ہے‘‘ اور یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابراہیم اور اسماعیلؑ کے اس ایثار اور قربانی سے ظاہر ہوتی ہے ۔
قربانی کرتے ہوئے جہاں جانور کے گلے پر چھری پھیری جاتی ہے بالکل اسی طرح اپنے نفس کی شیطانی خواہشات پر بھی چھری پھیرنی چاہیے۔ جب صحابہؓ نے آپﷺ سے سوال کیا کہ یارسول اللہ‘ یہ قربانی کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔ لہٰذا اگر باپ نے اپنی محبوب ترین شے اپنے معبود برحق کے حوالے کر دی تھی تو پھر بیٹے کو بھی اپنی پسندیدہ ترین اشیاء اپنے خالق کے حوالے کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ باپ تمام تر خطرات کے باوجود اپنی قوم کے سامنے دہائی دیتا تھا کہ اے میری قوم‘ ان معبودوں کی پوجا کیوں کرتے ہو جو سنتے نہیں‘ دیکھتے نہیں اور جو کچھ دے نہیں سکتے‘ اس کی پاداش میں اسے گھر چھوڑنا پڑا‘ آگ میں ڈالا گیا‘ طرح طرح کی مصیبتیں جھیلیں لیکن کلمہء حق سے باز نہیں آیالہٰذا بیٹے کو بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے راستے میں پیش آنے والے مصائب سے گبھرانا نہیں چاہیے اور معبودان باطلہ کی مخالفت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ باپ دستر خوان بچھا کر مہمان کا انتظار کرتا تھا تو پھر بیٹے کو بھی مہمان نواز بننے کی سعی کرنی چاہیے۔ بیٹا اتنا صابر اور فرمانبردار تھا کہ اس نے باپ کو یہ نہیں کہا کہ جس بیٹے کو ٹافیاں اور چاکلیٹ کھلاتا رہا تھا‘جس کو لوریاں دیتا اور سینے سے لگاتا رہا تھا‘ جس کے نخرے اٹھاتا رہا تھا‘ جا اسے کہہ کہ تمہاری بات مانے بلکہ یہ کہا کہ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر دیر مت لگائیے‘ چنانچہ آج جانور کی قربانی کرنے والے بیٹے کو بھی اپنے والدین کا فرمانبردار اور اسماعیل جیسا صابر بننا ہو گا۔ باپ سب سے بڑا موحد اور ایک معبود برحق کے گیت گانے والا تھا‘ جس کی پیروی کرتے ہوئے بیٹے کو بھی صرف ایک چوکھٹ پر سر جھکانا ہو گااور اپنی روزی کو رشوت اور ناجائز دولت سے کی آمیزش سے پاک رکھنا ہو گا۔
میں دنیاوی نمود و نمائش کی خاطر ہر سال عید قربان پر مہنگا اور خونصورت ترین جانور خرید کر اس کی قربانی کروں لیکن سارا سال حرام و حلال میں تمیز نہ کروں‘ دوسروں کا حق مارتا رہوں‘ زمینوں پہ قبضے کرتا رہوں‘ ہمسائیوں کا جینا دوبھر کرتا رہوں‘ مظلوم کا ساتھ نہ دوں اور ظالم کو اس کے ظلم سے باز رکھنے کی جدوجہد نہ کروں‘ بااثر افراد کے ڈر سے سچی گواہی دینے سے گریزاں رہوں‘ معاشرے میں رائج فرسودہ اور ہندووانہ رسم و رواج کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کروں‘ اپنے قریب بسنے والی مخلوق کی حاجات سے بے خبر رہوں‘ اگر کسی مریض کو خون کی ضرورت پڑے تو مختلف شیطانی وسوسوں اور گھریلوں دباؤ میں آ کر خون کا صدقہ دینے سے انکار کر دوں‘ رات کو کسی محلہ دار مریض کو نیند کے غلبہ کی وجہ سے اپنی گاڑی میں ہسپتال لے جانے سے باز رہوں ‘ قرب و جوار میں کسی یتیم و بیوہ کی حاجات سے لا علم رہوں تو پھر میری اس قربانی کا کوئی فائدہ نہیں‘ یہ قربانی نہیں بلکہ محض دولت کی نمائش ہو گی۔ قربانی کا مقصد اپنے خالق و معبود کی مرضی و منشا کے مطابق اپنامال‘ جان‘ اولاد سب کچھ قربان کرنا ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply