2018ء کاپہلا گرہن۔۔ محمد شاہ زیب صدیقی

 جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود آج بھی امریکا سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کے اندر کچھ لوگوں میں زمین کی بناوٹ اور اس کی گردش کے متعلق ابہام موجود ہے ۔ اس ابہام کی اصل وجہ  ہی یہی ہے کہ زمین فلیٹ  ہونے کا  نظریہ انسان نے روزِ اول سے ہی اپنے ذہن میں سموئے رکھا پھر اِس دعوے پر پہلی ضرب تب پڑی جب تقریباً  2 ہزار سال پہلے  ارسطو نے زمین کے گول ہونے کا دعویٰ کیا،اُس وقت سے ہی فلکیات دان 2 گروہوں میں تقسیم ہوگئے  لیکن گول زمین کے دعوے کا بصری ثبوت ہمیں پچھلی صدی میں میسر ہوا جب انسان نے خلاء میں پہنچ کر ترقی کے نئے دروازے کھولے۔ آج فلیٹ ارتھ کے ماننے والے بہت ہی کم تعداد میں موجود ہیں ۔
مندرجہ بالا کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے ملک میں بھی فلیٹ ارتھرز کی قلیل تعداد موجود ہے  اور اپنے عجیب و غریب غیر سائنسی دعوؤں کے باعث انہوں نے اپنے اردگرد نونہالوں کا خوب رش اکٹھا کیا ہوتا ہے ۔ کچھ دن پہلے ایک فلیٹ ارتھر نے دعویٰ کیا کہ چاند گرہن کا سِرے سے وجود ہی نہیں لہٰذا 31 جنوری 2018ء کو اگر چاند گرہن لگا تو وہ اپنے فلیٹ ارتھ کے حق میں لکھے گئے تمام مضامین سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے ناسا پر یقین کرلیں گے، انہوں نے اپنے دعوے کے لئے یہ شرط رکھی کہ جزوی چاند گرہن کے دوران جیسے چاند کا ایک حصہ غائب ہوجاتا ہے اسی طرح مکمل چاند گرہن کےدوران مکمل چاند غائب لازمی ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں  کشش ثقل کی طلسماتی لہریں۔محمد شاہزیب صدیقی

  ان کے اس دعوے کو پرکھنے سے پہلے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چاند گرہن لگتا کیوں ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ چاند کی اپنی روشنی نہیں ہوتی سو جب چاند گردش کرتا ہوا عین زمین کے پیچھے  پہنچ جاتا ہے تو سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ پاتی لہٰذا چاند گرہن لگ جاتا ہے۔ اس تناظر میں اکثر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ  چاند تو ہرماہ زمین کے گرد گردش مکمل کرتا ہے تو پھر چاند گرہن ہر ماہ کیوں نہیں لگتا؟ اس کا جواب ہمیں یہ ملتا ہے کہ زمین چونکہ 23.5 ڈگری اپنے محور میں جھکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے چاند کا مدار بھی تھوڑا tilt ہے ( ٹائٹل میں  تصویر نمبر 1 میں آپ چاند کا مدار دیکھ سکتے ہیں) لہذا جب چاند چکر کاٹتے ہوئے زمین کے پیچھے پہنچتا ہے تو مدار کے tilt(جھکا) ہونے کے باعث  چاند زمین سے تھوڑا سا  اوپر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سورج کی روشنی چاند تک پہنچ جاتی ہے اور چاند کو گرہن لگنے سے بچا لیتی ہے ،لیکن یاد رہے کہ زمین کی کشش ثقل اور زمین کے سورج کے گرد گھومنے کی وجہ سے چاند کا مدار ڈگمگاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے چاند سال بھر اپنا مدار بدلتا رہتا ہے ، اسی وجہ سے چاند چکر کاتے ہوئے جب زمین کے پیچھے پہنچتا ہے تو کبھی زمین سے اوپر ہوتا ہے اور کبھی زمین سے نیچے ہوتا ہے (جیسا آپ اوپر تصویر نمبر 2 میں دیکھ سکتےہیں) جب چاند اپنا مدار بدل رہا ہوتا ہے تو اس دوران سال میں 2 بار چاند عین زمین کے پیچھے پہنچ جاتا ہے ، لہٰذا سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ پاتی اور زمین کا سایہ چاند پر چھا جاتا ہے  اس دوران ہم کہتے ہیں کہ چاند گرہن لگ گیا ہے۔
اس مقام پر پہنچ کر اکثر ایک سوال ذہن کے دریچوں پر دستک دیتا ہے کہ اگر سورج کی روشنی چاند تک نہیں پہنچ رہی تو مکمل چاند گرہن کے دوران چاند نارنجی یا لال رنگ کا کیوں دِکھتا ہے؟  اس متعلق سائنسدان یہ کہتے دِکھائی دیتے ہیں کہ سورج سے جب روشنی زمین کے  atmosphere پر پڑتی ہے تو یہ مختلف رنگوں میں بٹ جاتی ہے ، blue رنگ چونکہ کم wavelength کاہوتاہے جس کے باعث نیلا رنگ زمین پر پھیل جاتاہے جبکہ red رنگ زیادہ wavelength کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ کناروں تک پہنچتا ہے اور زمین سے پیچھے لال رنگ کا  shadow بناتا ہے جسے ہم umbra کہتے ہیں(اوپر تصویر نمبر 3 میں دیکھ سکتے ہیں) لہٰذا جب چاند زمین کے سائے میں چھپتا ہے تو یہی لال رنگ اس چاند پر پڑتا ہے ،جس کی وجہ سے چاند گرہن کے دوران ہمیں چاند لال رنگ کا نظر آتا ہے اسے انگریزی میں خونی چاند (blood moon ) بھی کہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت آسمان لال یا نارنجی رنگ کا ہوجاتا ہے کیونکہ ہم اس وقت (سورج کی روشنی پڑنے کے لحاظ سے) زمین کے “کناروں” والے حصے  میں  موجود  ہوتے ہیں۔عام حالات میں چونکہ چاند پر سورج کی روشنی  پڑ رہی ہوتی  ہے جو کہ انتہائی تیز ہے اسی خاطر یہ لال رنگ کی روشنی اس وقت ہمیں چاند پر پڑتی نظر نہیں آتی۔ اگر مندرجہ بالا تمام معلومات کو سمجھا جائے تو ہم باآسانی بتا سکتے ہیں کہ کیوں مکمل چاند گرہن کے دوران چاند غائب نہیں ہوتا، اسی خاطر مذکورہ فلیٹ ارتھر نے عوام الناس کے سامنے ایسی شرط رکھی جس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔
یاد رہے کہ  تحقیق کرنے والی ہر قوم آج خلاء میں اپنی سیٹلائیٹ پہنچا چکی ہے اگر فلیٹ ارتھرز کے دعوؤں میں رتی برابر سچائی ہوتی تو کوئی ایک ملک سرکاری طور پر اس کا لازمی اعلان کرچکا ہوتا ۔معلوم نہیں کہ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہماری زمین اور پوری کائنات پراسراریت کا وہ سمندر ہے جس کے متعلق اگر ٹھیک طرح تحقیق کی جائے تو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں ، لہٰذا ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو عوام الناس کو زمین سے چپکانے کی بجائے اڑنا سکھانا ہوگا ورنہ بقیہ اقوام ہم سے بہت آگے نکل جائیں گی ۔ ہمیں اپنی بقا کی خاطر سچائی کو ماننا ہوگا کیونکہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اسے 21ویں صدی کہا  جاتا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”2018ء کاپہلا گرہن۔۔ محمد شاہ زیب صدیقی

Leave a Reply