ٹارگِٹ، ٹارگِٹ ، ٹارگِٹ /قسط3

یونٹ ٹھیک نہیں چل رہی۔
پاس آؤٹ ہونے کے بعد ہر لفٹین کوجنون کی حد تک کچھ نہ کچھ کر دکھانے کا شوق ہوتا ہے۔سال دو سال کے بعد جب یونٹ کی روٹین پوری طرح سے سمجھ آ جاتی ہے تو ساتھ ساتھ ایک کیڑا بھی دماغ میں کلبلانا شروع کر دیتا ہے کہ یونٹ کا نظام ٹھیک طرح سے نہیں چل رہا۔اگر کسی کو پروفیشنل کام میں دلچسپی ہے تو وہ صرف میری ذات ہے جبکہ باقی لوگ صرف اور صرف وقت ضائع کرنے کے لئے یونٹ میں موجود ہیں۔ہم بھی اوائل لفٹینی میں اس مرض کا بری طرح سے شکار ہوئے۔مرض چونکہ شدید تھا ،لہٰذا علامات بھی انتہائی شدت کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ ہر آتے جاتے کو چیک کرنا ، ہر کام میں ٹانگ اڑانا، بحث و مباحثہ کرنا اور سب سے بڑھ کریہ کہ افسروں کی محفل میں بیٹھ کر اس خیال کا اظہار کرنا کہ یونٹ ٹھیک نہیں چل رہی، اگر میرا بس چلے تو میں اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دوں۔
ایڈجوٹنٹ نے بلایا اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کہ چھوٹے میاں آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور یونٹ چلانے کا کام سی او، ٹو آئی سی، بیٹری کمانڈرز اور مجھ ناچیز پر چھوڑ دیں۔ لیکن ہمیں سمجھ آنا تھی نہ آئی۔ اگلی پیشی ٹو آئی سی کے پاس ہوئی۔ ٹو آئی سی نہائت منجھے ہوئے افسر تھے۔ کمرے میں داخل ہوئے تو انہیں سر کے بل کھڑا پایا۔ موصوف سر سے با لکل گنجے تھے اور کسی ڈاکٹر یا حکیم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے دن میں دو گھنٹے الٹا کھڑے ہوا کرتے تھے ۔یہ فریضہ وہ عموماً دفتری اوقات میں سر انجام دیتے تھے۔ انہوں نے اسی پوزیشن میں رہتے ہوئے ایڈجوٹنٹ کو نادر شاہی حکم دیا کہ افسر کو دو ہفتے لگاتارنائٹ ڈیوٹی افسر لگایا جائے۔ پہلے نائٹ ڈیوٹی ہفتے میں ایک مرتبہ کیا کرتے تھے اور اب لگاتار دو ہفتے کا کڑا وقت۔ صبح سے شام تک یونٹ کی کٹھن روٹین اور رات کو بجائے آرام کرنے کے ڈیوٹی افسر کا بِلا پہن کر ڈیوٹیاں چیک کرنا۔ دن رات وردی میں گزرنے لگے اور میس لائف خواب و خیال ہو گئی ۔تین دن کے بعد ہمت جواب دے گئی۔ ایڈجوٹنٹ کے پاس فریاد لے کر پہنچے کہ یونٹ کے معاملات بالکل ٹھیک چل رہے ہیں، لوگ انتہائی دلچسپی سے سارے کام کر رہے ہیں، کسی قسم کی تبدیلی کی قطعاً ضرورت نہیں۔۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔۔ براہ مہربانی ٹو آئی سی سے کہہ کر ہماری جان اس لگاتار نائٹ ڈیوٹی سے چھڑوائی جائے۔ ایڈجوٹنٹ ہمیں لے کر دوبارہ ٹو آئی سی کے پاس چلے گئے۔ٹو آئی سی حسبِ معمول اُلٹے کھڑے تھے۔ انہوں نے اسی حالت میں ہماری کیفیت کا جائزہ لیا ، چند سوال پوچھے اور اطمینان ہونے کے بعد ڈیوٹیاں ایکسکیوز کرنے کا حکم جاری کیا۔
ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ فدوی کو چھٹی سے واپس آئے ہوئے تین ماہ ہو چکے ہیں، براہِ مہربانی دس دن کی رخصت عنائت فرمائی جائے۔ٹو آئی سی کو جیسے کچھ یاد آ گیا ۔ فی الفور چھلانگ مار کر سیدھے کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے تم لوگ یہیں ٹھہرو میں سی او کے آفس سے ہو کر ابھی واپس آتا ہوں۔ ٹو آئی سی تو سی او کے پاس روانہ ہو گئے اور ہم دل ہی دل میں دس دن کی چھٹی گزارنے کے منصوبے بنانے لگے۔ ٹو آئی سی آدھے گھنٹے کے بعد واپس تشریف لائے اور کہنے لگے ’’برخوردار! سی او نے میری چھٹی سینکشن کر دی ہے ۔ فی الحال میں دس دن کے لئے یونٹ سے جا رہا ہوں، واپسی پر تمہاری چھٹی کے بارے میں بات ہو گی۔ یونٹ میں ٹھیک طرح سے کام کرو۔ مجھے کوئی شکائت نہیں ملنی چاہئے۔‘‘ ٹو آئی سی کی اس بات پر ہم سوائے خون کے گھونٹ پینے کے اور کیا کر سکتے تھے کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ان سے کہہ چکے تھے کہ یونٹ بالکل ٹھیک چل رہی ہے اور کہیں کوئی خرابی نہیں ہے۔وہ دن اور آ ج کا دن، ہم پر دوبارہ اس مرض کا حملہ نہیں ہوا۔ جب ہم خود ٹو آئی سی بنے تو یہی نسخہ بارہا نئے لفٹینوں پر آزمایا اور ہمیشہ مثبت نتائج برآمد ہوئے۔
لیفٹیننٹ شفیق کا بل۔
یہ1997 کا ذکر ہے جب اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت پشاور تشریف لائے۔ گیریژن آڈیٹوریم میں تمام آفیسرز سے ان کے خطاب کا اہتمام کیا گیا۔ ہمارے قریب ہی چند نشستوں کے فاصلے پر لیفٹیننٹ شفیق براجمان تھے۔ موصوف ہم سے ایک سال سینئر تھے اور ایک انتہائی باغ و بہار شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ خطاب مکمل ہوا اور آفیسرز کو سوالات کی دعوت دی گئی۔ ہم اپنے دھیان میں مگن تھے کہ اچانک ’’السلام علیکم سر!آئی ایم لیفٹیننٹ شفیق‘‘ کی آواز سن کر ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ دیکھا تو سر شفیق مائیک سنبھال چکے تھے۔ اب وہ بول رہے تھے اور پورا گیریژن سن رہا تھا۔ سر شفیق چیف آف آرمی سٹاف سے براہ راست مخاطب تھے اور کہہ رہے تھے’’سر میں آپ کی توجہ ایک نہایت اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اس ماہ مجھے میرے کمرے کا بجلی کا بل چار ہزار روپے موصول ہوا ہے جبکہ میں حال ہی میں ایک مہینہ چھٹی گزار کر واپس لوٹا ہوں۔آپ ہی بتائیں میری غیر موجودگی میں ایسا کیسے ممکن ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایم ای ایس کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ میں نے اس بارے میں یونٹ سے لے کر ڈیو ہیڈکوارٹرز تک سب کو کہہ کر دیکھ لیا ہے، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب آپ ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں۔‘‘ چیف آف آرمی سٹاف نے ساری بات سننے کے بعد کور کمانڈر کو کہا کہ آفیسر کا مسئلہ حل کریں۔
ہم نے غور سے دیکھا تو جی او سی اور کمانڈر آرٹلری کے چہروں پر ہوائیاں اڑتی نظر آئیں جبکہ سی او نے تو اپنا سر باقاعدہ دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔ یہ کارنامہ سرانجام دینے کے بعد سر شفیق کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی گویا کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔ لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ اس دن کے بعد سے یہ معمول ہو گیا کہ سر شفیق دن کا آغاز علی الصبح ڈیو ہیڈکوارٹر زمیں رپورٹ کر کے کیا کرتے۔ وہاں ان کو اس بات پر لیکچر دیا جاتا کہ ان میں عقل اور سمجھ کی شدید کمی ہے اور انہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ کیا بات، کس سے، کب اور کہاں کرنی ہے۔ یہ سلسلہ لگاتاردو ہفتوں تک جاری رہا اور اس دوران سرشفیق کی حالت دیوانوں جیسی ہو گئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کا مسئلہ بھی جوں کا توں رہا یعنی انہیں چارو ناچارمذکورہ بل ادا کرتے ہی بنی۔ ایک فرق البتہ ہم سب نے محسوس کیا کہ اگلے ماہ سے ان کے بل سو ڈیڑھ سو کی رینج میں آنا شروع ہو گئے۔
ہم نے اس خوشگوار تبدیلی کی وجہ جاننے کی بہتیری کوشش کی لیکن ہماری لاکھ کوشش کے باوجود سر شفیق نے راز سے کبھی پردہ نہیں اُٹھنے دیا۔ تھک ہار کر ہم نے اندازہ لگایا کہ ہو نہ ہو چیف آف آرمی سٹاف نے سر شفیق کے بلوں کے بارے میں ضرور کوئی خاص ہدایات جاری کر دی ہوں گی جس بنا پر بلوں میں اتنی زبردست کمی واقع ہو گئی تھی۔ بہت سالوں کے بعد ملاقات ہوئی تو سر شفیق نے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ دراصل بلوں میں کمی لانے کے لئے انہوں نے ایم ای ایس کے بلنگ سیکشن میں اپنا کوئی گرائیں ڈھونڈ لیا تھا۔
مصالحوں کا جلا۔
سیاچن میں پوسٹ پر دو طرح کے کھانے میسر ہوتے ہیں۔ ڈبہ بند کھانوں میں پالک اور چکن کے علاوہ خشک دودھ،مکھن، جام ، شہد اور اچار شامل ہیں جبکہ تازہ کھانوں میں لے دے کر دال مسورپرہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ چاول چونکہ انتہائی قلیل مقدار میں میسر ہوتے ہیں اس لئے ان کے پکانے کی باری ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ ہی آتی ہے۔ ڈبہ بند کھانوں کا ذائقہ عموما بدمزہ ہوتا ہے اس لئے عام طور پر لوگ ان سے پرہیز ہی کرتے ہیں۔ زیادہ تر دال مسور کو روٹی یا کبھی کبھار چاولوں کے ساتھ شوق سے کھایا جاتا ہے۔ دال میں سوائے نمک اور مرچ کے کسی اور چیز مثلاً پیاز، لہسن، ادرک، ٹماٹر اور مصالحوں وغیرہ کا تصور بھی محال ہے۔ پوسٹ پر کچھ دن گزارنے کے بعد ہم اس سوچ میں پڑ گئے کہ دال کا ذائقہ بحال کرنے کے لئے کوئی راستہ نکالا جائے۔ کافی سوچ بچار کے بعد ایک ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ گرم مصالحے کاپیکٹ منگوایا جائے جس کو دال میں شامل کر کے اس کا مزہ دوبالا کیا جاسکے۔ اس حل کو قابل عمل جانتے ہوئے پسے ہوئے گرم مصالحے کے ایک پیکٹ کی ڈیمانڈ بٹالین ہیڈکوارٹر میں نوٹ کروا دی گئی۔
اس کے بعد ایک طویل انتظار کا مرحلہ شروع ہوا۔ ہم روزانہ بٹالین ہیڈکوارٹر اور ٹرانزٹ پوسٹوں پر فون کر کے اپنے پیکٹ کی تازہ ترین لوکیشن معلوم کرتے۔ دن پر دن گزرتے جا رہے تھے اور جیسے جیسے ہمارا اور پیکٹ کا زمینی فاصلہ کم ہوتا جا رہا تھا ویسے ویسے تصور کو مزید شہ مل رہی تھی۔ ان دنوں ہماری پوسٹ پر موجود تمام افراد کا موضوع گفتگو مصالحے کے پیکٹ اور اس کی ممکنہ ترکیب استعمال تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ آخر خدا خدا کر کے دو ہفتوں کے انتظار کے بعد وہ مبارک دن آن پہنچا جب پورٹرنگ پارٹی سامان لینے پوسٹ سے نیچے روانہ ہوئی۔ پارٹی پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد سامان لے کر واپس پوسٹ پر پہنچی تو اس میں ہمارا من پسند گرم مصالحے کا پیکٹ بھی موجود تھا۔ پیکٹ کو فوراً کک کے حوالے کیا گیا جس کو ہم پہلے ہی سے تفصیلی ہدایات جاری کر چکے تھے۔ ہم اپنے آپ کو انتہائی خوش نصیب تصور کر رہے تھے کہ آج ایک مدت کے بعد بدمزہ دال کی بجائے منہ کو بارہ مصالحوں میں پکی ہوئی مسور کی دال کا ذائقہ نصیب ہو گا۔ ایک گھنٹے کے مزید صبر آزما انتظار کے بعد دال ہمارے سامنے پیش کی گئی۔ منہ میں پانی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ وفورِ اشتیاق سے جونہی پہلا نوالہ منہ میں رکھا تو ایسے لگا جیسے زہر پھانک لیا ہو۔ اتنے تیز مصالحوں سے واسطہ پڑا کہ کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ دال کیا تھی، گویا بارود کا ایک دہکتا ہوا گولہ تھی جسے چکھتے ہی اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہمارے معصوم دل کے ارمان تیزی سے آنسوں کی شکل میں بہنے لگے۔ پانی کا پورا جگ حلق میں انڈیلا تب جا کر تھوڑا نارمل ہوئے۔
اوسان بحال ہوئے تو کک کو بلا کر تفتیش کا آغاز کیا۔ معلوم ہوا کہ اس مرد قلندر نے جوش میں آ کر سالم پیکٹ ہی دال کے پتیلے میں مکس کر دیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہم نے کھانے کے آغاز میں نوالہ لینے میں کبھی پہل نہیں کی۔ بیگم جب بھی کھانا پکا کر سامنے رکھتی ہیں تو ہم پہلا نوالہ اپنے ہاتھ سے توڑ کر انہیں کھلاتے ہیں۔ اس عمل سے دو فوائد اکٹھے حاصل ہوتے ہیں، ایک تو محبت کا بخوبی اظہار ہو جاتا ہے اور دوسرے مصالحوں کی مقدار کے بارے میں بھی تسلی ہو جاتی ہے۔اگر دودھ کے جلے پر چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے کی پابندی ہے تو مصالحوں کے جلے پر اتنی احتیاط تو لازم ہے۔
شکوہ اور جوابِ شکوہ۔
فوجی افسراپنی ساری زندگی تین ہستیوں کے رحم و کرم پر گزارتا ہے جن میں اللہ میاں کی ذات ، بیگم ، اور ایم ایس برانچ شامل ہیں۔ بلاشبہ ان تینوں میں سے سب سے زیادہ شکوہ شکایت ایم ایس برانچ سے روا رکھی جاتی ہے۔ وجہ چاہے کچھ بھی رہی ہو لیکن ہم نے اپنی سروس میں ہر افسر کو ایم ایس برانچ سے یکساں طور پر شاکی پایا۔ عموماً یہ شکوہ شکایت نجی محفلوں تک ہی محدود رہتی ہے لیکن کبھی کبھاردل کی بھڑاس نکالنے کے لئے ایم ایس کے نام ڈی او لیٹرز کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ سکردو میں تعینات ہمارے ایک سینئیر شکایت کر رہے تھے کہ ایم ایس برانچ نے انہیں کبھی جی ٹی روڈ کے اطراف پوسٹ نہیں کیا ۔ہم نے ڈرتے ڈرتے ان سے عرض کی کہ سر آپ نے راولپنڈی میں رہ کر سگنل کالج سے فوج کے خرچ پر ایم ایس سی سوفٹ وئیر انجینئرنگ کی ڈگری بھی تو حاصل کی ہے۔ اس پر بھی تو ایم ایس برانچ نے ہی آپ کو سیلیکٹ کیا تھا۔ موصوف اس بات پر ہم سے باقاعدہ ناراض ہو کر کہنے لگے کہ اس میں ایم ایس برانچ کا تو کوئی کمال نہیں، میں نے اپنی قابلیت سے اینٹری ٹیسٹ پاس کیا تھا۔کبھی کبھار ایم ایس برانچ کی جانب سے مختلف گیریژنز میں لیکچر بھی منعقد کئے جاتے ہیں جن میں افسروں کو ایم ایس برانچ سے متعلقہ امور پر بریف کیا جاتا ہے اور اس دوران لوگوں کو بنفس نفیس داد و فریاد کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک لیکچرسن 2002 میں سکول آف آرٹلری نوشہرہ میں منعقد ہوا۔ ایم ایس برانچ کے اس وقت کے سربراہ تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے طویل خطاب میں آفیسرز کی پوسٹنگز سے متعلقہ امور پر اچھی طرح سے روشنی ڈالی۔ لیکچر ختم ہوا اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک کرنل صاحب اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور یوں گویا ہوئے ’’سر!میری بیگم کالج میں لیکچرار ہیں۔ شادی کو اٹھارہ سال ہو چکے ہیں۔ شادی کے بعد ایم ایس برانچ کی جانب سے مجھے جہاں بھی پوسٹ کیا گیا میں نے محکمہ تعلیم سے درخواست کر کے اپنی بیگم کی پوسٹنگ بھی اسی شہر میں کروالی۔ چند ماہ پہلے میری پوسٹنگ نوشہرہ ہوئی اور میں نے اپنی بیگم کی پوسٹنگ کے لئے حسب معمول محکمہ تعلیم سے رجوع کیا تو متعلقہ سیکرٹری صاحب نے فرمایا کہ کرنل صاحب ہم آپ کے کہنے پر آٹھ مرتبہ آپ کی بیگم صاحبہ کی پوسٹنگ کر چکے ہیں۔ اس مرتبہ ان کی پوسٹنگ نوشہرہ میں کرنا ہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ وہاں کسی کالج میں کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ برائے مہربانی ایک مرتبہ آپ بھی اپنی ایم ایس برانچ سے درخواست کریں کہ وہ آپ کی پوسٹنگ ہمارے تجویز کردہ کسی شہر میں کر دیں ‘‘۔جنرل صاحب نے ان کو بیٹھنے کے لئے کہا اور ان کی گزارشات پر ہمدردانہ غور کرنے کا وعدہ کیا۔ تقریب اختتام پذیر ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد ان کرنل صاحب سے سر راہ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی پوسٹنگ سیاچن ہو گئی تھی اور انہیں فی الفورروانگی کا حکم ملا تھا۔
.(جاری ہے

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply