شاعر حافظ محمد نظامانی ایک تعارف

شاعر حافظ محمد نظامانی، ایک تعارف
نعیم الدین جمالی
سندھ دھرتی ایسی انمول دھرتی ہے جس نے ہر اعتبار سے اپنا نام کمایا ہے، اپنی تاریخ، تہذیب وتمدن اور امن والی دھرتی کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔سندھ نے وقتا ًفوقتاً ایسے انمول موتی پیدا کیے جنہوں نے انسانیت کو منزل تک رسائی دلوائی، کبھی تو وہ قلندر کی آواز بن کر گرجے تو کبھی بھٹائی بن کر انہوں نے سندھ کی ترجمانی کی، کبھی شیخ ایاز کی طرح حقیقت بن کر ابھرے، کبھی بدعت ورسوم ورواج کے خلاف حاجی احمد ملاح جیسی قدآور شخصیات نمایاں ہوئیں۔اسی بچھڑے ہوئے قافلے کا ایک فرد حافظ محمد نظامانی ہے، جس نے آکر ان کی یاد تازہ کردی ہے، اپنے انوکھے اور تیکھے انداز کی شاعری کی وجہ سے سندھ دھرتی پر اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے ۔
حافظ صاحب 1954 میں کڑیو گہنور سے تین کلو میٹر دور گاؤں سہراب خان نظامانی میں پیدا ہوئے، حافظ صاحب نے ماتلی شہر کے ایک مدرسے سے باقاعدہ حفظ قران مجید کی تکمیل کی ، ذہانت وفطانت وفراست پچپن سے ہی قابل قدر تھی، حفظ قرآن کے بعد انہوں نے مدرسے کو خیر باد کہہ دیا، جیسے ہی گاؤں پہنچے انہیں عشق مجازی کی لت لگ گئی، وہاں سے دل میں جو شاعری کی چنگاری تھی وہ بھڑک اٹھی، ایک دفعہ گلی سے محبوب کو گذرتے دیکھا تو بے ساختہ زبان سے اشعار جاری ہوگئے .حافظ صاحب نے عشق مجازی سے توبہ کرکے تصوف وسلوک کو اپنی منزل ٹھہرایا جس میں انہوں نےاعلیٰ منازل طے کیں۔حافظ صاحب ایک فطری اور قدرتی شاعر تھے، بلکہ ان کے خمیر میں شاعری بھری ہوئی تھی۔حافظ صاحب نے اپنی شاعری میں حمد ونعت، مناجات وقصائد اور دعاؤں کو شامل کیا ہے، قرآن مجید کے حافظ ہونے کے ناطے ان کی شاعری اخلاقیات کے دائرہ کار میں رہتی ہے، خدا کی وحدانیت اور سنت نبویؐ کا اپنی شاعری میں نمایاں ذکر کیا ہے۔حافظ صاحب نے اپنی شاعری میں سندھی قوم کو جھنجھوڑا ہے، انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کے جتن کیے ہیں، انہوں نے اپنی شاعری میں غاصبوں، غداروں، جابروں، بزدلوں اور منافقوں کی بڑے بہادرانہ انداز میں مذمت کی ہے ۔
ان کی شاعری کا انداز اور زبان وبیان اتنا نرالہ ہے کہ شاید غالب نے یہ شعر انہیں کے لیے کہا تھا
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا انداز بیان اور ہے
حافظ صاحب کی شاعری میں ذکر کردہ مناجات ایسے دل سوز آواز میں کہی گئی ہیں کہ پڑھنے والا اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔فرماتے ہیں،
میں کالا کلوٹا بہت خراب ہوں
تیرا رحم ہر ایک پر ہے برابر
نا اہل سے جس نے تعلق نہ توڑا
یہی ہے تیری پہچان پروردگار۔
ان کے نعتیہ کلام میں عشق مصطفیٰؐ کی خوب جھلک واضح ہوتی ہے۔
کیا خوب کہا ہے!!
خدا کے پاس خدا کے لیے مصطفیٰ ؐ میری مدد فرما
میں آیا ہوں سینا ٹھنڈا کرنے مصطفیٰ ؐ میری مدد کرنا
کنارے تک قابو رکھنا، ڈوبتےوقت سہارا دینا
آپ کا کام ہے کمزوروں کو سہارا دینا، مصطفیٰ ؐ میری مدد کرنا۔
سماج ، معاشرے اور انسانیت کے لیے جو بول حافظ نے بولے ہیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ،
جمہوریت کا حقیقی چہرہ دکھاتے ہوئے گویا ہیں،
واہ جمہوریت تیری مستی
ملک پورا ویران ہوگیا
آٹا چینی خدا لے گیا
گیھ اور مٹی کا تیل اوپر بک گیا
آلو پیاز ہم سے اوپر ہوگیا
مسکین مر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا
واہ جمہوریت تم نے وعدہ نبھایا
چھوٹے بڑے کو بھیک مانگنا سکھایا

بے ضمیروں کو سبق سکھاتے ہوئے کہتے ہیں
بے ضمیر ہو اس لیے امیر ہو
پیسوں کے لالچی خراب خمیر ہو

عشق کے بارے میں کہتے ہیں:
محبت میری روٹی ہے محبت میرا پانی ہے
یہی ہے میرا پتا یہی میری کہانی ہے
محبت ہے ذات میری محبت ہے نام میرا

جعلی واعظوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں
میں نے زندگی کے ہر موڑ کا ذائقہ چکھا ہے
ہوں جھوٹ سے قاصر سچ کہنا میں نے سیکھا ہے
عورت کا درد دل سینے میں رکھتے ہوئے کہتے ہیں
شرمیلی ادا کا شرف بھی تجھے ملا ہے
مخلوق خدا کا ظرف بھی تجھے ملا ہے
حسن کا آخری لفظ بھی تجھے ملا ہے
پھر بھی زمانہ تجھ سے پتھر اٹھواتا ہے
بدمعاش مونچھیں تاؤ دیکر خود کو اچھا کہلواتا ہے
بچپن سے آخر تک تم نے پیار دیا۔

اور ان کا درد دل پڑھیے ..!!
سوچ کے کسی سفر میں میرا ساتھ دو
ہوں کسی گہرائی میں میرا ساتھ دو
دن کی سختیاں میں سہہ جاوں گا
پر رات کے کسی پہر میں میرا ساتھ دو
کون غازی ہوکر لوٹا ہے کربلا سے
شہیدوں کے شہر میں میرا ساتھ دو
نہیں پوچھا کسی سے مذہب ہے کونسا
انسانیت کے لفظ میں میرا ساتھ دو
کل ملے جب تک آب حیات
تب تک آج کے اس زہر میں میرا ساتھ دو
ابھی وقت میرے وصل کا جو دور ہے
ابھی کے ہجر میں میرا ساتھ دو
میں نے نہ لباس پہنا تو کیا ہوا
بس روٹی کے ٹکڑے میں میرا ساتھ دو
زندگی کی ضمانت نہ دی ہے کسی نے
جب تک ہے امر میں، میرا ساتھ دو۔۔۔۔
حافظ صاحب کو بھی لوگوں نے سمجھا بہت کم ہے، ہر کسی نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے، سندھ دھرتی سے محبت اور جعلی واعظوں سے نفرت کی وجہ سے کچھ لوگ انھیں دین بیزار سمجھ کر طعن وتشنیع کا نشانہ بناتےہیں۔دونوں طرف کے دوستوں سے گزارش ہے کہ حافظ کو سب کا شاعر رہنے دیں اور اس کی حقیقی آواز بن کر اس کا ساتھ دیں جو وہ کہتا ہے اس کو سمجھیں.

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر: حافظ صاحب سندھی کے شاعر ہیں ان کا پورا کلام سندھی میں ہے.تعارف میں شاعری آپ کے لیے ترجمہ کی گئی ہے.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply