• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • قادیانی مسئلہ :آئین میں شرعی تبدیلی ضروری ہے۔۔۔۔ محمد تہامی بشر علوی

قادیانی مسئلہ :آئین میں شرعی تبدیلی ضروری ہے۔۔۔۔ محمد تہامی بشر علوی

ان دنوں قادیانی مسئلہ ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ جب ذمہ دار اہلِ علم کی طرف سے معاملہ علمی طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا تو ، احمدی کمیونٹی کے حوالے سے شروع سے ہی مختلف آراء وجود میں آگئی تھیں۔ رفتہ رفتہ جذباتی پہلو غالب ہوجانے کے باوجود یہ مسئلہ آج بھی علمی طور پر آگے بڑھ رہا ہے اور کئی نئی بحثیں بھی پیدا ہوتی جا رہی ہیں۔ سردست مسئلہ کے سبھی پہلوؤں پر گفتگو تو ممکن   نہیں، تاہم تفہیم کی غرض سے اس مسئلہ پر اہلِ علم کے نمایاں نقطہ ہائے نظر لکھ دیے جاتے ہیں:

1. اس رجحان میں قادیانیوں کی تکفیر کے لیے موجود دلائل کو ناکافی جان کر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ احمدیوں کو کافر قرار دینے کا فتویٰ علمی لحاظ سے درست نہیں۔تکفیر کا معاملہ جس احتیاط کا متقاضی ہے اس میں وہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ ختمِ نبوت کے مسئلہ میں احمدی گروہ کی تاویلات یہ گنجائش پیدا کر دیتی ہیں کہ انھیں براہِ راست ختم نبوت کا منکر قرار دے کر تکفیر نہ کی جائے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی اس رجحان کےایک نمائندہ عالمِ دین تھے۔

2. اس رجحان میں معاملہ یوں دیکھا گیا کہ ریاست شہریوں کے کن امور میں مداخلت کر سکتی ہے اور کن میں نہیں؟ چنانچہ اس پہلو سے احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دلوانا ایک ناحق اقدام تھا، جو غالب مذہبی عناصر کے زور پر ریاست کو کرنا پڑا۔ریاست سرے سے یہ اختیار ہی نہیں رکھتی کہ وہ شہریوں کے ایمان کا فیصلہ کرے۔ایمان ہر شہری کا نجی معاملہ ہو گا، جس کے لیے وہ اپنے خدا کے سامنے جواب دے گا۔ اس رجحان کے حاملین وہ اصحابِ فکر ہیں جو ریاست کی مذہبی امور میں مداخلت درست نہیں سمجھتے ۔

3. اس رجحان میں یہ سوچا گیا کہ احمدی غلط فہمی کی وجہ سے ایک ایسے نظریے کے قائل ہو گئے ہیں جس کی اسلام میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کا درست طریقہ یہ نہیں کہ ان کو فتویٰ میں یا آئینی لحاظ سے کافر قرار دے دیا جائے بلکہ درست طرزِ عمل یہ ہے کہ دین کی دعوتی حکمتِ عملی اپنا کر انھیں غلط فہمی سے نکالنے کی کوشش کی جائے۔ اس نہج پر سوچنے والوں کا خیال تھا کہ بائیکاٹ یا کافر قرار دینے کے نتیجہ میں کسی قسم کا کوئی دینی فائدہ حاصل نہیں ہو پائے گا۔اس رجحان میں تکفیر کی بجائے دعوتی حکمتِ عملی کو اپنانا مفید سمجھا گیا۔ مولانا عبیداللہ سندھی کے ہاں یہ رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔

4. ایک رجحان یہ ہے کہ قادیانی ایسے نظریات کے حامل ہیں، جس کے بعد وہ مرتد ہو چکے ہیں۔ ان کی سزا یہی تھی کہ ان سب کو قتل کر دیا جاتا۔ اس نظریے کے علم بردار ہمارے دینی روایتی حلقے ہیں۔

5. ایک رجحان یہ سامنے آیا کہ قادیانی اسلام سے تو خارج ہیں مگر انھیں قتل کرنے کی بجائے آئینی طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا جائے۔یہ تجویز علامہ اقبال کی طرف سے سامنے آئی۔

6. قادیانی گروہ کا مذہبی خیال تھا کہ مرزا صاحب پر ایمان لانا ضروری ہے، ان کی طرف سے ان لوگوں کی تکفیر کی گئی جو مرزا صاحب پر ایمان نہیں لاتے۔ ہر مذہبی گروہ کی طرح ان کا بھی اپنے بارے میں شروع سے ہی یہ خیال ہے کہ وہی وہ نجات یافتہ گروہ ہیں جس کی بابت نبی ﷺ نے فرمایا کہ وہ میرے اور میرے صحابہ کے نقشِ قدم پر ہوگا۔

قادیانیوں کی تکفیر سے گریز کرنے والے رجحانات کو تو عوامی تائید میسر نہ آسکی ، روایتی علماء کا موقف عوامی تائید رکھتا تھا مگرعملی لحاظ سے ممکن نہ تھا اور خود احمدیوں کا موقف ان کی کمزور سماجی پوزیشن کے ہوتے ہوئے آئین کا حصہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ روایتی مذہبی حلقے جس موقف کے قائل تھے اس پر عمل درآمدکروانا ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا، اس لئے وہ قابلِ عمل ہونے کی وجہ سے ، اقبال کی تجویز پر قناعت کرنے پر مجبور ہوئے اور اقبال کا موقف ہی منوانے کے لئے پریشر گروپ کے طور پر ایکٹو ہوئے۔ اقبال کا موقف عملی لحاظ سے ممکن تھا اور اس کا ایک حصہ مذہبی گروہوں کے حق میں تھا لہذا اس گروہ کی ساری تائید اس موقف کی حمایت میں آگئی اور یہی رجحان آئین کا حصہ بن پایا۔

اب جو مشکل سامنے آئی وہ یہ تھی کہ یہ فیصلہ قادیانیوں کے بارے میں پائے جانے والے رجحانات میں سے کسی اکثریتی رجحان کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کی حیثیت ، خود قادیانی گروپ اور ان کے اکثریتی مخالفین کی طرف سے، مجبواراً تسلیم کئے گئے فیصلے کی سی ہے۔ مذہبی گروہ کے خیال میں قادیانیوں کا شرعی حکم وہ نہیں جو آئین میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کا اصل حکم یہی تھا کہ انھیں قتل کردیاجاتا، آئین نے انھیں گویا ایک قسم کی چھوٹ دے دی اور انھیں بھی وہ چھوٹ حالات کے ہاتھوں مجبوراً گوارا کرناپڑی۔ مذہبی ذہن ویسے بھی ریاست سے کسی “خالص اسلامی ” فیصلہ کی توقع نہیں رکھتا۔ آئینی فورم پر جو ممکن تھا اس پر وقتی قناعت کرتے ہوئے، اپنے نظریے کے باقی اجزاء سماجی پریشر کے زور پر غیرآئینی طریقے سے منوانے شروع کر دیے۔

سماجی سطح پر اپنا موقف پیش کرنے میں ، روایتی مذہبی حلقوں نے ، اپنی روایتی دھونس کا بھرپور مظاہرہ کیا۔اس مسئلہ کو براہِ راست ناموسِ رسالت کے مسئلہ سے جوڑ کر آئین، علم ، قانون، اخلاق اور دین کی ہراساس سے بے نیاز کر دیا ۔

اب سماجی سطح پر یہ مسئلہ نبی ﷺ سے محبت اور اُنﷺ پر ایمان کے تقاضے کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ ایک لکیر کھینچ دی گئی کہ جسے نبی ﷺ سے محبت ہے اس پر لازم ہے کہ ہر موقع پر قادیانیوں کی ہرممکن مخالفت کرے۔ کوئی قادیانی مظلوم ہو، بے بس ہو، محتاج ہو، اسے آپ کی مدد کی ضرورت ہو، بھلے جو بھی ہو، جب تک وہ قادیانی ہے آپ نے اس کی کوئی مدد نہیں کرنی، اس کی حمایت میں کچھ نہیں کہنا بلکہ ڈٹ کر صرف مخالفت کرنی ہے، اور یہ سب نبی ﷺ پر ایمان کا لازمی تقاضہ ہے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو “گنبدِ خضریٰ “میں دلِ مصطفیٰ ﷺ دکھے گا اور وہ شخص نبی ﷺ کے دشمنوں کا یار سمجھا جائے گا ۔

نبی ﷺ کی تعلیمات کے برخلاف سماج میں طاری کی گئی اس فضا کے سامنے اب آئین، دین، علم اور اخلاق سب شکست کھا چکے ہیں۔ اب معاملہ اس حد تک جذباتی کر دیا گیا ہے کہ انسان جاں کی اماں بھی نہیں پاتا کہ اس پر بات کر سکے۔ جذباتی دھونس کے زور پر اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں کا ایمان اور زندگی کالعدم کر دی جاتی ہے۔ اہلِ مذہب کے اس رویّے کو دل ہی دل میں برا جان کر لوگ خاموش ہو رہتے ہیں کہ انھیں جلد مرجانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی۔

کسی ریاست میں گروہوں کی باہمی نفرت اس درجہ پر ہو کہ وہ دوسروں کا وجود ہی گوارا نہ کررہے ہوں ، تو ریاست نے آگے بڑھ کر اپنے شہریوں کو گود میں لینا ہوتا ہے۔ اس نے شہریوں سے آئین کی صورت میں جو معاہدہ کیا ہوتا ہے، اس کی پابندی کرتے ہوئے، گروہوں کے ایک دوسرے کے خلاف غیرآئینی تجاوزات سے نبٹنا ہوتا ہے۔مگر یہاں ریاست نے، بہ دلِ نا خواستہ، ایک ایسا موقف مان رکھا ہے جس کے مطابق وہ اپنے شہریوں کو حقوق دینے کا دم ہی نہیں رکھتی۔ اس نے ایک ایسا دلچسپ قانون مانا ہوا ہے جس سے خود ریاست سمیت سماج کے کسی گروہ کو اتفاق نہیں۔یہ ایک ایسا قانون ہے جس سے اور تو اور خود قادیانیوں کے مخالفین کو بھی اتفاق نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سمجھتے ہیں کہ اس تضادات کے حامل آئینی دھوکے سے کہیں بہتر ہے کہ آئین میں ترمیم کر کے اسے کم از کم قادیانی دشمن اکثریتی مذہبی گروہ کے خیالات کے عین مطابق کر دیا جائے۔ ایسے بے تائید آئین کو قانون کی سطروں میں ٹانک دینے کا، اک ڈھونگ کے سوا کوئی مقصد نہیں۔ مذہبی گروہوں کو بھی کھل کر اس آئین کی مخالفت کرنی چاہیے اور ڈٹ کر یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ قادیانیوں کے حوالےسے ان کی مرضی کے خلاف بنایا گیا آئین انھیں منظور نہیں۔ وہ کم از کم سماجی سطح پر قادیانیوں کے خلاف مہم چلاتے ہوئے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کرتے جائیں کہ قادیانیوں کے حوالے سے بنایا گیا آئین بھی شریعت کے خلاف ہے۔ وہ لوگوں کو بتائیں کہ قادیانی اس قسم کے کافر ہیں اور ان کے لیے کے لیے آئین میں مانے گئے حقوق سراسرشریعت کے خلاف ہیں۔۔ وہ واشگاف الفاظ میں اعلان کریں کہ جب تک اس آئین میں شرعی تبدیلی نہیں کر دی جاتی، یہ آئین انھیں منظور نہیں۔ ریاست کے شہریوں کا بھلا اب اسی میں ہے۔

Facebook Comments

تہامی بشرعلوی
بندہ پی ایچ ڈی میں مصروف ہے.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply