برصغیر پاک و ہند میں بہت سی قومیں،مذاہب اور ثقافتیں موجود ہیں۔کچھ اکثریت میں ہیں تو کچھ اقلیت میں۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سنا ہے جہاں جمہوریت ہو وہاں رائے عامہ کی آزادی حاصل ہوتی ہے تاہم بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے باوجود مکمل آ زاد رائے عامہ سے محروم ہے۔یہی صورتحال پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔جہاں مذہب،سیاست اور سماجی موضوعات پر برملا اظہار محال ہے، یعنی تنقید اور اختلاف کا فطری حق انسان سے چھینا ہوا ہے۔
اگر پاکستان کی مثال لیں تو بہت سے لوگ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اس کی وجہ سے پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔جس میں مذہبی،سیاسی اور صحافتی شخصیات شامل ہیں۔کچھ کو حکومت سے خطرات لاحق ہیں تو کچھ کو سماج سے ۔زیادہ تر مذہبی لوگوں کو معاشرے سے ہی خطرات لاحق رہتے ہیں۔کیونکہ مذہب ایک حسّاس معاملہ ہے۔ ہر فرد کسی نہ کسی مذہب،نظریے یا عقیدے سے تعلق رکھتا ہے۔
مذہبی اور سیاسی فرقوں کا دور دورہ ہے اور ہر جماعت یا شخص خواہ مذہبی ہو یا سیاسی اپنے اپنے نظریات کو پھیلانے، خواہ سیاسی سطح پر ہوں یا سماجی،کوشش جاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ سماجی مسئلہ ہے یا نفسیاتی؟تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے یا تربیت کا مسئلہ ہے؟پاکستانی معاشرہ قدیم اور جدید کی کشمکش میں جی رہا ہے۔اگر مغربی دنیا کو دیکھا جائے تو وہاں رائے عامہ مکمل آزاد ہے خواہ سیاسی سطح پر ہو یا سماجی۔اس سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب میں تعلیمی ترقی سے وہاں انتہا پسندی اور انتشار پسندی نہیں۔کیا ہماری انتہا پسندی اور انتشار کی یہی اصل وجہ ہے؟اگر تعلیمی کمی کی وجہ سے ہی ایسا ہے تو پھر پاکستان کا پڑھا لکھا طبقہ بھی کیوں اس لپٹ میں ہے؟پڑھے لکھے سیاست دان ہوں یا مذہبی علما،دانشور ہوں یا فلسفی گویا ہماری پوری سوسائٹی اس لپیٹ میں ہے۔ضروری نہیں کہ ہر پڑھا لکھا شخص انتہا پسند اور انتشار پسند ہو لیکن کم از کم سیاست دان اور علماء کی سطح پر تو ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں۔جب بھی ملک میں سیاسی انتشار ہو یا مذہبی و لسانی فساد تو ان کی قیادت پڑھے لکھے لوگ ہی کررہے ہوتے ہیں۔
تو یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ آیا انسانی مفادات اس میں شامل ہونے سے انتہا پسندی اور انتشار پسندی جنم لیتی ہے؟تو اس کی اچھی مثال مغربی دنیا ہے۔وہاں بھی انسان بستے ہیں اور انکے بھی مفادات ہوتے ہیں تو پھر مغرب میں ایسا کیوں نہیں؟کیونکہ اگر مفادات ہی اصل وجہ ہے تو وہاں بھی اس کو اسی زاویہ سے دیکھنا چاہیے۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ایک اور رائے بھی ہوسکتی ہے کہ ہماری مذہبی تربیت غلط ہوئی ہے اور ہمارے ہاں زیادہ تر مذہب سے ہی سیاست اور سماجی اصول مرتب ہیں گویا جو مذہب سے دور ہوگا اس کیلئے زمین تنگ کردی جائے گی۔اس کی مثال خود پاکستان اور بھارت ہے۔بھارت میں مسلمانوں کو تحفظات ہیں تو وہیں پاکستان میں قادیانیوں ،احمدیوں اور دوسری اقلیتی برادری کو تحفظات ہیں۔مطلب جب کسی مخالف نظریہ یا مذہب کی بات ہو تو وہاں تکرار ہوتی ہے اور اپنے نظریے اور مذہب کو بالاتر سمجھتے ہوئے دوسرے کے نظریے اور مذہب کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے جس سے پھر مخالف سمت سے بھی ردعمل آتا ہے اور ایک انتشار پسند رویہ جنم لیتا ہے جس سے نفسیاتی اثرات ہونے سے حق و باطل کی جنگ سمجھ کر اپنے نظریے اور مذہب کا بھرپور دفاع کیا جاتا ہے۔مذہب میں فرقوں کے درمیان لڑائی اسی کی ایک کڑی ہے۔
کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عام آدمی اپنے سیاسی رہنما یا شخصیت، جس سے وہ متاثر ہو اس جیسا ہی رویہ اپناتا ہے۔اگر سیاسی یا مذہبی رہنما کا رویہ اور خطاب جارحانہ اور غیر فطری ہوگا تو اس کا اثر اسکے پیروکار بھی لیں گے۔یہ بات کسی حد تک درست ہے تاہم اس سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔اس کی ایک مثال سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہے جس کی حرکات و سکنات مشتبہ سمجھی جاتی تھیں اور اکثر میڈیا کی زینت بھی بنتی تھیں،کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے پیروکار اس جیسا ہی اپنا رویہ رکھتے تھے؟نہیں۔ ۔مطلب اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ضروری نہیں کہ انسان جس شخصیت سے متاثر ہو تو اس جیسا ہی خود کو بنائے۔
اس تحریر میں مَیں نے بعض جگہ پر کچھ مغرب سے مثال دی تو کچھ برصغیر پاک و ہند سے گویا مفروضات کی بجائے موجودہ اور سابقہ تاریخ سے بات کی سعی کرنے کی کوشش کی ہے۔اس سارے تجزیے سے ایک کنفیوژن پیدا ہوتی ہے کہ پھر کون سا سبب ہے جس سے معاشرے میں انارکی اور لوگوں کی افتادطبع پیدا ہوتی ہے۔کیونکہ معاشرہ لوگوں سے بنتا ہے اور آج کے جدید دور میں معاشرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے اور نئے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ بعض اوقات کسی معاشرتی مسئلے کا ایک ہی سبب ہوتا ہے اور بعض اوقات بہت سے اسباب ہوتے ہیں۔معاشرتی انتہا پسندی اور انتشار پسندی بھی بہت سے اسباب کا نتیجہ ہے۔کسی ایک سبب کی وجہ سے نہیں۔کہیں تعلیم کی کمی سے ہوگا تو کہیں تربیت، تو کہی کلٹ شخصیت پیدا ہونے سے تعلیم و تربیت والے بھی اسی میں بہہ جائیں گے۔ کلٹ شخصیت سے متاثر بھی اکثر ناخواندہ لوگ ہی ہوتے ہیں تعلیمی کمی کی وجہ سے سیاسی و مذہبی شعور کی کمی اور تنقیدی نکتہ نظر کی کمی ہوتی ہے ۔لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنی اپنی رائے کا اظہار کرے اور دوسروں کی رائے کا احترام ۔ مثلاً “جیو اور جینے دو”یا “اپنا فرقہ چھوڑو نہیں دوسرے کے فرقے کو چھیڑو نہیں”، جیسے جملے اس ساری بات کو چند الفاظ میں مکمل کردیتے ہیں۔
بحث یا انتہا پسندی پیدا ہی تب ہوتی ہے جب کوئی فرد اپنے نقطہء نظریہ کو برحق سمجھ کر دوسرے کی رائے کو باطل قرار دے کر اس کا سِرے سے انکار کرے یا مذاق اُڑائے۔تاہم مغربی دنیا میں ایسا رویہ نہیں بلکہ وہاں تنقید اور اختلاف کا سب کو پورا پورا حق ہے اور ہر رائے کا احترام یقینی بنایا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں انتہا پسندی اور انتشار پسندی نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی تربیت سیاسی و سماجی سطح پر کرنے کی کوشش کی جائے تو ہوسکتا ہے معاشرے میں امن قائم ہو جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں