چھوٹا غالب عرف جوگی۔۔۔ عظمت نواز

آج مکالمہ کے ایک اہم لکھاری اویس قرنی کا جنم دن ہے۔ اس موقع پر ضرافت کے بدو، عظمت نواز نے انکو ہیپی ٹو یو کیا ہے۔ مکالمہ بھی اس ہیپی ٹو یو میں شامل ہے۔ دعائیں۔ ایڈیٹر

غالب بھی ایسی کمال شخصیت گزرے ہیں کہ اب انکے گزرے کو صدی سے زیادہ کا عرصہ بھی گزر گیا ہے مگر غالب کے کلام کی پرتیں دن بدن کھلتی جاتی ہیں اور غالب سو سال پہلے والوں اور بعد والوں میں یکساں مقبول ہیں اس کا کریڈٹ بہت سے لوگوں کو جاتا ہے مگر آج کے دن ایک ایسے بچے نے جنم لیا کہ جو آگے چل کر غالب و کلام غالب کی وہ خصوصیات دوسروں پر آشکار کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں جو اس سے پہلے شاید ہی کسی سخن شناس نے آپ اور ہم تک پہنچائی ہوں – حضرت سے اگر آپ بات کچھ کریں غالب کے متعلق تو فرماتے ہیں

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

بچپن میں جوگی خراماں خراماں چلا کرتا تھا اور کچھ خوئے ادھار خوری بھی تھی اور برجستگی بھی بلا کی پائی جاتی تھی تو کسی نے کہہ دیا کہ یہ بھی پورا غالب ہے یعنی اپنی عادات و اطوار سے پورا غالب( ادھار خوری وغیرہ )- وہ جملہ جوگی کو تب کچھ زیادہ اوکھا اوکھا محسوس ہوا کہ میں ایسا کونسا چلتر کام کر رہا ہوں جو غالب خستہ کیا کرتے تھے کہ ان راہ چلتوں نے مجھے مثل غالب قرار دے دیا – یہ وہ اولین موقع تھا جب جوگی نے غالب و کلام غالب کو پڑھنا شروع کیا اور پھر جوگی جوگی نہ رہا بلکہ “چھوٹا غالب” سا بن کر رہ گیا کہ تاریخ میں جس قدر جھوٹ مرزا غالب کے معاصرین و حاسدین نے پھیلایا تھا اتنا شاید کسی ادبی شخصیت کے حوالے سے پھیلایا گیا ہو گا –

غالب کو ہم تک سوشل میڈیا کے ذریعے جس نابغے نے پہنچایا اور اس انداز میں پہنچایا کہ ہم سبھی غالب کے گرویدہ ہوتے چلے گئے – جوگی نے غالب کو یقینا وہاں سے سمجھا ہے جہاں سے غالب نے اپنے تخیل کی بنیاد پر اشعار کہے ہیں – جوگی غالب کی ولایت کا دعوے دار نہیں مگر اس سے کچھ کم پر غالب کو ماننے پر تیار بھی ہرگز نہیں ہے – اردو ادب و فارسی پر اس قدر عبور اس دور میں اور اس عمر میں جوگی کا ہی خاصہ ہے ورنہ ہم کہاں اور یہ وبال کہاں والی بات تھی ہمارے لیے تو یعنی جتنا عبور اردو پر کلام غالب کی برکت سے اتنا ہی عبور جوگی فارسی پر بھی رکھتا ہے – اور جب جب آپ غالب کی طرفداری کا الزام لگائیں تو جوگی کہتا ہے “ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں”

جوگی فلسفے والوں کو بھی لتاڑتا ہے اور فلسفے کے مبلغین کو بھی مگر مزے کی بات یہ ھے کہ جوگی خود منکر فلسفہ بالکل بھی نہیں ہے اور اس جہت علمی سے بخوبی واقف ہے – آجکل مگر ایک پریشانی میں مبتلا ہے کہ ابھی تک اس نے اپنے استاد غالب کی پیروی کرتے ہوئے نہایت کم عمری میں وبال شریک حیات کیوں نہ پال کیا تاکہ کل کو کہہ سکتا کے ہم نے علمی و عملی دونوں شعبوں میں غالب کی پیروی کی ہے مگر افسوس کہ یہ نہ ہو سکا اور جوگی یہ سمجھتا ہے کے اسکے استاد غالب نے یہ شعر اس کی اسی حالت کو سوچتے ہوئے فرمایا تھا

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب؟

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

یعنی یا اللہ باقی سبھی کام کرنے جوگے تھے وہ کر چھوڑے ہیں یا خداوندا یہ دشت امکاں میں میری شادی کا نقش پا کدھر ہے اور کب ہے یھی جوگی کا دھیان ھے آجکل ?

اور روزگار کے معاملات میں تو موصوف صد فی صد اپنے روحانی استاد قبلہ غالب پر گئے ہیں یعنی کوئی کام دھندہ نہیں کرتے ہرگز نہیں کرتے مبادا کفر ہی سمجھتے ہوں کام کرنے کو –

در اصل جوگی سرائیکی وسیب کا ایسا نگینہ ہے جسے کوئی جوہر شناس تاحال نہیں ملا سوشل میڈیا پر چند نقال کچھ لکھ کر داد کی طلب رکھتے ہیں اور مختلف طریقہ ہائے جائز و ناجائز سے اس بات کی طرف لے ہی جاتے ہیں اپنے قارئین کو مگر جوگی استاد الگ تھلگ غالبیات کی شمع جلائے اپنی دھن میں بیٹھا رہتا ہے، نہ خوے مدح سرائی، نہ ضرورت واہ واہ کی، نہ فالورز کی پرواہ کے کتنے ہیں اور کتنے نہیں، بڑے بڑے لکھاریوں کی تصحیح ہم جوگی سے در پردہ کرواتے رہتے ہیں – بات کچھ اس طرح ہے کہ آج چھوٹے غالب و خاک نشین جوگی یعنی اویس قرنی مدظلہ علیہ کی سالگرہ مبارک کا یوم مبارک ہے اور ہم انکو سالگرہ مبارک کہنا چاہ رہے تھے کہ استاد جی بہت بہت سالگرہ مبارک ہو اللہ تعالٰی علم میں مزید اضافہ فرمائے اور ہمارے استفادے کا سبب بنتے رہیں – امید ہے آنے والا سال آپکے لیے بقول غالب “

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

اک برہمن نے کہا ہے کہ “یہ سال اچھا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ میں سے کوئی غالب کی شاعری کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے کچھ سیکھنا چاہتا ہے تو جوگی کو پڑھیں اور مجھے دعا دیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply