تم نے ٹوپی کیوں نہیں پہنی؟۔۔گل نو خیز اختر

پنجابی میں کہتے ہیں’’کاں چٹا اے‘‘۔ یعنی جو میرے منہ سے نکلا ہے وہی ٹھیک ہے۔آج کل یہی ماحول چل رہا ہے۔ہر بندہ خوش ہے کہ اُس پر بالآخر سچائی آشکار ہوگئی ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے سب جھوٹ ہے۔اختلاف رائے اچھی چیز ہوا کرتا تھا لیکن اب تو اختلاف کرنے کا مطلب خود کشی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بیماری کا شکار وہ لوگ بھی ہورہے ہیں جن کے پاس ڈگری بھی تحقیق کی ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کوئی معمولی ڈگری نہیں ہوتی‘ بندہ بیٹھے بٹھائے ڈاکٹر کہلانے لگتاہے۔ جن لوگوں کو یہ ڈگریاں عطا ہوتی ہیں وہ معاشرے کے سب سے سمجھداراورذہین افراد سمجھے جاتے ہیں ۔ یقیناًکئی ہوتے بھی ہیں لیکن ایسوں کی بھی کمی نہیں جن سے گفتگو کے بعد شدت سے احساس ہوتاہے کہ قبلہ نے پی ایچ ڈی تو کرلی ہے‘ پتا نہیں میٹرک کیا ہے یا نہیں؟ میں کل سے شدید حیرت میں مبتلا ہوں‘ میری ایک ایسے پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ہے جو ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔انتہائی خاموش طبع ہیں‘ شائد یہی ان کی سب سے اچھی چیز تھی ‘ لیکن کل کی محفل میں جب ان کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا تو رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ کیا یہ ایک پی ایچ ڈی کی سوچ ہے؟ گفتگو بڑی مزیدار تھی ۔سائنسی ایجادات پر بات ہورہی تھی۔موصوف نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ’’موبائل فون سے لے کرانٹرنیٹ تک تمام ایجادات پاکستانی مسلمان سائنسدانوں کی ہیں ‘‘۔ پہلے تو سب نے اس بات پر قہقہہ لگایا اور یہی سمجھے کہ شائد ازراہ تفنن یہ بات ہوئی ہے لیکن جب ڈاکٹر سیرئس ہوگئے تو محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’امریکہ ہر سال 15 پاکستانی ذہین ترین افراد کو اپنے ہاں لے جاتاہے‘ اس کے بعد اس کی شناخت ختم کردی جاتی ہے اور کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ یہ لوگ امریکی لیبارٹریز میں کام کرتے ہیں‘ وہیں رہتے ہیں اور باقی دنیا سے ان کا رابطہ ختم کردیا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جدید ترین ایجادات کرتے ہیں‘‘۔ڈاکٹر صاحب کی بات سن کر سوال کیا گیا کہ حضور آخر اِن ذہین پاکستانیوں کے ماں باپ‘ بہن بھائی‘ دوست رشتہ دار توہوتے ہوں گے‘ کیا وہ بھی اِن کے کھو جانے پر کہیں کوئی واویلا نہیں کرتے؟‘‘۔ ڈاکٹر صاحب پوری سنجیدگی سے بولے’’نہیں! سب کو بھاری رقم دے کر خاموش کرادیا جاتاہے‘‘۔ یہ سنتے ہی محفل میں موجود لوگوں نے بے چینی سے پہلو بدلااورانتہائی احترام سے پوچھا کہ ’’ڈاکٹر صاحب آپ کی اس تحقیق کا سورس اور ثبوت کیا ہے؟‘‘۔ ڈاکٹر صاحب بولے’’دونوں چیزیں میں خود ہوں‘‘۔
اس کے بعد تین گھنٹے تک ان سے سرکھپائی ہوتی رہی لیکن ڈاکٹر صاحب بضد تھے کہ جو ان کے منہ سے نکلا ہے وہ سچ ہے اور جو اس سچ کو نہیں مانتا وہ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے ایک انتہائی قریبی عزیزایسی ہی ایک لیبارٹری سے فرار ہوگئے تھے اور تب ہی یہ بات لیک آؤٹ ہوئی۔‘‘ محفل میں موجود ہر شخص کھجلی میں مبتلا ہوگیا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس قسم کی بے سروپا بات کیوں کررہے ہیں۔ ایک دوست نے ہاتھ جوڑے’’ڈاکٹرصاحب ! خدا کے لیے، آپ پی ایچ ڈی ہیں‘ آپ نے جو مقالہ لکھا ہوگا اس کے لیے یقیناًبڑی تحقیق کی ہوگی ‘ کم ازکم آپ تو ایسی لمبی لمبی نہ چھوڑیں۔۔۔اور اگر ایسی کوئی بات ہے تو کسی بندے کا نام ہی بتا دیں تاکہ ہم بھی تحقیق کرلیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اورفرمایا’’2080 میں یہ ساری بات دنیا کے سامنے کھل جائے گی۔‘‘ ہم سب تلملا اٹھے۔ ایک صاحب نے تو فرمائش ظاہر کردی کہ وہ ڈاکٹر صاحب کا پی ایچ ڈی کا مقالہ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ یقین کرسکیں کہ واقعی ڈاکٹر صاحب نے کچھ تحقیق کی ہے یا سارا مقالہ اسی قسم کے محیر العقول اندازوں پر مبنی ہے۔ہم چھ لوگ تھے لیکن سب مل کر بھی ڈاکٹر صاحب کو نہیں ہرا سکے۔۔۔ان کا ’کاں چٹا ‘‘ ہی رہا۔محفل کے بعد کئی احباب خوف کا اظہار کرتے رہے کہ یہ ڈاکٹر صاحب باقاعدہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں‘ تو کیا یہ اپنا ’عظیم علم‘ اپنے شاگردوں میں بھی منتقل کرتے ہوں گے؟؟؟ایک صاحب نے تویہاں تک کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب اور میرے گھر کام کرنے والی ماسی کی دماغی سطح بالکل ایک جیسی ہے ‘ فرق صرف ڈگری کا ہے۔تفصیل پوچھی گئی تو فرمانے لگے کہ ’’ماسی کہتی ہے جو لوگ زیادہ علم حاصل کرلیتے ہیں وہ پاگل ہوجاتے ہیں‘‘۔دوسری آواز آئی’’اس لحاظ سے تو ماسی کی ذہنی سطح بلند ہوئی‘‘۔
ثبوت اور تحقیق کا دور ہی نہیں رہا۔ اپنی بات پر اڑے رہنے کا بہترین طریقہ ہے کہ جو بات منہ سے نکل جائے اُس پر پکے ہوجائیں اور اگر کوئی دلائل دینا بھی پڑیں تو اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے پھر پہلے والی بات پر آجائیں۔ویسے اس سے بھی شاندار طریقہ یہ ہے کہ جو دلائل مانگے اُسے صرف اتنا کہہ کر خاموش کرادیں کہ ’’تہاڈا کوئی علاج نہیں‘‘۔جن پڑھے لکھوں کو یہ موذی مرض لاحق ہوچکا ہے ان کے پاس سب سے بڑی دلیل ان کی وہ ڈگری ہوتی ہے جسے وہ علم کا معیار سمجھتے ہیں‘ جس کے آگے کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی۔یہ انتہائی معتبر نظر آتے ہیں‘ بہت کم گفتگو کرتے ہیں‘ مسکرانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں لیکن اگر کبھی کھلیں تو اپنا ہی بیڑا غرق کروا بیٹھتے ہیں۔کبھی فیس بک پر اس ٹائپ کے لوگوں کا پروفائل چیک کیجئے اور پھر گفتگو کا شرف حاصل کیجئے۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال سے ملتا جلتا ایک لطیفہ موصول ہوا ہے کہ ایک دن بندر کا دل چاہا کہ وہ بھی اپنی طاقت آزمائے‘ اپنے سے کمزور اور کوئی جانور نہ ملا تو خرگوش کو زور سے تھپڑ دے مارا۔خرگوش نے احتجاج کیا تو گرج کر بولا’’تم نے ٹوپی کیوں نہیں پہنی؟‘‘۔ خرگوش نے گال سہلاتے ہوئے کہا’’میرے کان بڑے ہیں‘ ٹوپی نیچے کھسک جاتی ہے‘‘۔ بندر نے سرہلادیا۔ اگلے دن پھر خرگوش کو تھپڑ دے مارا کہ تم نے ٹوپی کیوں نہیں پہنی۔ خرگوش نے رونی صورت بنا کر بتایا کہ کل بھی یہی سوال پوچھا گیا تھا اور میں نے جواب دے دیا تھا کہ ٹوپی نیچے کھسک جاتی ہے۔ بندر پھر مطمئن ہوگیا لیکن تیسرے روز پھر بندر کو تھپڑ مار کر یہی سوال کیا تو بندر روتا ہوا شیر کے پاس چلا گیا۔ ساری روداد بیان کی۔ شیر نے بندر کو علیحدگی میں بلایا اور سمجھایا کہ بے شک اپنی محدود طاقت کا استعمال جاری رکھو لیکن کم ازکم کوئی چھوٹا موٹا بہانہ تو بنا لیا کرو۔ بندر نے عرض کی کہ کیا بہانہ بناؤں؟ شیر نے سمجھایا’’خرگوش کو سموسے لینے بھیجو‘ واپس آئے تو پوچھو میٹھی چٹنی کیوں نہیں لائے‘ اگر لے آئے تو اعتراض کرو کہ دہی کی چٹنی کیوں نہیں لائے۔۔۔یوں کم ازکم تھپڑ مارنے کا جواز تو پیدا ہو۔‘‘ اتفاق سے خرگوش نے یہ ساری گفتگو سن لی۔ اگلے دن بندر نے خرگوش کو آرڈر کیا کہ میرے لیے دو سموسے لے کر آؤ۔ خرگوش بھاگ کر سموسے لے آیا۔ بندر نے کڑک کر پوچھا’’میٹھی چٹنی کہاں ہے؟‘‘۔ خرگوش نے جھٹ سے پیش کردی۔ بندر چلایا’’او ر دہی کی چٹنی؟‘‘۔ خرگوش نے فوراً وہ بھی پیش کردی۔ بندر نے سرکھجایا’’اور وہ آلو بخارے کی چٹنی؟‘‘۔ خرگوش نے نہایت سعادت مندی سے وہ بھی حاضر کردی۔ بندر نے کچھ دیر سوچا‘ پھر زور سے خرگوش کو تھپڑ دے مارااور چلایا’’تم نے ٹوپی کیوں نہیں پہنی؟‘‘۔ (گل نوخیزاختر

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply