یوم شہداء کی مناسبت سے شیعہ شہیدوں کا تذکرہ۔۔۔حمزہ ابراہیم

پاکستان میں کل  6 ستمبر کو یوم شہداء منایا گیا۔ شہیدوں کی یاد منانا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ تاریخ انسانی معاشرے کا حافظہ ہوتی ہے۔ اگر معاشرہ تاریخ کو بھلا دے تو تاریخ اپنے آپ کو دہرا  سکتی ہے۔ دنیا بھر میں شہیدوں کی یاد منانے کیلئے نہ صرف تقریبات اور یوم مناۓ جاتے ہیں بلکہ ان شہیدوں کے آثار کو عجائب گھروں میں رکھا جاتا ہے تاکہ نئی نسل ان اسباب سے آگاہ ہو سکے جنہوں نے ان شہیدوں سے ان کی زندگی چھین لی، اور یہ سبق حاصل کر سکے کہ ان شہیدوں پر ہونے والے ظلم کے کیا نتائج نکلے؟ کیا ظالم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا؟یورپ میں کئی صدیوں سے یہودیوں کے خلاف  افواہوں اور سازشی نظریات کی تبلیغ اور  امتیازی سلوک نے ہولو کاسٹ کے سانحے کو جنم دیا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب مردم شماری کی گئی تو یورپ میں یہودیوں کی تعداد میں ساٹھ لاکھ تک کمی واقع ہو چکی تھی۔ اس سانحے نے مغربی معاشروں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اگرچہ اس کا ایک نتیجہ ان کی طرف سے اسرائیل کے قیام کی حمایت کی شکل میں نکلا مگر ایک اور اہم قدم یہ اٹھایا گیا کہ ہولو کاسٹ سے تعلق رکھنے والے مقامات اور آثار کو عجائب گھروں کی شکل میں محفوظ کر دیا گیا تاکہ آنے والی نسلیں اس سے سبق سیکھ کر نفرت کے بیوپاریوں کے دھوکے میں آنے سے بچ جائیں۔ اس کے علاوہ متعدد کتب میں مظلوموں کے حالات زندگی بیان کئے گئے اور کئی ایک ڈاکومنٹریاں بنا کر دستاویزی  حقائق کو محفوظ کر دیا گیا۔

وطن عزیز میں آزادی کے بعد ہی شیعہ کشی کا سلسلہ جاری ہے، لیکن یہ سلسلہ رکنے کے بجاۓ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رجحان نے پاکستانی معیشت کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ پچھلے پندرہ برس سے بات شیعہ کشی سے آگے بڑھ کر عوامی مقامات پر بم دھماکوں اور سماجی زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دینے والی دہشتگردی تک پہنچ گئی ہے۔ البتہ نہ تو یوم شہداء پر شیعہ شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا کوئی اہتمام نظر آتا ہے نہ شہیدوں کیلئے کوئی میوزیم تعمیر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں نہ صرف سرکاری عجائب گھر موجود ہیں بلکہ شیعہ عوام نے امام بارگاہیں اور مساجد بھی تعمیر کر رکھی ہیں جن میں کوئی ہال کمرہ شہیدوں کے آثار جمع کرنے اور عوام کو دکھانے کیلئے مختص نہیں کیا گیا۔ شیعہ دشمنی  پاکستان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے اور اس  کی تاریخ کو محفوظ  کر کے نئی نسل کو بتاۓ  بغیر پاکستان ترقی کے راستوں کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا۔

وادئ سندھ  میں شیعہ کشی کی ابتدائی تاریخ!

دریاۓ سندھ  کے آس پاس کے علاقوں میں شیعہ مخالف تشدد کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔  ابن خلدون کے بقول خلیفہ منصور کے زمانے میں سندھ کا عامل عمر بن حفص تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا۔ محمد نفس ذکیہ کے فرزند عبد اللہ اشترؒ، جن کو عبد اللہ شاہ غازیؒ کے نام سے جانا جاتا ہے،400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت کے ساتھ اس کے پاس آئے۔ حاکم عباسی منصور کو جب اس کی خبر پہنچی تو اس نے ہشام بن عمر ثعلبی کو سندھ روانہ کیا جہاں ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان قتال ہوا جس کے نتیجے میں عبد اللہ شاہ غازیؒ شہید ہوئے اور ان کے ساتھی  اس علاقے میں بکھرگئے۔ طبری نے یہ واقعات 768ء (151 ہجری) میں نقل کیے ہیں[3۔1]۔

دسویں صدی عیسوی میں ایران اور عراق میں اثناء عشری شیعہ  خاندان آل بویہ  (934ء –1062ء )اور مصر، شام، حجاز اور  وادئ سندھ (موجودہ پاکستان)  میں  اسماعیلی شیعہ فاطمیوں ( 909ء –1171ء ) اور اسماعیلی  شیعہ قرامطہ کی حکومت قائم ہوئی  ۔ بو علی  سینا نے اپنی معروف کتابیں ” الشفاء” اور “القانون”  اور  دسیوں مقالے اسی دوران  لکھے۔شیخ صدوق، ابن الہیثم،  البیرونی  جیسے اہم علماء اسی زمانے  سے تعلق رکھتے ہیں جسے  مسلمانوں کی گولڈن ایج کہا جاتا ہے ۔    انہی دو شیعہ حکومتوں کے  ادوار میں عزاداری  اور تعزیہ کے جلوسوں کو آزادی حاصل ہوئی۔لیکن گیارہویں صدی کے شروع میں محمود غزنوی  نے ایران پر حملہ کر کے رے کو آل بویہ سے چھین لیا  اور شیعوں کا قتل عام کیا ۔  دوسری طرف   محمود غزنوی کے دو حملوں میں ملتان سے سیہون تک پھیلی قرامطہ حکومت ختم ہو گئی[8]۔ ان حملوں میں ملتان کی اسماعیلی آبادی کا قتلِ عام ہوا۔ قرامطہ حکمران ابوفتح داؤد کو قیدی بنایا گیا۔ ملتان کے شہریوں سے لگ بھگ دو کروڑ دینار تاوان وصول کیا گیا اور بچے کچھے شیعہ بالائی پنجاب اور زیریں سندھ کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 1060ء  میں سلجوقیوں نے عراق پر حملہ کر کے آل بویہ کی حکومت کا مکمل خاتمہ کر دیا اور یہی حملہ مسلمانوں  میں  ڈارک  ایجز  کا   نقطۂ  آغاز  ثابت  ہوا  جس کے بعد سے مسلمانوں کو  مسلسل زوال کا سامنا ہے۔

چودہویں صدی عیسوی میں  سید علی ہمدانی اور  شمس الدین عراقی اور ان کے پیروکاروں نے کشمیر میں قدم رکھا اورمقامی ہندو آبادی میں اثنا عشری شیعہ اسلام کی تبلیغ شروع کی۔  1528ء میں بلتستان اور کشمیر میں چک سلطنت قائم ہوئی جس نے ہزاروں ہندوؤں کو شیعہ اسلام میں داخل کیا۔یہ لوگ نوربخشی صوفی سلسلے کے پیروکار تھے،  ان میں سے اکثر  بعد میں اصولی شیعہ بن گئے۔  ایک ترک جنگجو سردار مرزا حیدر دگلت نے 1540ء میں کشمیر پر حملہ کیا اور شیعہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ مرزا دگلت کی واپسی کے بعد چک خاندان کا اقتدار پھر سے بحال ہو گیا۔ 1586 ء میں مغلوں کے ہاتھوں چک سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ چک سلطنت کے خاتمے کے بعد کشمیر میں  بیرونی حملہ آوروں  اور تکفیری علماء نے   “تاراج شیعہ” کے نام سے معروف شیعہ مسلمانوں کے قتل، انکی جائیدادوں کی لوٹ، انکے  کتب خانوں کو آگ لگانے اور مقدس مقامات کو تباہ کرنے  کی متعدد مہمات  چلائیں۔ تاریخ میں 1548 ء ، 1586ء ، 1635ء ، 1686ء ، 1719ء ، 1741ء ، 1762 ء ، 1801ء ، 1830ء اور  1872ء  کے سالوں میں تاراج شیعہ  کی مہمات کا ذکر موجود ہے[4]۔

1526 ء میں بابر نے شمالی ہندوستان میں سلطان ابراہیم لودھی کی حکومت کو شکست دے کر مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر اور ہمایوں ایرانی صفوی بادشاہوں کے رہینِ منّت ہونے کی وجہ سے شیعہ سنی منافرت سے دور رہے۔ شروع شروع میں اکبر کا مذہبی رویہ خاصا سخت گیر رہا۔ اس نے بااثر تکفیری عالم شیخ عبدالنبی کے مشورے پر حضرت امیر خسرو ؒکے پہلو میں دفن ایک شیعہ عالم میر مرتضی شیرازی ؒکی قبر اکھڑوا دی۔ اکبر کے زمانے میں بعض تکفیری علماء کی سفارش پر متعدد شیعہ رہنما قتل بھی ہوئے، جن میں لاہور کےملا احمد ٹھٹھویؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔  ملا احمد ٹھٹھوی ؒ  نے بائیس سال کی عمر میں شیعہ مسلک اختیار کیا تھا۔ وہ ایران کے شہر مشہد گئے اور بعد ازاں یزد اور شیراز چلے گئے جہاں انہوں نے بو علی سیناؒ کی کتاب “القانون” کا درس حاصل کیا۔ اسکے بعد وہ مکہ چلے گئے اور عرب دنیا کے علماء سے ارتباط پیدا کیا۔ مختلف علوم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہندوستان کے علاقے فتح پور سیکری تشریف لائے جہاں بعض تکفیری علماء کی سازشوں کا شکار ہو کر شہید کر دئیے گئے۔  بعد ازاں یہی اکبر مذہبی و فرقہ وارانہ لحاظ سے غیر جانبدار ہوگیا۔ اس نے  تکفیری علماء کی تنگ نظری کی بدولت اپنی مملکت کو لاحق خطرات سے نبٹنے کیلئے ایک نیا آئین بنام “دین  الہی” متعارف کرایا جس میں ہندوستان کے تمام مذاہب  کی آزادی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اس نے غیر مسلم اکثریت سے جزیہ لینا بند کر دیا اور ریاست کی نظر میں تمام شہریوں کو مساوی قرار دیا۔ اس سلوک  کی وجہ سے جہاں آ ئے روز اٹھنے والی بغاوتیں کم ہو گئیں وہیں بعض ہندوؤں نے اکبر کی شان میں قصیدے اور بھجن گانا شروع کر دیئے جن  کو شیخ احمد سرہندی جیسے  علماء نے اکبر کی پرستش قرار دے کر طوفان کھڑا کر دیا۔ اکبر دور میں ایک اثنا عشری شیعہ عالم آیت الله  سیدنور الله شوستریؒ  نے ہر فقہ کے ماننے والے کے لیے اس کی فقہ کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے سبب بادشاہ کا اعتماد حاصل کر لیا۔ اکبر نے سید نور الله شوستری ؒکوقاضی القضاۃ  کا درجہ دیا۔ اکبر کے زمانے میں شیخ احمد سرہندی نے شیعوں کے خلاف “رسالہ ردِ روافض”نامی ایک کتاب لکھی جس کا جواب قاضی نور الله شوستری ؒنے 1605 ء   میں “احقاق الحق” لکھ کر دیا ۔ اکبر کی وفات کے بعد شیخ احمد سرہندی  اور دوسرے سنی علماء کے مطالبے پر جہانگیر نے قاضی نور الله شوستریؒ کو کوڑے لگانے کی سزا سنائی جس کے نتیجے میں ستر سال کی عمر میں انکا انتقال ہو گیا۔ اپنے والد کے برعکس شاہجہاں نے شیعوں کے خلاف کوئی تعصب نہیں برتا البتہ اورنگزیب نے اپنے بھائی داراشکوہ اور دکن کی شیعہ ریاست کے خلاف لشکر کشی کے لیے مذہبی منافرت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ اسی زمانے میں مرحوم شیخ احمد سرہندی کے شاگردوں کو سرکاری سرپرستی میسر آئی۔ اس خطرناک حکمت عملی نے معاشرے پر جو اثرات چھوڑے ان کا اندازہ اس واقعے سے ہو جاتا ہے کہ1707ء میں اورنگزیب کی وفات کی خبر سن کر لاہور میں مشتعل افراد نے شیعہ امام بارگاہوں اور مساجد کو آگ لگا دی [5]۔ اورنگزیب کے زمانے میں تینتیس جلدوں پر مشتمل جو مجموعہ بعنوان “فتاویِ عالمگیری” مرتب کیا گیا اس میں شیعہ عقیدے کو گمراہانہ بتایا گیا۔ اورنگ زیب ہی کے دور میں تعزیے اور ماتمی جلوس پر پابندی لگانے کی کوشش بھی ہوئی۔

1687 ء میں اورنگزیب نے  دکن میں شیعہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا مگر  اس  فرقہ وارانہ جنگ کے نتیجے میں ہندوستان میں مسلمان معاشرہ فرقہ واریت کا شکار ہو کر بٹ گیا۔1674 ء  میں دکن سلطنت کے خاتمے اور مغل سلطنت کی کمزور یوں سے فائدہ اٹھا کر رائے گڑھ کے مقام پر شیوا جی بھوسلے نے “مرہٹہ سلطنت “کا آغاز کیا۔ شیوا جی نے فارسی کو ممنوع قرار دیا اور سنسکرت کو نافذ کیا۔ مرہٹوں نے ہندو قوم پرستی کے فسطائی خیالات پھیلائے جنہوں نے آگے چل کر راشٹریہ سیوک سنک جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں کو جنم دیا۔ یہاں تک کہ 1737 ء میں مرہٹہ لشکر نے دہلی پر حملہ کر کے لوٹ مار کی۔ دوسری طرف ایران میں مغل دوست صفوی سلطنت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ ایران کے نئے ترک  نژاد سنی بادشاہ “نادر شاہ افشار “نے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے1739 ء  میں ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کو دوبارہ لوٹ مار اور قتل عام کا سامنا کرنا پڑا۔ نادر شاہ فرقہ وارانہ تعصب سے پاک تھا اور اس کا مقصدصرف لوٹ مار کر کے خراسان میں قائم اپنی سلطنت سہارا دینا تھا۔1747 ء  میں نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کے افغان دستے کے سربراہ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان نامی نئے ملک کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل یہ علاقہ ہمیشہ پڑوسی ریاستوں کے زیر اثر ہوا کرتا تھا۔شاہ ولی الله کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو شکست دینے کے نام پر  ہندوستان پر حملے کئے مگر اسکی افواج نے لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ ہندوستان کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہو گئی۔ پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ نے احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بارے میں کہا:۔

کھادا پیتا وادے دا

باقی احمد شاہے د ا

یعنی تمھارے  دنیاوی مال و اسباب میں تمہاراحصہ وہی ہے جو تم استعمال کر لو ورنہ  جو بچا کر رکھو گے وہ  احمد شاہ ابدالی جیسے لٹیرے لے جائیں گے۔ احمد شاہ ابدالی نے دہلی میں عام  ہندوؤں  اور  شیعوں کا بھی قتل عام کیا[6]۔ 1758ء میں مرہٹوں نے پنجاب تک قبضہ کرلیا تھا۔ 1761ء میں اودھ کے شیعہ نواب شجاع الدولہ، روہیل کھنڈ کے نجیب الدولہ کی مشترکہ افواج نے مرہٹوں کو پانی پت میں عبرتناک شکست دے کر شمال میں ان کی پیشقدمی ہمیشہ کے لئے روک دی۔شیعہ سنی اختلاف سے شروع ہونے والے اس سو سالہ خانہ جنگی کے دور میں مشرق اور جنوب میں انگریزوں کی پیش قدمی جاری رہی۔1764ء میں بکسر کے میدان میں بنگال کے شیعہ نواب میر قاسم نے انگریزوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے مغل شہنشاہ  شاہ عالم ثانی اور اودھ کی  شیعہ حکومت سے اتحاد قائم کیا مگر شکست کھائی۔ اس جنگ میں فتح کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو بے پناہ اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔ انہوں نے بنگال اور بہار پر ٹیکس لگا یا اور مغل شہنشاہ بھی ان کا وظیفہ خوار بن گیا۔ 1790ء میں شاہ عبد العزیز دہلوی نے شیعہ اعتقادات کے خلاف “تحفۃ اثنا عشریۃ” نامی کتاب لکھی۔اس طرح برصغیر میں شیعہ مخالف کتب لکھنے کے سلسلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ علماء میں سے علامہ سید محمد قلی موسوی ؒنے “الأجناد الإثنا عشريۃ المحمديۃ”،  آیت الله میر سید حامد حسینؒ نے “عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار” اور علامہ سید محمّد کمال دہلوی ؒنے” نزھۃ اثنا عشریۃ” کے عنوان سے کتابیں لکھیں، لیکن  ان کتابوں کو  پڑھ کر الجھنیں دور کرنے کے بجاۓ شیعہ دشمن علماء  شاہ عبد العزیز صاحب کے الزامات کو ہی  دہراتے رہتے ہیں۔

تزک بابری میں [7]بابر نے اپنے ولی عہد ہمایوں کے لئے وصیت کی تھی کہ:۔

٭ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے اور رعایت کے بغیر سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔

٭ شیعہ سنی اختلافات کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہو، کیونکہ ان سے اسلام کمزور ہوجائے گا۔

اس حکیمانہ وصیت سے روگردانی کرنے کی وجہ سے اورنگزیب کی متعصب حکومت مغل اقتدار کے خاتمے کا سبب بنی۔ مسالک اور مذاھب کی جنگوں کا فائدہ انگریزوں نے اٹھایا۔

برطانوی ہندوستان میں شیعہ دشمنی

برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے یہاں جدید ریاست قائم کرنا شروع کی ۔ اس کا مقصد یہاں کی عوام کی فلاح و بہبود نہیں تھا بلکہ فعال اداروں کے بغیر انگریز اپنے  اہداف حاصل کرنے میں کامیاب  نہیں ہو سکتے تھے۔چونکہ شیعہ سنی  تشدد انگریز سرکار کے کام میں خلل پیدا کر سکتا تھا،  اسلئے انگریز انتظامیہ اہم مقامات اور ایام پر اپنی پولیس کو حرکت میں لا کر امن و امان قائم رکھتی تھی نیز مجرموں کو ضرور سزا دی جاتی تھی۔ تکفیری علماء کی تمام تر کوشش کے باوجود بڑے پیمانے پر شیعہ کشی کا عمل انجام نہ دیا جا سکا۔اگرچہ تاریخ سے ناواقفیت کی بنا پر شیعہ مخالف تشدد کو اکثر انگریزوں کی سازش قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :۔

“محرم میں ذکر شہادت حسینؑ کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو، یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے” [8]۔ برطانوی ہندوستان میں عزاداری پر سب سے پہلا حملہ مولانا قاسم نانوتوی کی قیادت میں دار العلوم دیوبند کے طلبہ نے کیا۔ دیوبند قصبے کے رہائشی اہل سنت محرم میں کربلا کا ذکر کیا کرتے تھے۔ مولانا قاسم نانوتوی نے طلبہ کا جتھہ بنا کر دیوبند کے رہائشی اہل سنت کو دہشت زدہ کیا اور کربلاکی یاد منانے سے روک دیا [9]۔

1878 ء سے 1880 ء تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی تھی  اور پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا تھا۔ انگریزوں نے امیر عبدالرحمان  خان کو کٹھ پتلی حکمران بنا کر افغانستان کے امور خارجہ اپنے اختیار میں قرار دئیے تھے نیز کسی  غیر ملکی (روسی)  حملےکی صورت میں افغانستان کی “مدد “کرنے کی ذمہ داری لی تھی۔ دیوبند مکتب کی شیعہ  دشمن سوچ کاپہلا نتیجہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور انکی جائیداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس کے نتیجے میں افغانستان کے  ہزارہ قبیلے کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی [10]۔ یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے  کوئٹہ میں آ گئے۔ وادئ کرم کے شیعہ قبائل افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کاروائیوں کی وجہ سے الگ ہو کر برطانوی ہندوستان سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کی پہلی ایجنسی قائم ہوئی۔

1906 ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں مقابلے میں دیوبندی علماء کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان جلوسوں کو نکالا تو صحابہ کے نام پر جاتا لیکن ان میں کربلا کے واقعے پر گفتگو اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں یزید اور دیگر بنی امیہ وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے  شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد کے خطرے کے پیش نظر اس فتنے پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ کونشانہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادئ سندھ میں بھی آیا۔

1915 ء میں دیوبندی علماء نے “تحریک ریشمی رومال” کے نام سے ایک مہم چلائی جس کا مقصد افغان شاہ کو پنجاب اور دہلی پر حملے کی دعوت دینا تھا۔ اگرچہ اس سے قبل احمد شاہ ابدالی نے شاہ ولی الله کی دعوت قبول کر کے پنجاب اور دہلی کو تاراج کیا تھا لیکن امیر حبیب الله خان  کے دل میں انگریزوں کی طاقتور حکومت  کے ہوتے ہوئے لوٹ مار کرنے  کی ہمت پیدا نہ  ہوئی۔نتیجتا ً یہ تحریک ان علماء کی گرفتاری کی شکل میں اپنی موت آپ مر گئی۔

1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے “کتاب شہادت” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں حضرات  علی ؑو حسنین ؑکی توہین اور ملوکیت بنی امیہ کی وکالت کی گئی تھی[11]۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک تکفیری مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح “صحابہ” کے  سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938 ء میں اس جلوس کے  رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آ چکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ قائد اعظم ؒ، جوکہ مسلمانوں کے حقوق کیلئے متحرک ہو چکے تھے، اس فساد کو کانگریس کی سازش سمجھتے تھے[12] کیوں کہ اس کو ہوا دینے والے جمعیت علمائے ہند کے  مولانا حسین احمد مدنی کانگریس کے اتحادی  تھے۔ قائد اعظم ؒکے خیال میں شیعہ سنی جھگڑے کروانے کا مقصد  مسلم لیگ کی طرف سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ  کیلئے شروع کی جانے والی تحریک کو پردے کے پیچھے دھکیلنا تھا۔   حیرت کی بات یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگریسی وزیروں کی مسلم دشمنی  سامنے آنے کے باوجود مولانا حسین احمد مدنی کانگریس سے اتحاد کو  تو قائم رکھے ہو ئے تھے مگر قائد اعظم ؒکے بغض میں  مسلمانوں کا داخلی اتحاد توڑنے میں لگے رہتے  تھے۔21 فروری  1940ء کو  دہلی میں عزاداری کے جلوس پر بم سے حملہ کیا گیا [13]۔ اس حملےکو شیعہ  مسلمانوں پر ہونے والا پہلا بم دھماکا کہا جا سکتا ہے۔

البتہ دیوبندی علماء کی مخالفت کی وجہ صرف فرقہ وارانہ نہیں تھی، مدارس کا  خرچہ چلانا بھی انکا ایک درد سر تھا۔ قائد اعظم ؒکے ساتھی  مرزا ابو الحسن اصفہانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:۔

”مجھے یاد ہے کہ پہلے روز مفتی کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے جناح کی حمایت کرتے ہوئے مسلم لیگ کو عملی سیاست کے اکھاڑے میں زیادہ فعال حصہ لینے کی تجویز کا خیرمقدم کیا مگر آخری روز ان دو علمائے دین میں سے ایک نے تجویز پیش کی کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی کو یقینی بنانے کی خاطر انتھک اور مؤثر پروپیگنڈے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر دیوبند کی مشینری مسلم لیگ کے لیے وقف کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ لیگ اس پروپیگنڈے مہم کے اخراجات برداشت کرے۔ ابتدائی اخراجات کے لیے پچاس ہزار روپے طلب کیے گئے۔ جناح نے صاف بتا دیا کہ نہ تو اس وقت لیگ اتنے پیسے دے سکتی ہے اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے۔ اس پر ہر دو علمائے دین مایوس ہو کر کانگرس کی طرف راغب ہو گئے۔ کانگرس چونکہ مالی اعانت کا مطالبہ پورا کر سکتی تھی اس لیے اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا “[14]۔

1944ء میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں” تنظیم اہل سنت” کے نام سے ایک شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا، جو ضیاء دور میں  نام بدل کر سپاہ صحابہ بن گئی۔  26اکتوبر 1946ءکو مولانا شبیر احمد عثمانی نے مسلم لیگ کے متوازی سیاسی جماعت “جمعیت علمائے اسلام “قائم کی۔ یوں ایک سرد جنگ شروع ہو گئی کیونکہ دیوبندی علماء قائد اعظم ؒکے جدید نظریات پر مبنی تصورپاکستان کو غلط سمجھتے تھے[15]۔یہ  دونوں جماعتیں  شروع سے باہمی تعاون کے اصول پر کاربند رہی ہیں۔

پاکستان میں شیعہ کشی

پاکستان کے قیام سے پہلے ہی دیوبندی علماء نے شیعوں کی نماز جنازہ پڑھنے کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ لہٰذا قائد اعظم ؒکی پہلی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں ان کے اپنے مسلک کے مطابق پڑھی گئی مگر جب عوام میں نماز جنازہ پڑھانے کی باری آئی تو حکومت نے مولانا شبیر احمد عثمانی کو طلب کیا تاکہ بعد میں جنازہ پڑھنے والوں کے خلاف کوئی فتویٰ نہ دے سکیں۔ اسکے باوجود  “فتاویٰ مفتی محمود” میں شیعہ حضرات کا جنازہ نہ پڑھنے کے فتووں ذیل میں قائد اعظم کے شیعہ ہونے کی وجہ سے مولانا شبیر احمد عثمانی کی طرف سے ان کا جنازہ پڑھنے کو گناہ قرار دیا گیا ہے [16]۔ جب ان سے کسی شاگردنے سوال کیا کہ آپ نے قائد اعظمؒ کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی تو انہوں نے فرقہ وارانہ تعصب سے رجوع کرنے کی بجائے ایک خواب سنا کر سوال کو ٹال دیا۔ دوسری طرف “تنظیم اہلسنت” کے پلیٹ فارم سے دیوبندی علماء مولانا نور الحسن بخاری، مولانا دوست محمد قریشی، مولانا عبد الستارتونسوی وغیرہ نے پاکستان بھر میں شیعہ مخالف جلسے کیے اور لوگوں کو فسادات کے لیے اکسایا [17]۔ لہٰذا قیام پاکستان سے بعد ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔1949ء میں چوٹی زیریں اور 1950ء میں نارووال میں عزاداری پر حملے ہوئے۔ 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں شیعہ امیدواروں کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مہم چلائی گئی اور انھیں کافر قرار دیا گیا۔ 1955ء میں پنجاب میں پچیس مقامات پر عزاداری کے جلوسوں اور امام بارگاہوں پر حملے کیے گئے جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔ اسی سال کراچی میں ایک مولانا صاحب نے افواہ اڑائی کہ شیعہ ہر سال ایک سنی بچہ ذبح کر کے نیاز پکاتے ہیں، اس افواہ کے زیر اثر کراچی میں ایک بلتی امامبارگاہ پر حملہ ہوا اور بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے۔ پاکستان میں شیعہ کشی کی پہلی واردات1950 ء میں وادئ کرم پر دیوبندی قبائل کے حملے کی صورت میں ہوئی، جو 1948 ء میں جہاد کشمیر کے نام پر اسلحہ اور مال غنیمت سمیٹ کر طاقتور ہو گئے تھے۔ 1956 ء میں وادئ کرم دوبارہ حملوں کا نشانہ بنی۔ 1957ء میں ملتان کے ضلع مظفر گڑھ کے گاؤں سیت پور میں محرم کے جلوس پر حملہ کر کے تین عزاداروں کو قتل کر دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے عدالتی کمیشن قائم کیا گیا اور اس واردات میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔ اسی سال احمد پور شرقی میں عزاداری کے جلوس پر پتھراؤ کے نتیجے میں ایک شخص جان بحق اور تین شدید زخمی ہوئے۔ جون 1958ء میں بھکر میں ایک شیعہ خطیب آغا محسن ؒکو قتل کر دیا گیا۔ قاتل نے اعترافی بیان میں کہا کہ مولانا نور الحسن بخاری کی تقریر نے اس کو اس جرم پر اکسایا تھا جس میں شیعوں کو قتل کرنے والے کو غازی علم دین شہید سے نسبت دی گئی تھی اور جنت کی بشارت دی گئی تھی[18]۔

پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں 1963ء کا سال سب سے زیادہ خونریز ثابت ہوا۔ 3 جون 1963ء کو بھاٹی دروازہ لاہور میں عزاداری کے جلوس پر پتھروں اور چاقوؤں سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو عزادار قتل اور سو کے قریب زخمی ہوئے۔ نارووال، چنیوٹ اور کوئٹہ میں بھی عزاداروں پر حملے ہوئے۔ اس سال دہشت گردی کی بدترین واردات سندھ کے ضلعے خیر پور کے گاؤں ٹھیری میں پیش آئی جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق عاشورا کے دن120 عزاداروں کو کلہاڑیوں اور تلواروں کی مدد سے ذبح کیا گیا [19]۔ اس وقت تک شیعہ دشمنی میں اتنی شدت آ چکی تھی کہ 11 جولائی 1967ءکو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کو سرکاری اعزاز سے دفن کئے جانے پر فسادی عناصر نے اعتراض کیا اور ایک شدت پسند طلبہ تنظیم نے ان  کے  جنازے  پر  پتھراؤ شروع کر دیا جس کے خلاف پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔ جنرل ایوب خان نے اپنی یاداشتوں میں اس ہنگامے کا ذکر کیا ہے[20]۔ 1967ء سے 1977ءتک کے سالوں میں شیعہ کشی کی مہم متصف علماء کے پیپلز پارٹی کے سوشلزم کی مخالفت، مشرقی پاکستان میں مساوی حقوق کی تحریک کو کچلنے کیلئے البدر اور الشمس نام کی دہشتگرد تنظیمیں بنانے،  اور بعد میں ختم نبوت کی تحریک جیسے مسائل میں الجھ جانے کی وجہ سے ماند پڑ گئی۔ افغانستان نے 1973 ء میں پشتونستان کے نام پر پاکستان کے پختونون کو استعمال کر کے ملک توڑنے کی سازش بنائی جس کے جواب میں پاکستان نے افغان حکومت کے مخالف اخوان کو مدد دینا شروع کی تھی۔ اس طرح نام نہاد “افغان مجاہدین” کے ساتھ پاکستانی حکومت کے تعلقات 1974 ء میں ہی استوار ہو گئے۔ جب جولائی 1977ء میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا تو اگلے محرم، فروری 1978ء میں لاہور میں 8 جبکہ کراچی میں 14 شیعہ قتل ہوئے [21]۔

پاکستان میں دیوبندی دہشت گردی کے واقعات میں شدت اس وقت آئی جب27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں انقلاب ثور آیااور اس سے اگلے سال افغانستان کی  کمیونسٹ حکومت نے روس کو مداخلت کی دعوت دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں افغانستان غیر مستحکم ہو گیا۔ جب کوئی ریاست ٹوٹتی ہے تو وہ ڈاکووں اور دہشت گردوں کے لیے جنت بن جاتی ہے۔ گزشتہ سو سال میں اردو زبان میں لکھا گیا نفرت انگیز لٹریچر کافی مقدار میں پھیل چکا تھا۔ افغانستان میں جاری جنگ کے ضمن میں جنگی تربیت، مالی وسائل اور پناہ گاہیں ملنے کے نتیجے میں پاکستان میں شیعہ ثقافت کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والی  جماعت “تنظیم اہل سنت” اب نئے نام “سپاہ صحابہ” کے ساتھ زیادہ متحرک ہو گئی۔

ضیاء کے زمانے میں کوئٹہ، کراچی، پاراچنار اور گلگت میں شیعوں پر بڑے  حملے ہوئے۔1981 ء میں کرم ایجنسی کے سارے دیوبندی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر پاراچنار کے راستے پر موجود قصبہ “صده “میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی طرز پر  شیعوں کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا۔ کیونکہ اس وقت تک انگریز وں کے زمانے میں تشکیل دی گئی کرم ملیشیا وادئ کرم میں موجودتھی لہذا جنگ صده تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیلنے نہ دی گئی۔1983 ء  میں کراچی میں شیعہ آبادیوں پر حملے ہوئے جن میں ساٹھ افراد شہید کر دئیے گئے۔5 جولائی 1985ء کو کوئٹہ میں تکفیری دہشتگردوں نے اپنے دو پولیس والے سہولت کاروں کے ہمراہ پولیس کی وردیاں پہن کر شیعوں کے احتجاجی جلوس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 25 شیعہ قتل ہو ئے۔ البتہ چونکہ یہ دو بدو مقابلے کی کوشش تھی، لہذا 11 دہشتگرد جوابی کاروائی میں ہلاک ہو گئے۔    پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ہلاک شدگان میں سے دو کی شناخت پولیس اہلکاروں کے طور پر ہوئی ، باقی 9 جعلی وردیاں پہن کر آ ئے تھے۔  24 جولائی 1987 ء کوپاراچنار میں شیعہ آبادیوں پر افغان مجاہدین کا حملہ شیعوں کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہو گیا۔  اسی کی دہائی میں پاکستان بھر میں سات سو کے لگ بھگ شیعہ قتل ہوئے، جن میں سے 400کے قریب لوگ 1988ءمیں گلگت کی غیر مسلح شیعہ آبادیوں پر حملے کے نتیجے میں قتل ہوئے[22] ۔ دیوبندی اور اہل حدیث علماء  نے کئی نفرت انگیز کتب لکھیں،  اشتعال دلانے کے اس جال میں مولانا غلام حسین نجفی جیسے نیم خواندہ شیعہ علماء آسانی سے پھنس گئے اور آگ کو مزید بھڑکانے لگے۔ ضیاء دور میں ہی قائد اعظم ؒکو سنی کہلوانے کی کوششوں کا آغاز ہوا، گویا قائد اعظم کا شیعہ ہونا بھی قابل قبول نہ رہا تھا۔جس ماحول میں بانی پاکستان کا  شیعہ ہونا بھی ہضم  نہ کیا جا رہا ہو وہاں عام شیعہ افراد کا ثانوی شہری بن جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

نوے کی دہائی میں سپاہ صحابہ نے شیعوں پر کئی خونریز حملے کیے [23]۔ ادھر  افغانستان میں روس کے جانے کے بعد مجاہدین کے گروہ اقتدار کی خاطر آپس میں لڑتے رہے یہاں تک کہ پاکستانی حمایت یافتہ تحریک طالبان افغانستان نے مجاہدین کے باقی گروہوں کو ملک کے  شمالی علاقوں تک محدود کر دیا۔ امیر عبد الرحمن خان کے بعد افغان طالبان کی حکومت میں دیوبندی علماء کو شیعہ ہزارہ کے قتل عام کا موقعہ ملا ، چنانچہ بامیان اور مزار شریف میں بچوں کو بھی نہ بخشا گیا۔

مفتی نظام الدین شامزئی کا فتویٰ

قائد اعظم ؒکے  جدید  مسلمان ریاست کے تصور کے خلاف مفتی شبیر احمد عثمانی اور دیگر دیوبندی اکابر کی شروع کردہ مہم کو نقطۂ عروج پر  مفتی نظام الدین شامزئی نے پہنچایا۔ نوے کی دہائی کے آخر میں افغان طالبان نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا  تھا جسکی تنظیم نے 1998ء میں مشرقی افریقہ میں دو امریکی سفارت خانوں پر بم سے حملے کئے تھے اور ایک امریکی بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش کی تھی۔اسامہ بن لادن دراصل اپنے ملک سعودی عرب میں امریکی افواج کی موجودگی کے خلاف تھا مگر اپنے ملک میں عوام کو ساتھ ملا کر سیاسی تحریک چلانے کے بجا ئے اس قسم کی د ہشتگردانہ کاروائیوں میں ملوث ہو گیا تھا۔ اس دوران کراچی میں رہائش پذیر دیوبندی مفتی نظام الدین شامزئی بھی اسامہ بن لادن کی حمایت میں تقریبات منعقد کرنا شروع ہو گئے تھے۔11  ستمبر 2001 ء کو القاعدہ نے کچھ مسافر بردار طیارے اغوا کر کے امریکا کے شہر نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں عمارتوں سے ٹکرا دئیے۔تین ہزار بے گناہ افراد قتل کر دئیے گئے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں خارجی عناصر نے جشن منایا۔اسامہ بن لادن کی طرف سے بے گناہ شہریوں کا دن دیہاڑے قتل ایسا جرم تھا جس کے جواب کیلئے امریکی حکومت کو اپنے عوام کی ہر ممکن حمایت حاصل ہو چکی تھی۔ امریکی حکومت پر عوام کی طرف سے مقتولین کیلئے انصاف یقینی بنانے کا دباؤ پڑنے لگا تھا۔امریکا نے افغان طالبان سے اسامہ کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔افغان طالبان کے انکار کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔

7 اکتوبر 2001ءکو امریکا نے افغان طالبان پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کی حکومت نے پرائی جنگ اپنے سر لینے کے بجائے امریکا کو راستہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مفتی نظام الدین شامزئی نے ملک گیر بغاوت پر اکساتے ہوئے فتویٰ جاری کیا [24]۔ مفتی شامزئی سوات سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے فتوے کو قبائلی علاقہ جات میں بہت پذیرائی ملی۔ پنجاب اور سندھ میں دیوبندی مدارس کے پاس اتنا اسلحہ نہیں تھا کہ وہ پولیس اور فوج سے لڑ سکتے، لہٰذا ان علاقوں پر اس فتوے کا فوری اثر نہ ہو سکا۔ افغان طالبان چند دنوں میں امریکا کے  ہاتھوں شکست کھا گئے اور بہت سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجو برقعے پہن کر پاکستانی علاقوں میں آ گئے۔

مفتی شامزئی کے فتوے کی وجہ سے پاکستان بھر سے دہشت گرد اب قبائلی علاقوں میں جمع ہو کر تحریک طالبان پاکستان کے نام سے ایک ظالمانہ تکفیری  ریاست قائم کر چکے تھے۔ ان طالبان نے پاکستانی فوج اور عوام  پر پے در پے حملے شروع کر دیے۔ اس دوران پاکستان میں شیعوں اور بریلویوں پر حملوں کی خونریزی میں نیا اضافہ خودکش حملوں کی شکل میں دیکھنے میں آیا۔ 11اپریل 2006ء کو نشتر پارک میں دھماکا کر کے سنی تحریک کے قائدین سمیت 47 لوگ شہید کر دیے گئے۔ 12جون 2009ء کو لاہور میں مفتی سرفراز نعیمی ؒکو خودکش بمبار کی مدد سے شہید کر دیا گیا۔ 2 جولائی 2010ء کو لاہور میں داتا دربار پر حملہ کر کے پچاس افراد کو شہیداور دو سو کو شدید زخمی کر دیا گیا۔ 2007 ء  میں پاراچنار پر طالبان کا حملہ مقامی آبادی کی بھرپور تیاری کی وجہ سے ناکام ہوا جس کے بعد پانچ سال کیلئے پاراچنار تک اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی ترسیل کے راستے بند رہے اور اس وقت بحال ہوئے جب وزیرستان اور سوات میں آپریشن کے نتیجے میں طالبان کو شکست ہو گئی۔ اعداد و شمار کے مطابق سن 2000ء سے 2018ء تک تقریباً تین ہزار شیعہ قتل ہوئے جبکہ ہزاروں زخمی اور معذور ہو کر زندہ لاش بن چکے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے شیعہ ہیں۔

بر مزارِ ما غریباں، نی چراغی ، نے گلی

نی پرِ پروانہ  یابی، نی سراید بلبلی

ترجمہ: ہم اجنبیوں کے مزار پر نہ ہی کوئی چراغ ہے اور نہ کوئی پھول، نہ کسی  پروانے  کا پر ملتا ہے اور نہ ہی بلبل کوئی نغمہ سناتی ہے۔

یہ شعر ہندوستان  کی  شیعہ ملکہ، محترمہ نورجہاںؒ کی قبر پر تحریر ہے اور اکثر صاحبان ِ علم کے مطابق انہی کا کلام ہے۔

حوالاجات

  1.  ابن خلدون۔تا ريخ ابن خلدون ،ج 3۔ ص 198– 199۔
  2. ذہبی۔ تاريخ الإسلام۔ ج 9 ص 352۔ أبو الفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبيين ص 207۔ 208
  3. طبری ،تاريخ الطبری۔ ج 6۔ ص 291
  4. پیر غلام حسن کویہامی، تاریخ حسن، 1960.
  5. Rizvi, “A Socio-Intellectual History of the Isna Ashari Shias in India“, Vol. II, pp. 39–41.
  6. Khalid Ahmed, “Sectarian War: Pakistan’s Sunni-Shia Violence and its links to the Middle East”, Oxford University Press, 2011.
  7. تزک بابری۔ اردو ترجمہ صفحہ 23
  8. فتاوٰی رشیدیہ ص 435مصنف :رشید احمد گنگوہی دیوبندی
  9. مولانا محمد اللہ قاسمی، “دارالعلوم دیوبند اور ردِّشیعیت”، ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12 ‏، جلد: 97 ‏، صفر 1435 ہجری مطابق دسمبر 2013ء
  10. Afghanistan: Who are the Hazaras? | Taliban | Al Jazeera
  11. مرزا حیرت دہلوی، “کتاب شہادت“، کرزن پریس دہلی، (1920)۔
  12. . Justin Jones, “Shi‘a Islam in Colonial India“, Cambridge University Press, (2012)
  13. The Statesman, Delhi Edition, 21 February 1940
  14. Abul Hassan Isphani, “Quaid-e-Azam Jinnah, as I Knew Him “

.(Forward Publications Trust Karachi (1967

  1. مسلک دیوبند کے اکابر میں سے مفتی کفایت ﷲ دہلوی صاحب کے مطابق قائد شیعہ اور جدید تعلیم سے آراستہ  ہونے کی وجہ سے حقیقی مسلمان نہیں تھے۔ حوالہ: کتاب ” کفایت المفتی“، جلد نہم، کتاب السیاسیات، فتاویٰ نمبر: ٥٣٩، ٥٣٨، ٥٥٤، ٥٥٥.
  2. فتاویٰ مفتی محمود، جلد سوم، کتاب الجنائز، صفحہ 67
  3. مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ | مولانا زاہد الراشدی: http://zahidrashdi.org/1614
  4. Andreas Rieck, “The Shias of Pakistan: An Assertive and Beleaguered Minority”، Oxford University Press, (2015
  5. http://sharaabtoon.blogspot.com/2013/06/the-most-unfortunate-incident-theri.html
  6. Mohammad Ayub Khan, ” Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan, 1966-1972 “, Oxford University Press, 2008.

9 July 1967 and 11 July 1967: Major General Rafi, my military secretary, returned from Karachi. He had gone there to represent me at Miss Jinnah’s funeral. He said that sensible people were happy that the government had given her so much recognition, but generally the people behaved very badly. There was an initial namaz-e janaza at her residence in Mohatta Palace in accordance, presumably, with Shia rites. Then there was to be namaz-e janaza for the public in the Polo Ground. There an argument developed whether this should be led by a Shia or a Sunni. Eventually, Badayuni was put forward to lead the prayer. As soon as he uttered the first sentence the crowd broke in the rear. Thereupon he and the rest ran leaving the coffin high and dry. It was with some difficulty that the coffin was put on a vehicle and taken to the compound of the Quaid’s mazar, where she was to be buried. There a large crowd had gathered and demanded to converge on the place of burial. This obviously could not be allowed for lack of space. Thereupon, the students and the goonda elements started pelting stones on the police. They had to resort to lathi charge and tear gas attack. The compound of the mazar was apparently littered with stones, Look at the bestiality and irresponsibility of the people. Even a place like this could not be free of vandalism.

  1. http://www.thefridaytimes.com/tft/shiaphobia/
  2. In May 1988, low-intensity political rivalry and sectarian tension ignited into full-scale carnage as thousands of armed tribesmen from outside Gilgit district invaded Gilgit along the Karakoram Highway. Nobody stopped them. They destroyed crops and houses, lynched and burnt people to death in the villages around Gilgit town. The number of dead and injured was in the hundreds. But numbers alone tell nothing of the savagery of the invading hordes and the chilling impact it has left on these peaceful valleys.

https://www.outlookindia.com/website/story/the-aq-khan-proliferation-highway-iii/261824

  1. http://www.satp.org/satporgtp/countries/pakistan/database/sect-killing.htm
  2. کراچی میں رہائش پذیر دیوبندی مفتی نظام الدین شامزئی صاحب نے داعشی طرز کی بغاوت پر اکساتے ہوئے یہ فتویٰ جاری کیا:۔
  • تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں صرف افغانستان کے آس پاس کے مسلمان امارتِ اسلامی افغانستان کا دفاع نہیں کرسکتے ہیں اور یہودیوں اورامریکہ کا اصل ہدف امارتِ اسلامی افغانستان کو ختم کرنا ہے دارالاسلام کی حفاظت اس صورت میں تمام مسلمانوں کا شرعی فرض ہے۔
  • جو مسلمان چاہے اس کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو اور کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے وابستہ ہو وہ اگر اس صلیبی جنگ میں افغانستان کےمسلمانوں یا امارتِ اسلامی افغانستان کی اسلامی حکو مت کے خلاف استعمال ہوگا وہ مسلمان نہیں رہے گا۔
  • الله تعالی کے احکام کے خلاف کوئی بھی مسلمان حکمران اگر حکم دیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اسلامی حکومت ختم کرنے کیلئے استعمال کرنا چاہے ،تو ماتحت لوگوں کیلئے اس طرح کے غیر شرعی احکام مانناجائز نہیں ہے، بلکہ ان احکام کی خلاف ورزی ضروری ہوگی۔
  • اسلامی ممالک کے جتنے حکمران اس صلیبی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں اور اپنی زمین ،وسائل اور معلومات ان کو فراہم کررہے ہیں، وہ مسلمانوں پر حکمرانی کے حق سے محروم ہو چکے ہیں، تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ ان حکمرانوں کو اقتدار سے محروم کر دیں، چاہےاسکے لئے جو بھی طریقہ استعمال کیاجائے۔
  • افغانستان کے مسلمان مجاہدین کے ساتھ جانی ومالی اور ہر قسم کی ممکن مدد مسلمانوں پر فرض ہے، لہذا جو مسلمان وہاں جا کر ان کےشانہ بشانہ لڑ سکتے ہیں وہ وہاں جا کر شرکت کر لیں اور جو مسلمان مالی تعاون کرسکتے ہیں وہ مالی تعاون فرمائیں الله تعالی مصیبت کی اس گھڑی میں مسلمانوں کاحامی و ناصر ہو۔

اس فتویٰ کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرکے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں

فقط و سلام

مفتی نظام الدین شامزئی

اس فتوے کی اشاعت کے بعد پاکستان میں خودکش حملوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو آج تک پوری طرح بند نہیں ہو سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:مکالمہ ایک مکمل غیر جانبدار ادارہ ہے،جہاں ہر لکھاری اپنا نقطہ نظر بیان کرنے میں آزاد ہے،یہاں کسی بھی قسم کے  مسلکی اختلافات کو پروان نہیں چڑھایا جاتا،صاحبِ تحریر کا یہ مضمون  اسی پالیسی کو مدِ نظر رکھ کر    شائع کیا جارہا ہے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply