• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لاہور میں خواتین پر دکاندار کا بہیمانہ تشدد۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

لاہور میں خواتین پر دکاندار کا بہیمانہ تشدد۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

مردوں کے معاشرے میں عورت ہونا کمزوری کی علامت تو سمجھا جا سکتا ہے مگر جاہل ترین سماج میں بھی عوت ہونا عیب نہیں۔ہاں قبل از اسلام لڑکیوں کی پیدائش کو نحوست اور عیب سمجھا جاتا تھا۔ انھیں زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، پھر اسلام کا ظہور ہوا اور انسانیت سوز رسم کا خاتمہ کر دیا گیا۔ عورت کو سماج میں آبرو مندانہ مقام ملا۔یہ بحث موجود ہے کہ کیا واقعی عورت کو اس کا جائز مقام مل پایا یا یہ صرف کتابی باتیں ہیں؟ لیکن بہر حال عور ت ترقی پذیر ممالک میں بھی آج زندگی کی دوڑ میں مردوں کے شانہ بشانہ شامل ہے۔کئی سماجی قباحتیں ایسی ہیں جن پہ طویل گفتگو کی گنجائش ہے، کالم کا موضوع مگر کبھی بھی طویل بحث نہیں رہا۔اخبار کا قاری جلد باز او ر فوری نتیجہ اخذ کرنے والا ہوتا ہے۔
طاقت وروں کے اپنے ضابطے اور طریقہ ہائے کار ہوتے ہیں۔ کوئی ریاست طاقت ور ہو تو وہ کمزور ممالک کو آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔ جیسے کہ امریکہ و یورپی ممالک، ترقی پذیر ممالک کو مختلف حیلوں بہانوں سے اور اکثر دبائو ڈال کر اپنے کام میں لاتے ہیں۔چند احادیث مبارکہ،کچھ آیات اور چار چھ اسلامی واقعات ازبر کر کے ہم سماج میں برابری، عدل، صبر،ہمت ،رواداری، غریب پروری اورانسان کی آبرو مندی کا درس دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن اصل میں ہمارا سماجی کردار جارحانہ ہے۔ہم سماجی ہی نہیں انفرادی سطح پر بھی جارحانہ ردعمل دینے والے لوگ ہیں۔کالم کاری کے لیے کسی مناسب موضوع کی تلاش میں تھا کہ ایک ویڈیو نے غمگین کر دیا اور شرمسار بھی۔مجھے ساحر لدھیانوی کا مصرعہ رہ رہ کے یاد آنے لگا کہ /ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟انسانی نفسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ کم سے کم تر صلاحیتوں اوردماغ کا آدمی بھی دانستہ اپنی آبرو کا سودا نہیں کرتا۔معمولی دماغ کا انسان بھی جانتا ہے کہ چوری سماجی برائی ہے اور اسے ناپسند کیا جاتا ہے۔
جس ملک یا معاشرے میں چوری، ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتیں عام ہو جائیں وہاں لاقانونیت،غربت اور نالائق حکمرانوں کا تسلط ہوتا ہے۔اگر دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، ہر انسان کو دو وقت کی روٹی آبرو مندی سے مل جائے تو کوئی چوری کیوں کرے؟ لاہور میں کپڑے کی دکان میں دو خواتین داخل ہوئیں، ظاہر ہے بھائو تائو کیا ہو گا، کپڑا دیکھا ہو گا،اسی دوران ان پر الزام لگا کہ انھوں نے کپڑوں کے دو جوڑے چرا لیے ہیں۔میں نے وہ ویڈیو دیکھی جس میں لاٹھی سے ایک تنو مند شخص خواتین کو مار رہا ہے۔لاہور دوستوں سے رابطہ کیا تو اطلاع ملی کہ لاہور کے، حلقہ این اے 128،یونین کونسل 182ڈوگرئے کلاں، جلو موڑ کے مین بازار میں کپڑے والی دوکان پر دو عورتوںکو مبینہ طور پر چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑا گیا،پہلے دکاندار اور اس کے سیلز مینوں نے اور بعد ازاں لاہور کبڈی فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے چوہدری اعجاز مناواں اور اسکے ساتھیوں نے مبینہ چور خواتین پر تشدد کیا۔یہ سب ویڈیو میں دیکھا بھی جا سکتا ہے۔دکانداروں نے خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پولیس کے حوالے کرنے کے بجائے چھوڑ دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق واقعے کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد پولیس نے دکانداروں کے خلاف کارروائی کی۔پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ دکانداروں نے قانون ہاتھ میں لیا اور خواتین کو پولیس کے حوالے نہیں کیا جبکہ تشدد میں ملوث دکاندار اپنے گھر اور دکانوں کو تالے لگا کر فرار ہوگئے۔
واقعہ افسوس ناک بھی ہےاوردل سوز بھی۔کسی بھی پاکستانی کو عالمی برادری کے سامنے یہ واقعہ شرمندہ کرنے کو کافی ہے۔فرض کریں خواتین نے ایک ،دو یا تین جوڑے کپڑوں کے چرائے اور دکاندار کو پتا چل گیا، بہتر ہوتا کہ دکاندار معاف کر دیتا اور تنبیہ کرتا، یا پھر اس کا سادہ طریقہ تو یہی تھا کہ مبینہ چور خواتین کو وویمن پولیس کے حوالے کر دیاجاتا۔یہ تو کسی طور بھی گوارا نہیں کہ کوئی چور،قاتل، ڈکیٹ پکڑا جائے اوردکاندار یا عام شہری خود ہی اس کی پٹائی کر کے اسے چھوڑ دیں۔ ہمیں یاد ہے سیالکوٹ میں بھی دو بھائیوں کو بہیمانہ تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔جہاں سماجی انصاف نہ ہو، اور جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہو وہاں ایسے واقعات معمول بن جایا کرتے ہیں۔یہ مگر معاملے کا ایک لیکن دھندلاپہلو ہے۔ اصل چیز ہمارا سماجی رحجان ہے۔ کیا اس نام نہاد سماجی شخصیت اورکبڈی فیڈریشن کے عہدیدار کو نہتی خواتین پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے شرم نہیں آئی؟تین چار مرد لاٹھیوں، الاتوں اور مکوں سے خواتین کو مار رہے ہیں، گالیاں دے رہے ہیں اور وہ بے چاری مدد کو پکار رہی ہیں۔کیا پنجاب حکومت ان دکانداروں اور نام نہاد” پہلوان “کے خلاف فوری کارروائی کرے گی؟یا ہر معاملے کا سو موٹو چیف جسٹس صاحب کو ہی لینا پڑے گا؟میں سمجھتا ہوں کہ ریاست کی مدعیت میں دکانداراور اس کے ساتھیوں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے،کبڈی فیڈریشن کے ظالم عہدیدار کو فی الفور اس کے عہدےسے معطل کر کے آئندہ کسی بھی عوامی و سماجی عہدے کے لیے بین کر دیا جائے۔دو جوڑے کپڑے کتنی قیمت کے ہوں گے؟ چند گھنٹوں میں لاکھوں روپے خواجہ سرائوں کے ڈانس پر پھینکنے والے سماج میں کیا کوئی ایسا ایک شخص بھی نہیں جو مضروب خواتین اور ان کے بچوں کو دو چار جوڑے کپڑوں کے لے کر دے سکے؟ہم سماجی حیات میں وحشی ہیں۔اس سماج میں رحم دل بھی ہیں، ایدھی بھی ہیں، اخوت والے ڈاکٹر امجد بھی ہیں، مگر غالب تعداد عقل سے عاری ظالموں کی ہے۔بحثیت سماجی حیوان ہمیں خود بھی انفرادی ذمہ داریوں اور رویوں کو درست کرنا ہو گا۔اس واقعہ نے پورے ملک کی کاروباری برادری کا سر شرم سے جھکا دیا۔میرا دوست کپڑے کا کاروبار کرتا ہے۔تشہیر نہیں کرتا مگر ضرورت مندوں کی مدد کرتا ہے۔ وہ ان ضرورت مند خواتین کو تن ڈھانپنے کو لباس دینے کے لیے تیار ہے۔اگر لاہور کا کوئی دوست ان خواتین تک رسائی کر کے یقین دلا دے کہ واقعی یہ ضرورت مند ہیں تو ان شا اللہ میرے شہر اور سماج کے نیک دل انسان ان کی ضرور مدد کریں گے۔بحثیت پاکستانی میں اس واقعے پہ بہت شرمندہ ہوں

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply