ہم سادہ لوگ

واقعی۔ ہم سادہ لوگ ہیں۔ قلم کاغذ کی قوت سے ناواقف۔ پڑھنے لکھنے کی طاقت پہ یقین نہ رکھنے والے۔ ہم عام لوگ۔ اپنی عوامی طاقت سے بالکل نابلد اور غلطی سے اگر قلم کاغذ سے سلام دعا ہو بھی جائے۔ لکھنے پڑھنے کا شعور آ بھی جائے۔ تب بھی۔۔ تب بھی لکھنے پڑھنے کو آگ لگا کر سینکنے والے لوگ ہیں ہم۔
ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ہمارے زوال کی ہم جو کام سکون سے ایک کاغذ کے زور پہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے کسی کے گریبان کو جا کر پکڑ لیں گے۔ کسی کو سرعام بازار میں طعنے کسیں گے۔ مگر کرنے والا کام نہیں کریں گے۔ہم کاغذ قلم کے بل بوتے پہ اپنے اداروں کو، اپنے پبلک سیکٹر کو سیدھی طرح اپنا کام کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں مگر ہمیں بس توڑپھوڑ سے محبت ہے۔ ہمیں پہیہ جام سے الفت ہے۔ ہمیں کسی کے روزگار کو نذر آتش کردینے کا شوق ہے۔ ہمیں پڑھی لکھی جہالت کرنے کا شوق ہے۔

آج ہی کی مثال لے لیجئے۔ کیا جو فیصلہ آیا۔ وہ 126 دن کے تماشے کی وجہ سے آیا؟ ریلیوں کی وجہ سے آیا؟ ٹاک شوز کی وجہ سے آیا؟ مباحث کی وجہ سے آیا؟ سیاسی جلسوں کی وجہ سے آیا؟ ۔۔۔۔۔نہیں!یہ آیا تو اس وجہ سے آیا کہ کسی نے ایک کاغذ پہ الفاظ لکھ کو متعلقہ ادارے تک پہنچائے ۔ طریقے سے قانونی راستے پہ ایک درخواست دائر کی اور جانتے ہیں نا کہ پھر کیا ہوا۔ اس ملک کے طاقت ور ترین لوگوں کو کاغذ قلم کی وجہ سے متحرک ہونا پڑا۔ بڑے بڑے ناموں کو،بڑے بڑے اداروں کو، اپنے اپنے گڑھ سے، کلبوں سے، ڈیروں سے، قصروں سے، اٹھ کر آنا پڑا، پسینہ بہانا پڑا، عقل کو تھکانا پڑا، خود کو راتوں کو جگانا پڑا اور پھر وہ ہوا کہ جس کا کسی نے گمان بھی نہیں کیا تھا کچھ عرصہ پہلے تک تاریخ رقم ہو گئی۔ سیاست کو ایک طرف رکھ دیجئے۔ خاص قوتوں کی بالادستی کو بھی ایک طرف رکھ دیجئے۔ اسٹیبلشمنٹ نامی بت کو بھی ایک طرف رکھ دیجئے۔ سیاسی اناؤں کی جنگ کو بھی ایک طرف رکھ دیں۔ کیا کاغذ قلم نے اپنا آپ دکھا نہیں دیا؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا جنہوں نے اس کاغذ قلم کا استعمال کیا۔ وہ آسمان سے اترے تھے؟ کسی الگ سیارے سے آئے تھے؟ نہیں۔۔ ہمارے ہی بیچ کے لوگ ہیں۔ کسی کو اچھے لگتے ہیں کسی کو برے۔۔ وہ بحث الگ۔،بس ایک ہی التجا ہے۔ شعور حاصل کریں۔ علم حاصل کریں۔ قلم کاغذ کی اہمیت سمجھیں اور اس طاقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں۔ دیکھیں پھر ہم خود بھی صحیح ہو جائیں گے۔ باقی دوسروں کو بھی صحیح کر دیں گے۔ جو اندھیری رات آئی ہوئی ہے۔ وہ ہمارے لئے روشن سویرا بھی ساتھ لے آئے گی، بس اگر ہم سادہ لوگ ذرا سے سمجھدار ہو جائیں تو کافی ہے۔

Facebook Comments

بلال آتش
معتدل نظریات اور عدم تشدد کا قائل ہوں اور ایسے ہی احباب کو پسند کرتا ہوں۔ نفرتوں کے پرچار کی بجائے محبتوں کے پھیلاؤ پہ یقین رکھتا ہوں۔ عام سا انسان ہوں اور عوام ہی میں نشست و برخواست رکھتا ہوں اور عوام ہی کی بات کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply