فلسطین (2) ۔ فریقین/وہاراامباکر

کسی بھی تنازعے کو سمجھنے کے لئے پہلا کام اس میں موجود فریقین کو ٹھیک سمجھ لینا ہے۔ جب اسرائیل فلسطین مسئلے کی بات آتی ہے تو یہ اتنا واضح نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ اس پر اتفاق نہیں کہ یہاں فریقین کون ہیں۔ کیا یہ تنازعہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین ہے؟ یا پھر یہ اسرائیل اور عرب کا ہے؟ یا پھر یہ اسرائیل اور مسلم دنیا کا ہے؟
کیا اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں دشمنوں کے درمیان گھری ہوئی ننھی سی ریاست ہے؟ بائیس ممالک اور تیس کروڑ عربوں کے درمیان جس کو اپنی حفاظت کے لئے مدد کی ضرورت ہے؟ اسرائیل اور اس کے حامیوں کا اس بارے میں یہ نکتہ نظر ہے۔
یا پھر کیا یہ ایک بڑی طاقتور اسرائیلی ریاست کا کمزور فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ ہے؟ فلسطین اور اس کے حامیوں کا اس بارے میں یہ نکتہ نظر ہے۔ خاص طور پر حالیہ دہائیوں میں۔
کون ٹھیک ہے؟ کسی حد تک دونوں میں کچھ وزن ہے لیکن یہ دو الگ تنازعات ہیں۔ ان میں کچھ مشترک تو ہے لیکن ان کو کنفیوز کیا جاتا ہے اور عام طور پر جان بوجھ کر۔
اس سیریز کا زیادہ تر موضوع اسرائیل فلسطین تنازعہ ہے جو بڑا اور دیرپا مسئلہ ہے۔ اس کا آغاز تقریباً ایک صدی پہلے کا ہے۔ یہ دو گروہوں کے درمیان نیشلسٹ تحریک کا تنازعہ ہے۔ جب صیہونی اپنی ریاست 1948 میں بنانے میں کامیاب ہوئے تو ایک طرف اسرائیل کی ریاست بن گئی جبکہ دوسری طرف فلسطینی تھے جو بغیر ریاست کے رہ گئے۔ یہ صورتحال ابھی تک برقرار ہے۔ فلسطینی اپنی قومی شناخت، حقِ خود ارادیت، وسائل، زمین کے بارے میں لڑ رہے ہیں۔ تنازعے کا علاقہ 1948 کے فلسطین کے مقابلے میں چھوٹا ہے۔ اس میں مغربی کنارہ، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی ہے۔ یہ علاقے اسرائیل نے 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ میں حاصل کئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا تنازعہ اسرائیل اور عربوں کے درمیان ہے۔ یہ الگ لیکن منسلک ہے۔ یہ ریاستوں کے درمیان ہے اور اسرائیل کے قیام کے فوری بعد شروع ہوا۔ تین دہائیوں تک اس کی وجہ سے فلسطین کا تنازعہ پس منظر میں رہا۔ کئی برسوں تک عرب ریاستوں نے اسرائیل کے وجود کے حق سے انکار کیا۔ ان کا موقف اس کو ختم کر دینے کا تھا۔
اس کی ایک وجہ تو فلسطینیوں سے یکجہتی تھی۔ دوسرا عرب نیشنلزم کی آئیڈلوجی تھی۔ پین عرب ازم (تمام عرب ایک ہیں) ایک وقت میں مقبول رہا تھا۔
عرب ممالک کے اقدامات میں ان کی اپنے مفادات کی ترجیح رہی ہے۔ اور ہر ریاست کی اس بارے میں اپنی پالیسی رہی ہے۔ کچھ کی جارحانہ، کچھ کی مفاہمانہ۔ تمام عرب ریاستوں نے فلسطینی کاز کی سپورٹ کی ہے۔ دہائیوں تک اسرائیل کا بائیکاٹ رکھا ہے۔ کچھ نے جنگ بھی لڑی ہے۔ اس میں اس کے ہمسائے مصر، سیریا اور اردن تھے۔ جبکہ کچھ نے فوجیوں کی ٹوکن سپورٹ دی ہے جس میں لبنان، عراق، الجیریا، مراکش، یمن اور سعودی عرب تھے۔
عرب ریاستوں کی طرف سے فلسطین کی سفارتی اور مالیاتی مدد کی جاتی رہی ہے۔ سب سے زیادہ امداد سعودی عرب کی طرف سے کی جاتی ہے جو سالانہ اربوں ڈالر کی ہے۔ اس کی ایک وجہ سعودی عرب کی عرب اور اسلامی دنیا کی قیادت کی خواہش ہے۔
سعودی عرب کا اسرائیل کے بارے میں رویہ رفتہ رفتہ تبدیل ہوتا گیا ہے۔ ابتدا میں ریاست کے وجود کو مسترد کر دینے سے 2002 میں خود تجویز کردہ امن پلان (Arab peace initiative) تک اس کا موقف خاص تبدیل ہو چکا ہے۔ (اسی پلان کی عرب لیگ اور اسلامی ممالک کی تنظیم نے حمایت کی)۔ اس میں عرب اسرائیل تنازعے کے خاتمے اور اسرائیل سے تعلقات کی مکمل بحالی کے لئے شرائط رکھی گئی تھیں جن میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلا، فلسطینی ریاست کا قیام اور مہاجرین کے مسئلے کا منصفانہ حل شامل تھے۔ اس کے مطابق اگر اسرائیل لبنان، سیریا اور فلسطین سے زمین کا تنازعہ حل کر لیتا ہے تو عرب دنیا سے دوستانہ روابط قائم کیے جا سکیں گے۔ اسرائیل نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا لیکن یہ ابھی بھی میز پر ہے۔
نہ صرف سعودی عرب نے امن کی پیشکش کی بلکہ حالیہ برسوں میں اس سے روابط بڑھائے ہیں (اگرچہ تسلیم نہیں کیا)۔ اس کی وجہ ان دونوں کا ایک اور مشترک دشمن ہے جو ایران ہے۔ یہ دکھاتا ہے کہ موجودہ مشرقِ وسطٰی کی سیاست صرف عرب اسرائیل تنازعے تک محدود نہیں۔ اس کی کئی جہتیں ہیں 1970 کی دہائی کے بعد سے عرب اسرائیل تنازعے کی شدت میں کمی آتی گئی ہے۔
مصر نے اسرائیل سے امن 1979 میں جبکہ اردن نے 1994 میں قائم کر لیا۔ اب صرف لبنان اور سیریا وہ ممالک ہیں جن سے سرکاری طور پر جنگ جاری ہے۔ کچھ ریاستوں نے باقاعدہ تعلقات قائم کر لئے ہیں۔
اگرچہ عرب دنیا میں تعلقات نارمل ہو رہے ہیں لیکن عرب دنیا میں عوامی جذبات فلسطین کی مضبوط حمایت میں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف، ایران اور اسرائیل کے تعلقات خراب ہوتے گئے ہیں۔ کسی وقت میں یہ دونوں ممالک اتحادی تھے لیکن 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد ایران کے سرکاری موقف میں فلسطین کاز مرکزی ستون ہے۔ یہ موقف مقامی آبادی کی حمایت کے لئے بھی مفید ہے اور ایران کو اسلامی دنیا میں اپنا اثر وسیع کرنے کا موقع بھی دیتا ہے۔
ایران حزب اللہ اور حماس کی مدد پیسے اور ہتھیاروں کی صورت میں کرتا رہا ہے۔ ایران سیریا میں بشارالاسد کی حکومت کا بھی سخت حامی رہا ہے۔ سیریا کی خانہ جنگی میں ایران نے بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ بشارالاسد کا دفاع کرنے میں ایران اور روس تھے جن کی مدد کے بغیر یہ حکومت برقرار نہ رہتی۔
اسرائیل کا اس وقت بڑا خطرہ حزب اللہ، حماس اور سیریا کی مثلث ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply