گمشدہ تاریخ کا ایک ورق۔۔۔مبشر مظہر

دنیاِ رنگ و بو میں ہزار ہا گلوں کی مانند ہزار ہا افکار و نظریات ہر سو بکھرے پڑے ہیں۔ گویا نظریات و اضدادِ نظریات ہی اس جہاں کا حسن ہیں اور یہی میراثِ حضرتِ انساں۔
‌اس مضمون کا مقصدِ تحریر بھی ایک مضمون بعنوان ‘ نسلی فاسق’ از کاشف حسین صاحب ہے . از روۓ مضمون پنجاب امن و شانتی و مذہبی ہم آہنگی کا گہوارا رہا ہے اور جبکہ یو پی اور یو پی کے عوام بالخصوص مسلمانوں کا مزاج فلسفہء تفریقِ انسانیت و فرقہ وارانہ تاریخ رکھتا ہے اور غالبا برِصغیر میں اس کے رواج کا سبب بھی یہی حضرات ہیں۔
‌شمالی ہند (بشمول یو پی ) ایک شاندار تاریخ کا حامل علاقہ ہے اور ہمیشہ ہندُستان کی ہنگامہ خیز سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ دار رہا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں یو پی کے عوام و خواص نے جدوجہد اور قربانیوں سے ایک لازوال تاریخ رقم کر رکھی ہے جس کا ذکر ہماری کتب میں چراغ لےکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔لہٰذا شاہ ولی اللّہ جیسی انقلابی ہستی کو فرقہ وارانہ قرار دیا جانا نا قابلِ فہم تو نہیں لیکن قابلِ افسوس ضرور ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے اسلام کے معاشی، معاشرتی، سیاسی و معاشی نظام کی جدید دور کے تقاضوں مطابق تشریح و تجدیدکی۔ عالمی زمانہِ شہنشاہیت میں جب کہ ہندوستان پر مغل حاکم تھے اور انقلابِ فرانس کا ہنوز نام و نشان تک نہ تھا اورکارل مارکس پیدا تک نہ ہوا تھا ایسے وقتوں میں حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ نظریہ دیا کہ بادشاہت انسانیت کے لیے زہرِ قاتل ہے ۔ ایسا نظام جو غریب کو کولہو کا بیل بناتا ہو تا کہ طبقہِ بالا و اشرافیہ کی عیاشیوں کا سامان بہم ملتا رہے باطل و طاغوتی ہے اور ایسے نظام کا توڑے جانا عین واجب۔

امام شاہ ولی اللہ کی معرکتہ الارآ کتاب حجتہ اللہ البالغہ

ایسٹ انڈیا کمپنی کے استبداد اور ظلم و جبر کو پہچان کر اس کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے شاہ عبدالعزیزاور انگریزوں کے حلیف پنجاب کے سکھ حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنے والے سید احمد شہید اور شاہ اسمعیل شہید بھی اسی فلسفہ و فکر کے داعی تھے۔

سید احمد کی جائے شہادت۔ بالاکوٹ

1857ء کی جنگ آزادی میں ہندوستان بھر کے حریت پسندوں نے بلا تفریق مذہب و نسل ایک آخری مگر شاندار کوشش کی کہ مبادا انگریز سامراج کو شکست دے کر دیس نکالا دیا جائے۔
اس جنگ کے اہم رہنماوُں میں انگریزوں نے جن افراد کونامزد کیا ان میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکی اور مولانا قاسم نانوتوی اور حضرت رشید احمد گنگوہی سرِفہرست ہیں۔ انہی حضرات نے مدرسہ دیوبند کی بنیاد رکھی۔

تاریخ ساز مدرسہ دیوبند کا ایک منظر

انگریز سامراج کے سامنے سرِ تسلیم خم نہ کرنے اور غلامی کا طوق اتار پھینکنے کی کوشش کے جرم میں ہزاروں علماء اور مجاہدینِ آزادی کو توپوں کے آگے باندھ کر اڑا دیا گیا مگر جذبہِ حریت کی آگ سرد ہونی تھی نہ ہوئی۔

1857ءکےمجاہدینِِ آزادی کو توپ سےباندھ کر اڑایا گیا جس میں بیشتر تعداد علماء کی ہے۔

دیوبند کے اولین طالب علم حضرت محمود الحسن ہیں جنہوں نے شیخ الہند کے نام سے شہرت پائی۔ شیخ الہند نے تحریک آزادی ہند کیلیے انتہائی خفیہ منصوبہ بنایا جس کے مطابق ایک پہلے سے طے شدہ تاریخ کو ترکی کی عثمانی افواج نے افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ آور ہونا تھا جبکہ اسی اثناء میں ہند کے اندر بغاوت برپا کی جانا تھی جس کی پیشگی منصوبہ بندی اور تیاری کی جا چکی تھی۔ پنجاب کے ایک مسلمان جاگیر دار کی مخبری سے انگریزوں کو اس کی پیشگی اطلاع ہو گئی اور یوں یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اس تحریک میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی شانہ بہ شانہ شامل رہے۔ اس تحریک کو تحریک ریشمی رومال کا نام دیا گیا۔

تحریکِ ریشمی رومال از مولانا محمد میاں (انگریزی ترجمہ)

اس تحریک نے تاج برطانیہ کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ شیخ الہند اور مولانا حسین احمد مدنی کو اس ‘سنگین جرم’ کی پاداش میں کالے پانی(مالٹا) بھیج دیا گیا جہاں سے رہائی تب ممکن ہوئی جب شیخ الہند کی زندگی کا چراغ گل ہونے کو آ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors
کالے پانی جیل کا منظر جسے cellular jail of Andaman & Nicobar بھی کہا جاتا ہے

ایک طرف یہ ولولہ انگیز تحریکات ہیں وطن سے محبت کی لازوال و خونچکاں داستانیں ہیں اور ظالم و جا بر انگریز سامراج کے مقابل کلمہِ حق ہے اور سامراجی استںبداد کا انکار ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے جاگیردار مسلمانوں کے کارنامے ہیں جنہوں نے انگریزوں کی محبت میں وفاداری کی وہ مثالیں قائم کیں کی اپنے ہی ہم وطنوں پر مسلط غلامی کو ہر دم دوام بخشا۔ تحریک آزادی کی ہر کوشش کو ناکام بنانے میں انگریز سامراج کا ساتھ دیا چاہے1857ء ہو یا تحریک ریشمی رومال۔ پنجاب کے محنت کش طبقے کو پسماندہ اور سیاسی شعور سے حتیٰ المقدور دور رکھا۔ نتیجتاً انسانی تاریخ کے سب سے بڑے فرقہ وارانہ فسادات نے پنجاب کو تاراج کر کے رکھ ڈالا جبکہ بٹوارے کے ہنگامہ خیز ماحول میں بھی یو پی میں ایسے فسادات کا نہ ہونا اہلِ عقل کے لیے بہت سے سبق اور بہت سے سوالات چھوڑ جاتا ہے۔
انگریز کی تقسیم کرو اور حکومت کروپالیسی کو مسلمان حریت پسند کے سر تھونپنا سراسر تاریخی بد دیانتی ہے۔ جس دن ہماری تاریخی کتب نے1947ء سے پیچھے جھانکنا شروع کیا تب شایدہم پر یہ راز آشکارا ہو کہ ہندوستان پر 1000 سال حکومت کرنے والی قوم ایک شاندار ماضی کے حامل ہے اور اپنی درخشاں تاریخ اور متاعِ گم گشتہ سے جڑ کر ہی ہم دیگر اقوامِ عالم کی طرح ایک عظیم قوم کی طرح ابھر سکیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply