آج کل وطن عزیز میں پانامہ لیکس کےحوالے سے خوب ہنگامہ برپا ہے اور حکومت کے حامی اور مدگار اس کو ایک بین الاقومی سازش قراردیتے ہیں اور اس کو سی پیک کی مخالفت قرار دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن لیڈر اس کو حکمرانوں کی رنگے ہاتھوں پکڑی گئی کرپشن قرار دے رہے ہیں ۔ان تمام حالات کے بیچ اصل قضیہ کیا ہے آئیے کچھ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔آیا حکمران پارٹی جس بات کو اپنا ایک بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں اور موجودہ صورتحال کو اس کارنامے کو ناکام بنانے کی دہائی دے رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور کیا یہ جو سی پیک کا شور مچایا جا رہا ہے واقعی ہی موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے یا کسی اور کی محنت اور عرق ریزی پر اپنی دانش اور قبضہ گیری کی کوشش ۔ہر قوم کو کچھ مواقع میسر آتے ہیں اور ان مواقع سے درست فائدے اٹھانے والے اقوام دنیا میں ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جاتے ہیں مگر جو لیڈر قومی مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں تو بےشک وہ اپنے لیے کچھ وقتی فوائد حاصل تو کر لیتے ہیں مگر ان کی قوم اپنے لیڈران کی پالیسیوں کا بار اپنی اور اپنی نسلوں کی تباہی کی شکل میں ادا کرتی ہے ۔
بعینہ یہی رویہ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے موجودہ حکمرانوں کا ہے اب جو پیکج گزشتہ دوسابقہ حکومتوں نے بڑی ہی عرق ریزی سے اور خاص طور پر زرداری صاحب کے مسلسل دوروں سے چائنہ سے منظور کروایا تھا جس کا بڑا حصہ تقریباً بتیس ارب ڈالرز جو کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر پر خرچ ہونا تھے جس میں کہ دیامر بھاشا ڈیم، بونجی ڈیم، اور داسو ہائیڈرو پراجیکٹ شامل تھے کی بجائے محض اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کیلئے وہ خطیر رقوم نا صرف گیس اور کوئلے سے چلنے والے پلانٹس پر خرچ کر دی گئی بلکہ اس میں ایسے مسائل پیدا کر دیئے گئے ہیں جو کہ ہماری مشکلات کم کرنے کی بجائے بڑھا دیں گے کیونکہ جس استعداد کار کے کوئلے کے پلانٹس ہم لگا رہے ہیں ہماری ریلوے ان پلانٹس کو درکار کوئلے کی سپلائی لائن فراہم کرنے کی اسطاعت سے محروم ہے اور اس کا لازمی نتیجہ ریلوے پر بے تحاشہ دباؤ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا جس کے لیے ریلوے میں مزید انویسٹمنٹ کی ضرورت ہو گئی جو کہ سوائے قرضے کے اور کہیں سے میسر نظر نہیں آتی، نتیجہ ہر ذی شعور کو معلوم ہے اگر نہی پتہ تو ہمارے حکمرانوں کو
مگر خاطر جمع رکھیے ہمارے حکمرانوں کو اس چیز کا خوب ادرک ہے کیونکہ اس سے ہی ان کی پیٹ پوجا کے لیے امکانات نکلیں گے بلکہ نکالے جائیں گے جس سابقہ مثال ماضی کے پرائیویٹ سیکٹر میں قائم بجلی گھر ہیں ۔ساری دنیا میں توانائی کا سب سے سستا ذریعہ پن بجلی ہے مگر ہمارے حکمرانوں کے لئے اس میں کوئی کشش نہیں کیونکہ اس میں کمیشن خوری کے مواقع موجود نہیں جبکہ تھرمل بجلی گھر میں یہ مواقع بے تحاشا موجود ہیں ۔اورہماری رہنمائی کے دعویدار یہ کہتے ہیں کہ جی یہ سب ہماری ٹانگ کھینچ رہے ہیں تاکہ ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹایا جائے، جبکہ حکمران جماعت نے خود ڈیموں کی تعمیر کو پس پشت ڈال کر کے ملک کو سراسر خسارے کی راہ پر ڈال دیا ہے اور جو انرجی اور فوائد ڈیموں کی تعمیر سے حاصل ہونے تھے ان سے محروم کر دیا ہے اور پھر بھی دعوی رہنمائی کا چہ معنی دارد۔ نیز شور ہے جی یہ سب ہماری حکومت کو ناکام بنانے کا بہانہ ہے جناب والا آپ کی پالیسیاں ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیں گی اور جو ایک ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہے وہ بھی اس سوچ کی وجہ سے دور ہو جائے گا ۔لہذا خود سے ہٹ کر کچھ قوم بارے بھی سوچ لیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں