اور اب تو ہر گز ایسا نہیں چلے گا ۔۔!!!

میرے استاذِ گرامی نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ ہمارا معاشرہ کس قدر تعصبانہ روش کا شکار ہے، ہمارے بڑے جو کہہ گئے یا جو کر گئے بغیر کچھ سوچے سمجھے اسی راستے پہ نکل پڑنا درست نہیں بلکہ جو ان کے صحیح کام ہیں ان کی پیروی اور جو صحیح نہیں انہیں درست کرنا چاہیے ۔پرانے وقتوں سے چلی آئی ریت رواجوں کو ہی برقرار رکھنا کوئی درست عمل نہیں۔اس پر میرے ایک دوست نے لکھا کہ میں ہر گز آپ کی بات سے متفق نہیں، کیونکہ جیسا آپ کہہ رہے ہیں وہ تو والدین کو ان کی اولادوں سے متنفر کرنے کے مترادف ہے۔یعنی ان کا موقف یہ تھا کہ ہمارے بڑے یا والدین جو کہیں یا جو عمل کریں وہی عمل اور ہر ان کی ہر کہی گئی بات ہر پہلو سے درست ہو گی اور تعصبانہ روش سے ہمارا معاشرہ صاف پاک ہے ۔۔۔۔۔تو سوچا کہ اس پر میں بھی اپنے خیالات کا کچھ اظہار کر لوں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذات پرستی اپنے عروج پر ہے اور ہمارا معاشرہ تعصبی رنگ میں مکمل طور پر رنگ چکا ہے ۔یہ کوئی فلاسفی نہیں ہے جو کسی کو سمجھ نہ آئے یا انسانی نظروں سے اوجھل کوئی چیز نہیں جو کسی کو نظر نہ آئے، اگر بندہ اپنے اندر جھانک کے دیکھے تو اسے معلوم پڑے گا کہ وہ اس مرض سے کتنا پاک ہے اور باہر یہ مرض کتنا پھیل چکا ہے ۔ ہزاروں ایسی باتیں ہیں جو اسی تعصب کا شکار ہیں ۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی صرف اپنے قبیلے میں جائز ہے۔قبیلے سے باہر شادی ایسا کسی کے تصور میں بھی آئے تو اسے معاشرے کے بڑے وڈیرے برادری سے خارج کر دیتے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے سب رشتے ناتے،اس کے ماں باپ،بھائی بہن، عزیز واقارب سبھی رشتوں سے اسے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور پھر اس زمین پر دوبارہ قدم رکھنے کا بھی اسے حق حاصل نہیں ہوتا۔ میرے جاننے والے ہیں ایسے جنہوں نے ایسی جسارت کی تھی اور پھر ان کو ان سب چیزوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔اسی معاملے کی قرآن سے راہنمائی لی جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے۔۔

“سب لوگ آدم سے معرض وجود میں آئے اور آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا۔اے لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے گروہ اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ تم میں سے اللہ کے ہاں زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔بے شک اللہ جاننے اور خبر رکھنے والا ہے”۔
قبیلے صرف اس لیے رب تعالیٰ نے بنائے تاکہ تمہاری پہچان ہو سکے۔
اب نبی کریمؐ کی زندگی کی روشنی میں اس معاملے کے بارے میں راہنمائی لیتے ہیں۔ نبی کریم ؐ نے اپنی شادیاں عرب کے دوسرے قبیلوں میں کی تھیں تاکہ ان کی امت کل کو قبیلہ پرستی سے باز رہے۔ اب خود ہی سوچیے کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟۔۔۔دوسری بات ،والدین کے اولاد پر کچھ حقوق ہیں اور ایسے ہی کچھ اولاد کے والدین پر حقوق ہیں ،اولاد کا یہ حق ہے کہ والدین ان کی بہتر پرورش اور تعلیم و تر بیت کرے ۔والدین کا یہ حق ہے کہ اولاد بڑھاپے میں ان کی خدمت گزاری کرے ۔میں یہ بھی والدین کا حق سمجھتا ہوں کہ اگر والدین ان پڑھ ہوں اور اولاد پڑھی لکھی ہو تو والدین کا یہ حق ہے کہ وہ پڑھی لکھی اولاد انہیں صحیح و غلط بتائے ، یعنی یہ جو ہم زندگی گزار رہے ہیں کیا یہ اسلام کے طور طریقوں کے مطابق ہے ؟کیا پرانے وقتوں سے چلے آئے ریت رواجوں کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ نے کون کون سے راستے بتائے ہیں جن پر چل کر ہم اسے راضی کر سکتے ہیں؟ کون کون سے ایسے طریقے ہیں جن پر چلنا اس رب کی ناراضگی کے سوا کچھ نہیں ۔ دونوں پر یہ لازم ہے کہ وہ ہر صورت میں ان حقوق کی ادائیگی کریں اگروہ ایسا کرنے سے گریز کریں تو رب کے ہاں انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا ۔ والدین کی پیروی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے پر خیال اس بات کا رہے کہ یہ پیروی ان کے کیے گئے یا بتائے گئے صحیح طریقوں کی ہونی چاہیے اور اگر کہیں پہ وہ غلطی کر رہے ہیں تو اس غلطی کو سدھارنا چاہیے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ انسان غلطی سے مکمل پاک ہو، یہ صفت صرف نبیوں میں پائی جاتی ہے۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply