آدھے پاکستانی پاگل ہیں۔۔۔۔۔سخاوت حسین

جب ہم چھوٹے تھے تب ہمارے استاد محترم بچوں کو جمع کرکے اکثر ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک امریکی دانشور سے کسی پروگرام میں امریکی عوام کے بارے میں رائے لی گئی تو اس نے دھڑلے سے کہا کہ آدھے امریکی پاگل ہیں۔ اس پر امریکہ میں خوب شور ہوا۔ ہنگامے ہوئے۔ میڈیا نے واقعے کو خوب اچھالا۔ کچھ دن بعد انہی صاحب نے اپنا بیان واپس لیا اور کہا ، “آدھے امریکی پاگل نہیں ہیں۔” راوی لکھتا ہے اس کے بعد ہر طرف چین ہی چین نظر آیا ۔ احتجاج ختم کردیا گیا۔

ایک عرصے سے سوشل میڈیا پر یہ بات نوٹ کر رہا تھا کہ ہم بھی آہستہ آہستہ پاگلوں والی خصوصیات حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ چیختے ہم ہیں، چلاتے ہم ہیں۔ برداشت ہم میں نہیں۔ فضول ہنسنا اور رونا جاری رہتا ہے۔ ایک دوسرے کو سہہ نہیں سکتے۔ کسی بھی چوک میں کسی کو بھی پتھر مار سکتے ہیں۔ پاگلوں کی طرح سڑکوں پر تھوک سکتے ہیں۔ پان کی  پیک سے سڑکوں کو لال کر سکتے ہیں۔ فضول جگت پر ہنس سکتے ہیں اور بلاوجہ کسی بھی سین پر رونے کو تیار ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔

پاگل اور کہا کسے جاتا ہے۔ وہ جو عام لوگوں سے ہٹ کر حرکتیں کرے۔ ہم عام دنیا سے ہٹ کر حرکتیں کرتے ہیں۔ کسی پاگل کی طرح چوک میں کسی کو بھی کسی بات پر تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اگر طاقتور ہیں اور ساتھ سٹار لگا ہوا ہے تو گالیاں نکالنا بھی ہمارا اولین حق ہے ۔ کہیں بھی گاڑی پارک کر سکتے ہیں۔ خواہ وہ جگہ نو پارکنگ ہی کیوں نہ ہو۔ کسی بھی پان کے ڈھابے پر بائیک یا گاڑی یا رکشہ روک کر پچھلی گاڑیوں کا رستہ بند کرسکتے ہیں اور آرام اور طمطراق سے پان منہ میں ڈال کر عجیب سی بولی میں الٹا صلواتیں سنا کر دوبارہ گاڑی میں چڑھ کر عازم سفر ہو سکتے ہیں۔ خواہ عوامی شاہراہ ہو۔ کوئی پارک ہو یا کیسی بھی پبلک جگہ کیوں نہ ہو تھوکنا ہماری پہچان ہے۔ جس جگہ پیشاب کرنا منع لکھا ہے ہم اسی جگہ پر سب سے زیادہ اور کثیر تعداد میں اس جگہ کو گندہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ کوڑا دان دو فٹ ہی بھلے دور کیوں نہ ہو مگر ہم کوڑا ساتھ والے بشیر صاحب کے گھر کے آگے ہی پھینکیں گے۔ ہسپتال کے آگے جہاں خصوصی لکھا ہوگا کہ ہارن بجانا منع ہے ہم وہیں ہارن بجاتے ہیں۔ جہاں وارڈن کھڑا ہو اور ہمیں بغور دیکھ رہا ہو صرف اسی اشارے پر رکتے ہیں۔ سڑک پر چلتے بلاوجہ قہقہ لگانے لگتے ہیں بعد میں کوئی دیکھے تو ہینڈ فری دکھا دیتے ہیں۔ جس جگہ منع کا بوڑ د لگا ہوگا ہم اسی جگہ وہی کام سب سے زیادہ کریں گے۔

اب آئیے اصل بات کی طرف، ہم کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر ہیں۔ اکثر لوگ کہیں گے یہ کوئی  ٹھوس وجوہات نہیں ،جن  کی وجہ سے کسی کو پاگل قراردیا جائے۔ میرا آدھے پاکستانیوں کو پاگل قرار دینے کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ اگرچہ کافی عرصے سے فیک آئی ڈیز سے ہم نے پوری دنیا کو پریشان کیا ہوا ہے ۔ پرنس ہمارے ہاں منٹوں میں پرنسز بن جاتا ہے۔ ہی ،  شی بن جاتا  ہے۔ ستر سال کا بوڑھا بھی فیس بک پر “فیلنگ الون” کا سٹیسٹس لگائے پھرتا ہے اور تین شادیاں کرنے والا بھی محبت نہ ملنے کے غم میں دبلا ہوا پھرتا ہے۔ مگر جب سے سیاست نے سوشل میڈیا میں مداخلت کی ہے۔ ہمارا تو آوے کا آوا بگڑ گیا ہے۔ اپنی پسندیدہ پارٹی اور رہنما کی حمایت میں ہم ہر حد پھلانگ جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا اس وقت پاکستانیوں میں کم سیاسی گروپ میں زیادہ منقسم ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی مخالف پارٹی کے خلاف وہ پوسٹیں لگاتے ہیں جن سے ان کے نارمل رہنے میں سو فی صد شک ہو جاتا ہے۔ لیڈ ر کا دفاع اتنی شدت سے کیا جاتا ہے کہ دفاعی طیارے بھی شرما جائیں۔

سب سے افسوسناک امر اس جنگ میں ماؤں  بہنوں کو ہر لمحہ گھسیٹنا ہے۔ کسی بھی سیاستدان کی ماں بہن اب محفوظ نہیں ہے۔ مخالف سپورٹر کو مخالف امیدوار کے گھر کی کوئی تصویر ملے تو گالیوں کے کیپشن کے ساتھ اس تصویر کو وائرل کیا جاتا ہے۔ مخالف امیدوار کی ماؤں بہنوں کے خلاف وہ ہزرہ سرائی کی جاتی ہے کہ لفظ گالی بھی شرما جائے اور بلاشبہ یہی امر ہر سیاسی سپورٹر کی طرف سے بلاامتیاز وتفریق پورا سال جاری رہتا ہے۔ توہین لیڈر اس وقت کائنات کا سب سے بڑا جرم بن چکا ہے ۔ کوئی لیڈر جتنا مرضی غلط کام کرے اس کی برائی کی نشاندھی کی جائے گی تو نشاندھی کرنے والوں کو ماں بہن کی گالیاں سننی پڑیں گی۔ اسی طرح کسی لیڈر کے اچھے کام کو سراہا جائے گا تو یہی امر مخالف سپورٹران کی طرف سے اس شخص کو سننا ہوگا۔ اب خود فیصلہ کیجئے کیا نارمل لوگ ایسا کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے بعد مذہبی منافرت، علاقائی تعصب اور کفر کفر کی جنگ سوشل میڈیا پر عام ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی کو لمحوں میں کافر بنا دیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا رنگ اپنا کر فرقہ پرست بھی اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ فرقوں کے درمیان  بھی اب ویسی ہی جنگ بپا ہے جیسی سیاسی پارٹیوں میں اور وہاں بھی وہی زبان استعمال ہورہی ہے جو سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں۔ مگر افسوس یہاں کافر کا ہتھیار بھی بطور مددگار کے استعمال ہوتا ہے۔ نفرت، تشدد، کافر کافر، الگ الگ مسجدیں، الگ الگ نظرئے، جو اس نظرئے سے زرا اختلاف کرے وہ کافر۔۔۔۔یہ ہے آج کا پاکستانی ۔۔۔کیا آپ  اسے سو فی صد نارمل کہہ سکتے ہیں ؟
کیا یہی وہ اتحاد و اتفاق ہے۔ کیا یہی وہ اللہ کی رسی ہے جسے تھامنے کا حکم دیا گیا ۔ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں تھا، کہ تم دو چیزوں   کی گارنٹی دو، میں جنت کی گارنٹی دوں گا ۔ جس میں سے ایک زبان تھی۔
کیا آقا نے نہیں فرمایا تھا۔۔”تمام امت ایک جسم کی طرح ہیں۔ ”
کیا یہ نہیں کہا تھا۔۔تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
کیا آج کل ایسا ہی ہورہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہورہا ، نفرتیں عام ہیں۔،کفر کفر کا کھیل عام ہے، سیاسی رہنما پر تنقید سے بڑا جرم کوئی نہیں۔اس کے بعد ہر غلط کام ہم فخر سے بھی کر رہے ہیں اور اخلاقی لحاظ سے شدید دیوالیے پن کا بھی شکار ہیں لہذا جب تک آپ ان عادات و خصائل کو ترک نہیں کردیتے معذرت کے ساتھ کوئی بھی یہی کہے گا کہ
آدھے پاکستانی پاگل ہیں۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو میرا جواب ہوگا۔۔۔۔
ہاں آدھے پاکستانی سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply