انور سین رائے کا ناول” چیخ” – ایک جائزہ۔۔۔تسمیہ عزیز

انور سن رائے اردو زبان کے مایہ ناز ناول نگار، شاعر،افسانہ نگار اور مترجم ہیں، وہ 13 نومبر 1953 میں خیرپور ٹامیے والی میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنا پہلا ناول ” چیخ“ 1980 میں تخلیق کیا اور پری سنسرشپ کے پابندیوں کی وجہ سے یہ ناول 1987 میں شائع ہوا، جبکہ انور   سن رائے  کا دوسرا ناول ” ذلتوں کے  اسیر“1997 میں شائع ہوا۔ انورسن رائے نے اپنے ناول ” چیخ“ میں اذیت خانے میں ہونے والی تشدد کو بیان کیا ہے، کہ کس طرح ایک بےگناہ انسان کو ایک ایسی جرم کو قبول کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جاتا ہے،جو کہ اس سے سرزد نہیں ہوا تھا۔ اس ناول میں ایک فرضی شخص کی کہانی بتائی گئی ہے، جس کا نام غلام ولد غلاموں ہے۔ اس کے والد برطانوی فوج میں تھے۔ غلام خیرپورٹامے سے کراچی آتا ہے اور اپنی اصل شناخت کو چھپا دیتا ہے تاکہ اسے کوئی بھی پہچان نہ سکے۔ وہ اپنا نام بدل کر ایک اخبار میں کام کرتا ہے مگر ایک دن اس کے گھر میں کچھ لوگ گھس کر اسے لے کر جاتے ہیں جس کے بعد اسے عقوبت خانے میں ایک تکلیف دہ تشدد کے عمل سے گزرناپڑتا ہے۔ جہاں اسکی چیخ و پکار بھی اس کے سوا کوئی اور سن نہیں سکتا ہے،کیونکہ سب مردہ ضمیر اور سخت دل انسان ہوتے ہیں وہ صرف اذیتیں دینا جانتے ہیں۔ وہاں صرف دو لوگ چیخ کو سن سکتے ہے ایک وہ خود اور دوسرا وہ جو اس کی طرح تشدد کے ان مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں، مگر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں کہ انکی   چیخ خود کو بھی سنائی نہیں دیتی ۔ وہ صرف جسم کے اندر رہ جاتی ہے۔ اذیت خانے میں انسان تشدد میں صرف ایک چیز چاہتا ہے اور وہ ہے موت۔وہ اس تشدد سے تھک کر موت کو اپنانا چاہتا ہے۔
انھیں اندھیرے  اور تنگ و تاریک کمروں میں رکھا جاتا ہے، کھانے کے بدلے مار پیٹ دی جاتی ہے ہر وقت اسے کہا جاتا ہے آپ کا ایک اور دوست ہے اس نے جرم کا اعتراف کرلیا ہے اور دیگر ساتھیوں کے نام بتائے ہیں تم بھی بتادو۔۔

مصف ناول میں مزید لکھتا ہے کہ کیسے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا ہے۔ پہلے کچھ سوالات نرمی سے پوچھے جاتے ہیں اور اسے ایک ایسے جرم کا اعتراف کرنے کیلئے کہا جاتا ہے جو اس نے نہیں کیا تھا۔ سوال کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ کس کے لیے کام کرتے ہیں ؟ تمہارے دوست کون ہیں؟ تمہیں کس سے رابطے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انڈر گراؤنڈ اخبار کون چلاتا ہے اور تمہارے ساتھ اور کون لوگ ہیں؟ غلام کو ان سب کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا، کیونکہ وہ صرف ایک مصنف ہے جو خیرپورٹامے سے کراچی آیا تھا ۔اپنی زبان سرائیکی سے بھی وہ بخوبی واقف نہیں تھا۔ وہ صرف کمیونسٹ کتابوں کو پڑھتا تھا اور کلاس سسٹم کے خلاف تھا جو پنجاب میں سرائیکیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور ملک میں دیگر قوموں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ غلام نے کراچی آکر اپنا نام بھی تبدیل کر لیا۔ جب مسلسل ان سوالوں کو پوچھنے پر غلام کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تو پھر تشدد کا راستہ اپنایا جاتا ۔ پہلے لاتوں اور مکوں سے مارا جاتا ،پھر وقت دیا جاتا کہ وہ ان سوالات کا جواب دے اور اپنے ساتھ شامل دوستوں کے نام بتائے ، مگر غلام صرف ایک لکھاری ہوتا ہے۔ وہ فوجی حکومت، مارشل لاء اور ڈکٹیٹر شپ نظام کے خلاف ہوتا ہے۔ غلام کو پہلے دھمکیاں دے کر ڈرایا جاتا ہے مگر پھر بھی اس کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہوتے تو وہ تشدد کا طریقہ اپناتے ہیں۔ غلام کو ڈرانے کے لیے اچانک ایک آدمی کمرے میں داخل ہو کر اس پر کرسی اچھال کر پھینک دیتا ہے جس سے وہ زخمی ہونے سے بچ جاتا ہے جسے وہاں موجود افراد پاگل کہہ رہے ہوتے ہیں مگر افسر کو دیکھ کو وہ پاگل شخص صحیح کھڑا ہوجاتا ہے مطلب وہ صرف ڈرانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈنڈے برسائے جاتے ہیں ۔ الٹا لٹکا کر مارا جاتا ہے جس سے جسم میں درد شدت اختیار کر لیتا ہے۔ تشدد کرنے کے ایک طریقے کو ” اخروٹ” کہتے ہیں جس میں رسی اور ڈنڈے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ غلام کو میز پر لٹا کر اس کے تلوؤں کے ساتھ ایک چیز ٹکراتے ہے جس سے درد بڑھ جاتا ہے۔۔ اذیت خانہ میں جب ملزم کچھ نہ بتائے تو اس کے گھر کی  عورتوں کو استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ مجبور ہوکر سب کچھ بتا دے۔ جس میں ملزم غلام عدالت میں ایک کیس بیان کرتا ہے کہ ایک عورت کے بیٹے کو اسپیشل والے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایک ایسی چوری کا اعتراف کرنے کو کہتے ہیں جو اس نے نہیں کی ہے۔ لڑکے کو جسمانی اور ذہنی تشدد کرنے کے لیے اس کی  ماں اور بیوی کو بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ نئے طریقے کے تحت دونوں عورتوں کو اس مرد کے سامنے برہنہ کرتے  ہیں، جس میں وہ ایک کا بیٹا اور ایک کا شوہر ہوتا ہے۔ جب انہیں گھر پہنچا دیا جاتا ہے تو وہ اخلاقی اذیت کو برداشت نہ  کرسکنے کی وجہ سے کھانے میں زہر ڈال دیتے ہیں اور سب موت کی  آغوش میں چلے جاتے ہیں مگر صرف ایک چھوٹا بچہ بچ جاتا ہے جو گھر میں آتے ہی سو جاتا ہے۔
غلام کو ہر مختلف طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر بالآخر اسے اس سرسری عدالت تک پہنچا دیتے ہیں جہاں سے اسے جیل بھیجا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ناول میں انورسن رائے نے اذیت خانے میں گزرنے والے درد ، تکلیف اور مرحلوں کو بیان کیا ہے کہ جب ہم سچائی اور حق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اذیت خانوں میں ان تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply