دل سے دل تک!پاکستان ۔۔۔۔۔ رابعہ احسن

کچھ لمحے، کچھ باتیں صرف محسوس کی جاسکتی ہیں ان کا رنگ دل کی آنکھ سے جاملتا ہے اور ہر بات آیت کی طرح اترتی چلی جاتی ہے۔ آجکل پاکستان کے سب عوام کا یہی حال ہے کہ ایک روشنی کی کرن ان کے دلوں کو روشن کررہی ہے اور میرا آج کا کالم جس رومینٹک انداز میں شروع ہوا ہے پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ہمیشہ کی طرح میں کوئی سیاسی بیان نہیں دوں گی اور کچھ مبصرین کی نظر میں آجکل پاکستانی ہنی مون پیریڈ میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ حسین پیریڈ 2015 میں کینیڈین وزیراعظم پر بھی آیا تھا اور ساری دنیا مبہوت تھی اب بھی یہی عالم ہے کہ ساری دنیا مبہوت کہ پاکستان جیسے کرپشن، غنڈہ گردی اور بے ایمانی کی سیاست سے مرتے ہوئے ملک میں ایک انتہائی ایماندار، محنتی اور عملی طور پر ایک باصلاحیت کرکٹر، انسانیت سے محبت رکھنے والا پرجوش اور پرہوش وزیراعظم اقتدار میں کیسے آگیا۔ اکہتر سال سے ملک کرپشن اور قرضوں کے گڑھے میں ڈوبتا رہا ہے ۔اقتدار میں آنے والی ہر پارٹی بگڑتے ہوئے حالات کو مزید ابتری کی طرف لے کے جانے کا باعث بنی اور ہر آنے والے نے نہ صرف خود ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ ان کی نسلیں بھی اس لوٹ مار میں شریک ہوتی گئیں اور پاکستان کے بچے فاقوں میں پلتے رہے قانون کا دیوالیہ نکلتا رہا۔ ہر محکمہ محض نوکر شاہی کے فرائض اور رشوت خوری اور کرپشن کے جھنڈے تلے چلتا رہا اور ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کی اصل روح کی بجائے مسجدوں، مدرسوں کے اندر منافقت اور لاقانونیت کے درس پڑھائے جاتے رہے اکہتر سال میں ایک تگڑا جوان بھی بڑھاپے کی کمزوری سے ٹوٹ جاتا ہے اگر نشوونما اچھی نہ ہو اور پاکستان جس کو کبھی نشوونما ملی ہی نہیں تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے کہیں افغانستان کی چالبازیوں کاشکار تو کہیں بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کو للکارتا ہوا۔ کہیں امریکہ کی تعصبانہ پالیسیاں سہتا ہوا تو کہیں اندرونی غداروں کی بھینٹ چڑھتا ہوا۔ لسانی، عاقائی تعصبات کی نذر ہوتا ہوا تو کہیں صوبائی تعصبات ک نذر۔ مگر ہمارے سیاستدانوں نے کبھی ان مسائل کے حل کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی تو نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہوتا گیا غربت، بیروزگاری، جہالت، صحت عامہ کے فقدان کے مسائل نے جو اس دھرتی کو لپیٹنا شروع کیا تو یہ اونٹ پھر کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا۔
وزیراعظم نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں شیروانی پرانی پہن لی جس پہ پہلے لاکھوں خرچ ہوتے تھے سوچنے والی بات ہے اگر دماغ خالی ہے تو لاکھوں کی شیروانی بھی اس خالی الذہنی کو چھپا نہیں سکتی اور اگر دل اور ذہن میں انسانیت کا پودا نشونما پاتا رہے تو وہی سحر طاری ہوتا ہے جو عمران خان کی پہلی تقریر سے اس وقت ہر پاکستانی پر طاری ہے۔ وہ تقریر تو تھی بھی نہیں بلکہ وہ سب کے بیچ میں بیٹھا فرداً فرداً ہر پاکستانی سے بات کرتا رہا۔وہ بولتا جارہا تھا اور دل ہر بات پہ آمین کہتا جارہا تھا۔
آج تک مولویوں نے جتنا اسلام ہم پہ ٹھونسنے کی کوشش کی اتنا ہم نتیججتاً اسلام سے دور ہوتے گئے مگر عمران خان نے جس طرح کل قرآن پاک، احادیث، صحابہ کے اقوال کا جابجا تذکرہ کر کے مثالیں دیں ایک بار پھر سے تجدید ہوئی کہ اسلام بھائی چارے اور رواداری کا دین ہے ۔ حضرت عمر نے کہا کہ دریائے دجلہ کے کنارے اگر کتا بھی بھوکا سوئے گا تو وہ ان کی ذمے داری ہوگی تو مجھے اپنی گلیوں میں بھٹکتے ہوئے آوارہ کتے یاد آگئے جن کی حفاظت اور جن سے انسانوں کی حفاظت کا کوئی ذمہ دار نہیں بلکہ ان کو تو جعلی آئل فیکٹریوں والے اٹھا کے لے جاتے ہیں اور پھر بے دردی سے قتل کر کے ان کی چربی کا تیل انسانوں کو بیچ دیتے ہیں دوہرا قتل اور پھر انسانیت اور ایمان کا قتل۔ مگر پوچھنے والا کوئی نہیں۔
بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما پہ جو اتنا معلوماتی گراف اس نے پیش کیا شاید ہی دنیا میں کسی اہل اقتدار نے پیش کیا ہو۔ بیواؤں کے کیسز، چھوٹے کاروبار کو فروغ دینے کی طرف اقدام، پانچ لاکھ گھر بنانے کا پلان اور اس پر عملداری کیلئے فوری کام کی شروواد۔ ہم نے تو صرف سڑکیں اور بسیں بنتی دیکھی تھیں چاہے سر پر چھت ہو نہ ہو لیکن چلیں لوگ سڑکوں اور بس سٹیشنوں پر ہی رات گزار لیا کرتے تھے ۔
فری ہیلتھ کارڈ کی سہولت ایک غریب کیلئے کیا معنی رکھتی ہے وہ تو ایک غریب ہی بتا سکتا ہے جس کے گھر کی اکثر اموات محض بروقت تشخیص اور علاج کے فقدان کی باعث وقوع پذیر ہوتی ہیں
پچھلی حکومتوں کی سیکیورٹی پر اتنی مہنگی بولٹ پروف گاڑیاں استعمال کی جاتی رہیں جبکہ نیازی کی بے نیازی کہ صرف دو ملازم اور دو گاڑیاں اپنے تصرف میں رکھ رہا ہے ملک میں کوئی گورنر ہاؤس نہیں ہوگا تو بالآخر ہم اںگریزوں کے پھیلائے ہوئے غلامانہ نظام سے نکلنے والے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور کا گورنر ہاؤس کہ عام بندہ اس کے اندر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھااور اس گورنر ہاؤس کے ملازمین کی ایک لمبی قطار اور پھر گورنمنٹ کی طرف سے فراہم کردہ مراعات۔مطلب شاہانہ انداز زندگی پر ملک کا خزانہ لٹایا جاتا اور پھر گورنر ہاؤس سے تھوڑا آگے جائیں تو غریبوں کی جھگیاں ۔ یہ تضاد پچھلی ستر دہائیوں میں کبھی ختم نہ ہوسکامگر اب امید کی کرن پوری آب و تاب سے چمک رہی ہے۔ میری ایک دوست نے کہا کہ خان پاکستانیوں کی آخری امید ہے تو میں نے کہا “آخری نہیں پہلی ہے”
وزیراعظم ہاؤس میں وزیراعظم نہیں رہے گا بلکہ میری طرح ایک تین کمروں کے گھر میں رہے گا۔ وہ بھی صرف سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر۔۔ تین کمروں کا گھر تو کوئی بھی سفید پوش آدمی آرام سے افورڈ کرسکتا ہے۔
اب پچھلے وزراء اعظم سے موازنہ کرنا زمین آسمان کا فرق ڈالتا ہے پاکستان کی معیشت پر۔
ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں سے جو مدد مانگی ہے اس پہ اگر سچ مچ عملدرآمد کیا جاسکے تو آنے والے سالوں میں پاکستان واقعی کسی سے بھیک نہیں مانگے گا ۔
پاکستان کے الف سے لیکر ی تک مسائل اس تقریر میں ڈسکس کئے گئے ۔ خصوصاً تعلیم، صحت، کرپشن، قرضے، غربت اور بیروزگاری کی طرف خصوصی توجہ فوری بنیادوں پر دینے کے تمام گوشوارے ترتیب دئے جاچکے ہیں اور جو رہ گیا ہے اس کی طرف فوری کام کا یقین دلایا گیا۔ عملی اقدامات اس نے اپنی ذات سے شروع کئے۔
اورادھر یہ عالم کہ تقریر لفظ بہ لفظ سنی اور کئی بار سنی اور ہر بار دوبارہ سننے کو دل چاہا!
جب بھی کوئی نبی جہالت کی دیواریں گرانے آتا تھا تو اسے جادوگر، ساحر کہا جاتا تھا۔ کہ جو لوگوں کو جادو کے زور پہ اپنی جانب کھینچتا تھا۔ کل عمران خان کی تقریر سن کے جو سحر طاری ہورہا تھا تو سمجھ آرہی تھی کہ جہالت اور تاریکی کی دیواریں توڑنے والوں کو ہر دور میں جاوگر ، دیوانہ اور ساحر کیوں کہا جاتا تھا

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply