میرے پاس تم ہو۔۔۔فراست محمود

بے شک جسے وہ چاہے عزت دے اور جسے وہ چاہے ذلیل کرے”

اب اس عزت اور ذلت کا معیار ہر شخص نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق بنا رکھا ہے ۔مگر عمومی طور پہ جب ہم کو کوئی عزت،مرتبہ،عہدہ شہرت یا دولت ملتی ہے تو ہم سب کو یہ آیت کریمہ ضرور یاد آتی ہے اور ہر کسی کو سناتے پھرتے ہیں مگر جب ہم میں سے کسی کو زوال آتا ہے اور ہم سے عہدہ ،عزت مرتبہ ،شہرت یا دولت کو چھین لیا جاتا ہے ہم میں سے اکثر آیت کریمہ کے دوسرے حصے (جسے ہم چاہیں ذلت دیں) کو نہ پڑھتے ہیں نہ سنتے سناتے ہیں بلکہ کوئی سنائے بھی تو دل ہی دل میں اس شخص سے دشمنی پال لیتے ہیں۔
شہرت اور دولت تو دنیا میں آئے تقریباً ہر شخص کی خواہش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہو۔مقصد اپنے وجود کو منوانا ہوتا ہے۔کچھ اچھے کاموں میں خود کو نمایاں کر لیتے ہیں کچھ دل کی تسکین اور وجود کی اہمیت منوانے کے لئے برے کاموں کا بھی سہارا لے لیتے ہیں۔بقول شاعر۔
طالب شہرت ہوں مجھے وجہ سے کیا مطلب
بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
اسی طرح کوئی فن ،کوئی آرٹ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے اور کوئی فن دلدل میں دھنس کر وجہ مقبولیت بن جاتا ہے۔
اس لمبی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ اچھے کے ساتھ ساتھ برے کو اور تعریف کے ساتھ تنقید کو کھلے دل سے قبول کرنے کا فن ہم کو سیکھ لینا چاہیے اور آیت کریمہ کا دوسرا حصہ( ذلت بھی اسی کی طرف سے ہے) خوشی سے قبول کریں۔
موضوع کی طرف رخ کرتا ہوں جو کہ Ary ٹی وی کا ڈرامہ سیریل” میرے پاس تم ہو” ہے۔
یہ ڈرامہ بظاہر ایک پرانی سٹوری جو ہم بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ دولت نے کسی شخص کو (مرد و عورت) ایسا اندھا کر دیا ہوتا ہے کہ انسان اخلاقیات کے ساتھ ساتھ شرعی حدود بھی توڑ دیتے ہیں اور ظاہری تسکین کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔
پرانی سٹوری کے اس ڈرامے کے نئے آؤٹ کلاس ڈائیلاگز اور اداکاروں کے اداکاری نے خلیل الرحمٰن قمر کو شہرت کی بلندی پہ پہنچا دیا ہے۔بظاہر ہر کسی کو معلوم ہے یہ ایک ڈرامہ ہے اور ڈرامے اکثر معاشرے کے تلخ حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں اس لئے یہ ڈرامہ ہی ہر ٹی وی سکرین کی زینت بنا ہوا ہے۔عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کی بھی خاصی تعداد دلچسپی سے آئندہ قسطوں کے انتظار میں ہوتے ہیں۔
اس تحریر کا مقصد ڈرامے کی بارہویں قسط کا آخری ڈائلاگ ہے جو صرف ایک ڈائیلاگ تھا مگر ہم لوگوں نے اسے عورت و مرد کے اونچے نیچےمقام کا مسئلہ بنا لیا ہے اور یقیناً عائزہ خان،ہمایوں سعید،عدنان صدیقی حتیٰ کی خلیل الرحمٰن قمر صاحب خود بھی نہیں جانتے ہوں گے یہ جملہ خواہ مخواہ کی بحث میں الجھا دے گا۔ اور ہم لوگ اس ایک جملے کی وجہ سے عورت و مرد کا مقام ناپنا شروع ہو جائیں گے۔
اس سین میں ہمایوں سعید جو اپنی بیوی سے عشق کرتا ہے اور بیوی(عورت) کو ماتھے کا جھومر بنا کے رکھتا ہے مگر وہ بیوی (عورت) پیسے کے لالچ میں نہ صرف اپنے شوہر بلکہ بچے کو بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے جس پہ ہمایوں اپنی سابقہ بیوی کے اس گھناؤنے کردار اور لالچ کی وجہ سے اسے ” دو ٹکے” کا کہہ دیتا ہے ۔
اب یار لوگ ڈرامہ رائٹر پہ اعتراض کر رہے ہیں کہ اس نے عورت کے مقام کو کم کر دیا ہے دو ٹکے کا قرار دیا ہے حالانکہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس میں عورت کی نہیں بلکہ اس گھٹیا کردار کی تذلیل کی گئی ہے جو کہ ایک مرد کا بھی ہو سکتا ہے۔بدقسمتی سے وہ سین اور کردار عورت نے نبھایا ہے اس لئے وہ جملہ اپنے کردار کی وجہ سے عورت کو سننا پڑا ہے ۔اگر یہی کردار ڈرامے میں مرد کا ہوتا تو اس کو بھی یہ سننے کو مل سکتا ہے۔لہذا اس جملے کو عورت کی تذلیل کہنے والا ڈرامہ بند کریں کیونکہ اتنی سمجھ ہم رکھتے ہیں کہ یہی عورت ہماری ماں،بیوی بہن اور بیٹی بھی ہے اور اس جنس کا احترام بھی ہمیں ہیں۔
ویسے تنقید کرنے والے ایسے دوست بھی ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ طلاق کے فوراً بعد بیوی کو گھر سے روانہ کر کے شرعی احکام کی دھجیاں بکھیری  گئی ہیں،لہذا رائٹر کا یہ جرم بھی قابل گرفت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالانکہ یہ تو صرف ڈرامہ تھا جب کہ حقیقت میں معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو تین طلاقیں دینے کے باوجود بغیر شرعی شرائط پوری کیے بیوی کو گھر پہ رکھے ہوتے ہیں اور یہ بے حس معاشرہ آنکھیں بند کئے ایسے تلخ حقائق قبول کئے رکھتا ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ یہ اصل مسئلہ اور شور واویلا عورت کی قیمت لگانے کا نہیں بلکہ ” کم قیمت” لگانے کا ہےورنہ تو جب شہوار صاحب نے عورت کی قیمت پچاس ملین لگائی تو کسی حلقے میں کوئی شور نہیں اٹھا تھا۔
میری طرف سے خلیل الرحمٰن قمر،ہمایوں سعید،عائزہ خان،عدنان صدیقی اور “میرے پاس تم ہو” کی ساری ٹیم کو کامیابی اور شہرت کی مبارکباد ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply