آزادی وطن کی اہمیت۔۔۔۔۔طاہر جمیل نورانی

4 اگست کے حوالہ سے یہاں جوان ہونیوالے وہ برطانوی بچے جنہوں نے آزادی پاکستان کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھا۔ قیام پاکستان کی کہانی بزرگوں سے سنی، پاکستان ٹی وی چینلز پر پاکستان بننے کے مناظر دیکھے، یا پھر اپنے والدین کے ہمراہ بد دلی سے ہائی کمشن میں منعقدہ قومی تقریبات میں شرکت کی ہے پاکستان کے بارے میں کچھ زیادہ ہی عجیب و غریب سوال پوچھنے لگے ہیں۔ برطانوی ماحول اور سوسائٹی میں پروان چڑھنے والے ان سیانے بچوں کا اپنے والدین سے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ پاکستان انہیں 14 اگست کو ہی کیوں یاد آتا ہے۔ جبکہ سال کے دیگر 11 ماہ میں پاکستانیوں کو اپنی سیاست سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ اپنے بچوں کے دلوں میں وہ حقیقی پاکستان کی محبت پیدا کرسکیں؟ بچوں کا والدین سے کہنا ہے کہ انگلستان آئے تو آپ خوشحالی کی غرض سے تھے! مگر یہاں آنے کے بعد آپ لوگوں نے پاکستان سے سیاست بھی ’’امپورٹ‘‘ کرلی۔ جسکی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی۔ اگر اتنا ہی شوق تھا تو پھر یہاں کی مقامی سیاست میں حصہ لینے میں آخر کیا مضائقہ تھا۔ ان بچوں کا استدلال ہے کہ برطانیہ سے ڈیڑھ درجن کے قریب شائع ہونیوالے اردو اخبارات، رسائل اور میگزین گھروں میں مطالعہ کیلئے لائے تو جاتے ہیں مگر ان پرچوں میں زیادہ تر پاکستانی سیاست، برطانیہ میں اپنی مدد آپکے تحت قائم سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندیاں، من پسند لیڈروں کے ہمراہ ’’صورتیں‘‘ اور سیاسی بیانات دینے کے علاوہ عاملوں اور پیروں، فقیروں کے اشتہارات نمایاں ہوتے ہیں جنہیں وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اردو پڑھنی آتی ہے اور نہ ہی اردو ہم بول سکتے ہیں۔ مگر 23 مارچ، 14 اگست، یوم قائداعظمؒ، یوم اقبالؒ اور دیگر قومی دن آتے ہیں تو آپ ہمیں ’’آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘ کا درس دینا شروع کردیتے ہیں۔ آپ ہمیں پاکستان کی اہمیت، آزادی وطن کیلئے دی گئی قربانیاں اور دو قومی نظریے سے وابستگی پر لیکچر تو دیتے ہیں۔مگر خود آپ لوگ ’’مسٹر جناح‘‘ کے فرمودات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ انکے دئیے درس کو بھلا بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا آپکے سیاستدانوں نے 68 برس میں وہ حشر کیا ہے کہ برطانوی نشریاتی اداروں کی رپورٹیں دیکھتے ہوئے آپکے حکمرانوں کے ان کرتوتوں پر ندامت ہونے لگتی ہے۔ کیا یہ ’’ہائپو کریسی‘‘ نہیں کہ مساجد میں باجماعت نمازیں بھی ادا کی جاتی ہیں۔ اسلام کے اتحاد اور امت مسلمہ کی خوشحالی کیلئے گڑ گڑا کر دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں۔ ’’لیلتہ القدر‘‘ کی تلاش میں رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک ایک گھڑی اور لمحات مساجد میں گزار دیتے ہیں۔ مگر کیا وجہ کہ اتنی عبادت اور ریاضت کے باوجود مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کے حالات جوں کے توں ہیں۔ بچے چونکہ ہوتے ہی بچے ہیں۔ بڑے ہو بھی جائیں تو انکی ذہنی ناپختگی بالعموم ان کے آڑے آتی ہے۔ 14 اگست کے بارے میں انکی سوچ پر شک اسلئے بھی نہیں کرنا چاہئے کہ آزادی وطن کی کہانی ایک طویل کہانی ہے جو اتنی جلدی انکی ذہن نشین نہیں ہوسکتی۔ آزادی وطن کے بارے میں انہیں جو پڑھایا یا سنایا گیا یہ انکے آزاد وطن کا پہلا زینہ ہے۔ انکا یہ کہنا کہ 14 اگست کو ہی ہمیں پاکستان کیوں یاد آتا ہے۔ بلاشبہ درست ہے۔ درست اسلئے بھی کہ سال کے 11 ماہ میں تو پاکستان کی اہمیت کو ’’سیاست‘‘ کی نذر کردیا جاتا ہے مگر 14 اگست کا اعلان ہوتے ہی ہم اپنی تنظیموں، سوسائٹیوں اور آرگنائزیشنز کے بند دروازے دوبارہ کھول لیتے ہیں۔ برطانیہ میں جوان ہونیوالے ان پاکستان نژاد برطانوی بچے جو کہ ’’برگروں‘‘ ’’آئس کریم‘‘ اور ’’لالی پوپ‘‘ کی حکمرانی قائم ہے اسلئے انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کون تھے۔ پاکستان کا قیام کیوں وجود میں آیا۔ ان بچوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کو خیر باد کہہ کر یہاں آنیوالے ماما، پاپا برطانیہ کیوں آئے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بچوں کیلئے بانی پاکستان محمد علی جناحؒ سمیت آزادی وطن کیلئے لاکھوں کروڑوں قربانیاں دینے والے شہدا کے بارے میں خصوصی پروگرامز مرتب کئے جائیں انہیں دو قومی نظریہ کے پس منظر کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ اسی طرح والدین کا بھی یہ فرض ہے کہ ہائی کمشن کی جانب سے پاکستان کے بارے میں منعقدہ پروگراموں میں وہ اپنے بچوں کو اپنے ہمراہ لے کر جائیں۔ تاکہ انہیں آزادی وطن کی اہمیت کا احساس ہو سکے۔ اس سلسلہ میں والدین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ، کے عمائدین سے جو پاکستان میں صحافت کے علمبردار ڈاکٹر مجید نظام مرحوم کے لگائے اس پودے کی آبیاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان سے معاونت حاصل کرنا ہوگی۔ بچوں کو ہر حال میں یہ بتانا ہوگاکہ ’’قیام پاکستان‘‘ کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ان مقاصد سے بھی پردہ اٹھانا ہوگا جنکے لئے یہ اسلامی مملکت وجود میں آئی۔بچوں کو یہ بھی آگاہ کرنا ہوگا کہ 68 برس کی آزادی کے باوجود حقیقی پاکستان کا خواب آخر کیوں پورا نہیں کیا جاسکا۔ حکومت پر بھی یہ فرض عائد ہوتاہے کہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں اور انکی نئی نسل کے لئے ’’آزادی پاکستان‘‘ کے بارے میں خصوصی لٹریچر کا اہتمام کرے تاکہ نئی نسل افکار قائداعظم کی درست نمائندگی کر سکے۔ محض قائداعظم کے مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھانے، یا بڑی بڑی مورتوں‘‘ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اخباری بیانات دینے سے آزادی وطن کا حقیقی مفہوم ہرگز پورا نہیں ہوگا۔ یہ قومی دن آتے رہیں گے اور بچے سوال پوچھتے رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ نوائے وقت

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply