آج ابو جان کی وفات کو ایک برس بیت گیا!

آج ابو جان کی وفات کو ایک برس بیت گیا!
ان کی وفات کے بعد لکھی گئی ایک تحریر۔

سرجن حفیظ نے گلاس میں یخ بستہ فانٹا نکالی اور میری طرف بڑھائی، ابو سامنے لیٹے تھے اور دیکھ رہے تھے، میں نے فانٹا کا گلاس تھامتے ہوا کہا، ابو کو کولڈ ڈرنک بہت پسند ہے، بہت شوق سے پیتے ہیں ، چاند رات تھی، سرجن حفیظ نے ابو کی جانب دیکھ کر کہا، بابا جلدی پیو گے فکر نہ کرو، ابو وینٹی لیٹر پر تھے ، سن کر مسکراہٹ کا تاثر ان کے چہرے پر آیا اور انہوں نے ہاتھ کھڑا کر کے اللہ کی طرف اشارہ کر دیا،
یوشع جاؤ دادا کو کولڈ ڈرنک پلاؤ، یہ کہہ کر میں اندر کمرے میں چلا گیا، ابھی مجھے کچھ دیر ہی لگی ہوگی کہ ایک آواز آئی منصور۔۔۔منصور۔۔۔ میں باہر نکلا دیکھا ابو کرسی پر بیٹھے ہیں حالت غیر ہے، اور سانس اکھڑ رہی ہے، لشتم پشتم ابو کو اُٹھا کر اسپتال پہنچے وہاں سے پھر کارڈیو، ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک ہے، ابو پرسکون تھے ، بات کر رہے تھے ہوش میں تھے خطرہ ٹل گیا تھا، مجھے امید تھی کہ ہم سحری سے قبل گھر پہنچ جائیں گے!

اکیس جون کی شب تھی،میں میری بڑی بہن، بہنوئی اور ایک کزن اسپتال میں تھے، تین بجے فیصلہ ہوا کہ ابو کی انجیو گرافی کی جائے گی اور اس کے بعد انجیو پلاسٹی، ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ ٹوکن کروا لیں،
ہم سی سی یو میں تھے ابو کی انجیو گرافی ہو چکی تھی اور انجیو پلاسٹی ناکام۔۔سرجنز نے کہا بابا کا بائی پاس ہو گا، اور جلد ہی کرنا ہو گا آپ لوگ مشورہ کر لیں،بھائی سے مشورہ کیا سب سے کیا بار بار کیا،دو دن لگا دیے،ابو کو اسٹیپ ڈاون میں منتقل کیا جا چکا تھا ابو نارمل تھے ، چل پھر رہے تھے ، اور کہہ رہے تھے یار چھوڑو گھر چلو!
مگر سرجنز کہہ رہے تھے ان کی حالت ابھی خطرے میں ہے سرجری ناگزیر ہے! اور ابو نے ہتھیار ڈال دیے، کہا۔۔۔ کرو سرجری!!
رمضان تھا، کون سا روزہ تھا۔۔ یہ احساس ہی نہیں تھا، ابو کو آپریشن کے لئے لیجایا گیا،دس بجے آپریشن شروع ہوا، تین بجے کے بعد ابو کو آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا۔ ابو کو ہوش نہیں آیا تھا،شام میں سرجن ملا، کہنے لگا ،دل تو بچالیا، مگر پھیپھڑے جواب دے رہے ہیں! سانس لینے میں بہت مشکل ہے!
گھر والے سب گھر جا چکے تھے ، اسپتال میں ، میں پھر اکیلا تھا، دور سامنے ایک بہت بڑا آکسیجن کا ٹینک لگا تھا،مجھے سانس لینے میں کوئی دقت نہیں تھی، مگر میرا دل مان نہیں رہا تھا،مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا دل بہت رک رک کے دھڑک رہا ہے،
میرے آنسو میری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہے تھے اور میرے چہرے پر ایک عجیب قسم کی بیزاری تھی، میرے سامنے لوگ تھے، پل پل مرتے اور زندگی کی امید میں پاگل ہوتے، مردہ جسم تھے جو ابھی سانس لے رہے تھی اور ابھی مر گئے، ایک ایمبولینس زندہ انسان کو لاتی تھی اور دوسری مردہ جسم کو لے جاتی تھی!

ابو کی سرجری کو چھ دن ہو چکے تھے ابو آئی سی یو میں ہی تھے، اور ہم سب ایک اُمید میں! سب اپنے اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کر رہے تھے، اور میں صرف دیکھ رہا تھا ،اپنے باپ کو محسوس کر رہا تھا ،مجھے لگ رہا تھا کہ ابو میرے اندر سما رہے ہیں!
بڑے سے ہال میں کہیں موت تاک میں بیٹھی ہماری کاوش پر مسکرا رہی تھی۔۔۔ابو بستر پر پڑے تھے۔۔وینٹی لیٹر انہیں سانس فراہم کر رہا تھا۔۔ایک مشین ان کے پیر کے پاس تھی جس سےایک تار ایک پن کے ذریعے سینے میں پیوست تھا یہ پیس میکر تھا۔۔۔سینے کے دونوں جانب دو دو نلکیاں ان کے جسم میں لگائی گئی تھیں جو ان کے پھیپھڑوں سے مواد نکال رہی تھیں، ایک اسکرین پر کچھ ہندسے گردش کر رہے تھے جو بتا رہے تھے کہ ہاں ابھی سانس چل رہی ہے دل دھڑک رہا ہے۔۔۔تین اور مشینیں لگی تھیں جن کے ذریعے انہیں کچھ دوائیں دی جا رہی تھیں۔۔سیدھے ہاتھ کی جانب ڈرپس اور ناک میں ایک نلکی۔۔۔ابو ہوش میں کچھ دیر کے لئے آتے تھے۔۔۔اور ڈاکٹر پھر انہیں بے ہوش کر دیا کرتے تھے۔۔۔

عید کا دن تھا۔لوگ اللہ سے اپنے روزوں کا انعام پانے کےلئے بے تاب تھے۔نئے کپڑے اور عید کی فطری خوشی۔۔میں مگر اسپتال میں تھا گھر سے دور اس عید پر دو لوگ تنہا تھے ایک میں اور ایک میرا باپ۔ اس عید پر مگر دعا ایک ہی تھی۔۔ میرے باپ کی بند آنکھوں میں چھپی زندگی کی خواہش اور جینے کی دعا اور میری سرخ جاگتی آنکھوں میں ان کو بچانے کی دعا۔۔۔۔جانے کب کسی نے کہا یار آج تو عید ہے ،کیا یہاں عید کی نماز نہیں ہوتی۔۔میں چونک گیا۔۔۔میرے کانوں میں ابو کی آواز گونجنے لگی ارے منصور۔۔۔۔۔جماعت نکل جائے گی۔۔اٹھو۔۔۔۔میں اٹھ گیا ،میلی ہوتی قمیض ،بڑھی ہوئی شیو، وضو کرنے کے بعد اسپتال میں موجود چھوٹی سی مسجد میں جا پہنچا۔۔یہ میری زندگی کی پہلی عید کی نماز تھی جو میں امام کے پیچھے تھا۔۔اور ابھی جماعت میں بہت وقت تھا۔یہ واحد نماز تھی جس میں امام کے سوا سب کے چہرے غم میں ڈوبے ہوئے تھے۔۔اکثر کے مریض شدید بیمار تھے۔۔۔ کب امام نے نماز ادا کی کب عید کا خطبہ ہوا معلوم نہیں ۔۔میرا دھیان تو برابر میں کھڑے ایک بلوچ آدمی کے کرتے پر تھا جو کئی جگہ سے پھٹا ہوا تھا اور اس کے لباس سے سخت بدبو اٹھ رہی تھی۔۔شاید میرے پاس سے بھی۔۔

یہ عجیب عید کی نماز تھی کہ نماز کے بعد کسی کو گلے ملنے کہ خواہش نہیں تھی ہر انسان ایک عجیب ٹرانس میں تھا۔میں اپنی جگہ سے اٹھا آنسو میری آنکھوں میں جم رہے تھے میں چپکے سے مسجد سے باہر نکل آیا مجھے ڈر تھا کہیں کوئی مجھے گلے نہ لگا لے۔۔۔ مجھے یاد ہے میں ہمیشہ عید کی نماز ابو کے برابر کھڑے ہو کر ادا کیا کرتا تھا۔۔اور سب سے پہلے ابو سے گلے ملتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک ٹرانس کے عالم میں آئی سی یو کی جانب بڑھا۔۔۔پہلی منزل پر ۔۔آج آئی سی یو کے گیٹ پر کوئی روکنے والا نہیں تھا۔۔۔ابو کے پاس جا کر کھڑا ہوا۔۔۔چھ فٹ کا انسان بے بسی کے عالم میں پڑا تھا داڑھی بے ترتیب تھی دل میں ابو کو عید مبارک کہا ان کا ماتھا چوما۔مگر ابو ہوش میں نہیں تھے۔۔۔میرے ہونٹوں پر ابو کا لمس نمک کی طرح پھیل رہا تھا اور میری آنکھوں میں جلن بڑھ رہی تھی ۔۔۔میں بوجھل قدموں سے آئی سی یو سے باہر آگیا۔۔۔۔اسپتال کی کینٹین کے سامنے بنی فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔۔۔ آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔۔۔چہرے اداس تھے ۔۔ان پر نا امیدی جمی ہوئی تھی۔۔لوگ پر امید تھے مگر اس امید پر خوف غالب تھا۔۔۔

اسپتال میں زندگی سہم سہم کر گزرتی ہے کچھ ہو جانے کا خوف کچھ کھو جانے کا خوف آنکھوں سے نیند غائب کر دیتا ہے اور دل وسوسے سے بھر جاتا ہے۔لوگ میرے سامنے چل ر ہے تھے اور میں بیٹھا ہوا تھا۔اپنے صحافتی پیشے میں،میں نے بہت کرب ناک مناظر دیکھے ہیں بے بسی اور بے حسی کی ان گنت مثالیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں لاشوں میں تبدیل ہوتے لوگ روتے ہوئے پیارے اور بے حس حقیقت کو محسوس کیاہے ۔مگر یہ کیسا منظر تھا جو لمحہ لمحہ میرے اندر اتر رہا تھا، جم رہا تھا۔مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ابو دھیرے دھیرے ہم سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔سب کی نظریں مجھ پر جمی تھیں پردیس میں بیٹھے بڑے بھائی کی اور ساتھ دکھ جھیلتی بہنوں کی۔۔سب سے بڑھ کر امی جان کی! اور میری نظریں۔۔وہ بھٹک رہی تھی امیدی اور نا امیدی کے درمیان۔۔۔۔۔عید کا دن گزر کیوں نہیں جاتا۔۔میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔دور کہیں موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی۔۔۔میں سوچنے لگا لوگ پہلی بیل پر فون کیوں نہیں اٹھاتے ،اچانک میں جاگ اٹھا یہ میرا ہی فون تھا۔۔۔دوست آگئے تھے، عید کے دن مجھ سے ملنے! پھر گھر کے سب لوگ آگئے۔۔بچے بھی، سب نے جا کر ابو کو دیکھا ابو ہلکے ہلکے ہوش میں تھے۔۔۔ہاتھ ہلا رہے تھے۔۔۔۔۔
انابیہ،دادا کی جان، عید کا دن تھا، میں چپکے سے انابیہ کو دادا کے پاس لے گیا،دادا نے انابیہ کو دیکھا، اور مسکرائے، عید کا دن گزر جانے کو تھا، شام میں ابو کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا،ہم سب ایک بار پھر پر امید ہو گئے، ابو کو نارمل آکسیجن ماسک لگا دیا گیا،

دن بہت سست روی سے گزر رہے تھے، ابو کو سانس بھی بہت سست روی سے آ رہی تھی مگر پھر بھی ہمیں امید تھی کچھ سرجن، ڈاکٹرز سب محنت کر رہے تھے اور ہم سب دعا۔۔۔ ابو سات دن وینٹی لیٹر کے بنا رہے، مجھ سے بے پناہ باتیں کیں، بہت کچھ بتایا، سب کو یاد کیا اور بہت یاد کیا،
ابو بہت غصہ کرنے لگے تھے، چڑچڑے ہوتے جا رہے تھے، بھائی پردیس میں تھا، مجبور تھا بہت بڑی آزمائش تھی جس سے گزرنا تھا!
جمعہ یا ہفتے کا دن تھا ابو نے میرے کان میں کچھ کہنا چاہا،میرا پورا وجود ایک کان بن گیا اور میں ابو کے منہ پر جھک گیا، ابو نے کہا مجھے بچا لو، مجھے گھر لے چلو! میرا پورا وجود ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سن ہو گیا۔۔ میں مردہ بدن کے ساتھ نیچے آ گیا مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا میرے کان میں ابو کی آواز گونجی ۔۔مجھے بچا لو!! میں اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر گر گیا۔

مجھے ہوش نہیں تھا، ڈاکٹر میرے گرد جمع تھے، مجھے جانتے تھے، مجھے بیڈ پر لٹایا، انجیکشن لگایا، مگر مجھے ہوش نہیں آ رہا تھا ، میں اپنی آنکھوں سے ڈاکٹر صاحب کو دیکھ رہا تھا، وہ کچھ کہہ رہے تھے میرے ہاتھ موبائل پر تھے، اور میں کانپتے ہاتھوں کے ساتھ میسج کر رہا تھا۔۔
پیر کا دن تھا، ابو کی طبعیت بہت اچھی تھی، ہم دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملا رہے تھے، ابو جانتے تھے وہ اب مر جائیں گے، اور میں جانتا تھا کہ میں ابو کو نہیں بچا سکتا! ابو نے سب سے خوب باتیں کیں، سب سے ملے اور آئی سی یو کے گیٹ کی جانب مایوسی سے دیکھتے رہے!
پیر کی شام تھی ، ابو نے کہا اب مت جانا میرے پاس رہو، اور میں ابو کے پاس رک گیا، انہوں نے کہا اور میں نے سنا، میرا دل بہت بے چین تھا، پھر اُسامہ آ گیا، ابو کے ساتھ تین سے چار گھنٹے میں نے مسلسل ان کے ساتھ آئی سی یو میں گزارے، ابو میں گھر جا رہا ہوں کل صبح آؤں گا ، ابو نے بچوں کی طرح کہا ۔۔۔مت جاؤ۔۔ میں نے کہا ابو دفتر جانا ہے نا۔۔۔۔ابو نے کہا جاؤ۔۔۔ اور میں چلا گیا!

منگل کی صبح جب میں سو کر اُٹھا ، مجھے بتایا گیا ابو کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ہے، مجھے معلوم تھا، میں نے امی جان کو پیار کیا انھیں جھوٹی تسلی دی اور اسپتال آ گیا، ابو وینٹی لیٹر پر تھے، سرجن سے بات کی اور دفتر آ گیا، تین بجے میرے پاس سرجن کا فون آیا، ابو کی طبعیت بگڑ گئی تھی ان کا دل بند ہو گیا تھا بہت مشکل سے ان کی دل کی دھڑکن بحال ہوئی تھی، میں اسپتال پہنچ گیا ، وہاں موجود چھوٹی بہن کو تسلی دی ،بھائی کو فون کرکے بتایا، ہم سب جانتے تھے کہ کیا ہونے والا ہے ہم سب بے چین تھے،
گھر سے سب آ گئے تھے ، سب ابو سے جا کر ملے ، ابو کچھ کچھ ہوش میں تھے،شام میں سب چلے گئے ،میں پورے اسپتال میں چکرا رہا تھا، فون پر سب سے بات کر رہا تھا،
پھر ابو کے پاس گیا، ابو ہوش میں تھے وینٹی لیٹر لگاہوا تھا، میں نے ابو کو کہا اچھے سے سانس لیں ، انابیہ کو لے کر آؤں گا ۔۔ابو مسکرائے، میں نے کہا گھر چلیں گے، ابو نے ہاتھ اوپر کر کے اشارہ کیا اللہ، میں نے کہا ۔۔درود پاک پڑھیں ۔۔ابو نے اپنی کمزور انگلیوں پر درود پڑھنا شروع کر دیا، میں نیچے آ گیا۔۔۔
مجھے نیچے آئے دس منٹ گزرے تھے کہ آئی سی یو سے کال آئی، میں بھاگ کر آئی سی یو پہنچا،
آئی سی یو کے گیٹ سے میں نے دیکھا ابو کے گرد بہت لوگ جمع تھے، کوئی ان کے دل کو اپنے ہاتھوں سے پمپ کر رہا تھا اور کوئی کچھ۔۔ مگر میری نظریں اس اسکرین پر تھیں جس پر ایک صفر بنا آ رہا تھا اور سیدھی لائن۔۔ میرے قدم وہیں رک گئے اور شاید دل بھی، سرجن حفیظ نے مجھے دیکھ لیا اور وہ میرے قریب آئے اور کہا آپ کے ساتھ کوئی ہے، میں نے کہا نہیں،
اس نے کہا ۔۔ان کا انتقال ہو گیا ہے، اور یہ کہہ کر اس نے مجھے گلے لگایا، میں آئی سی یو سے باہر آ گیا، گیٹ پر موجود گارڈ نے مجھے گلے لگایا اور کہا بھائی صبر کرو!
میں نیچے آگیا، اپنے بہنوئی کو فون کیا ، گھر فون کیا، میرا فون بیٹری کم ہونے کی وجہ سے ایک دم بند ہو گیا، اور میرا دل بھی اس کے ساتھ ہی بند ہوگیا!
آئی سی یو میں ابو مر چکے تھے اور میں نیچے بیٹھا خالی آنکھوں سے لوگوں کو دیکھ رہا تھا، لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے۔۔۔
کب میری بہن آئی کب گھر والے ،مجھے نہیں معلوم ، کب ہم ابو کو لے کر گئے اور کب ان کو دفنایا، میں بس دیکھتا رہا، ابو چلے گئے۔۔۔
دنیا ویسے ہی ہے جیسے ابو کے ہوتے ہوئے تھی۔ میں ہنس بھی رہا ہوں بول بھی رہا ہوں، دیکھ بھی رہا ہوں ، محسوس بھی کر رہا ہوں، مگر ابو نہیں ہیں، میں بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہوں، بہت مضبوط، پر جانے کیوں اب دل رک رک کر دھڑکتاہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آج ابو جان کی وفات کو ایک برس بیت گیا!

Leave a Reply