صحافت پر آفت۔۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

صحافت کے شعبے سے وابستگی کے بعد جب سے صحافت کے استاد بنے ہیں ـ اپنے شاگردوں کو سبز باغ دکھارہے ہیں کہ صحافت میں آکر آپ لوگوں نے بہت بہترین کام کیا ہے ـ شہرت، عزت،پیسہ ،رعب اور دبدبہ سمیت بہت کچھ آپ کے قدموں میں ہوگاـ یہ سبز باغ صرف میں نہیں دکھا رہا بلکہ میرے سارے دوست اپنے طالب علموں کو دکھارہے ہیں جو صحافت اور ابلاغ عامہ کے شعبہ میں استادی کرکے رزق حلال کر رہے ہیں ـ وہ اپنے شاگردوں کو صحافت کے اسرار ورموز سکھاتے ہیں ـ کہ صحافت کیسے کی جاتی ہےـ انہیں حوصلہ سکھاتے ہیں کہ لوگوں کی مدد کیسے کی جاتی ہے ـ مگر بہت ہی کم اساتذہ ہیں جو دوسرا رخ بھی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ صحافت میں ہیں تو اپ کو بھوکاپیاسا رہناپڑے گاـ تنخواہ مانگنی ہی نہیں اگر مانگنے کی جسارت کرنی ہے تو اپنا بوریا بستر  گول ہی سمجھو۔ ـ گھر میں فاقے ہوں گےـ بچوں کے سکول کی فیسیں وقت پر نہیں ہونگی ـ دکانداروں سے راستے تبدیل کرنے ہونگے۔ ـ بیوی سے چڑ چڑ دن رات ہوگی ـ خود پیٹ بھر کر کھانا دن کو کہیں  نا کہیں سے زہر مار کر ہی لیا جائے گا مگر رات کا کھانا گھر میں مشکل سے ہی ملے گا۔۔۔

ـ یہ میں بڑے صحافی کی بات نہیں کر رہا ـ یہ چھوٹے صحافی کی بات ہورہی ہے ـ آج پشاور کی خاتون صحافی انیلا شاہین کی فیس بک پر سب دوستوں کی جانب سے شئیر ہونے والی کہانی نے ذہن کے کواڑ کھول دئیے جس نے اپنے ادارے چینل 24سے استعفی دے کر بہادری کی تاریخ رقم کردی ـ جو پشاور کے پانچ سو کےلگ بھگ صحافیوں کے منہ پر خاص کربڑے بڑے صحافیوں کے منہ پر طمانچہ ہے ـ ادارے کے لئے ڈوب مر نے کا مقام ہے ـ اور صحافی یونینز پر ایک کلنک ہے ـ کہ ایک خاتون اپنے ساتھیوں کے نکالنے پر سیخ پا ہوکر استعفی دے دیتی ہے جبکہ بڑے صحافی مراعات کے خواب میں پڑے ہوئے ہیں ـ یہ صرف موجودہ حکومت میں نہیں ـ بہت عرصہ سے صحافیوں کے ساتھ ہورہا ہےـانہیں نکالا جا رہا ہے ـ مگر پھر بھی ہر صوبے میں انہیں اشتہارات کی مد میں سالانہ اربوں مل رہے ہیں ـ پھر بھی بے چارے بیس تیس ہزار کے قلم کے مزدوروں کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا  جاتا  ہے . جن کا کوئی پرسان حال نہیں ـ اب تو سننے میں آرہا ہے ـ کہ ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے بیوروز تمام چینل والے بند کر رہے ہیں جبکہ بہت سے صحافیوں کی چھانٹی بھی شروع کردی ہے ـ جس میں انگلش اور اردو کے اخبارات سمیت ٹی وی چینلز بھی شامل ہیں ـ اس حوالے سے پشاور کا ایک ادارہ تو صحافیوں کے استحصال میں بہت زیادہ بدنام ہے ـ کوئی اس ادارے کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتاـ صحافیوں کے ساتھ زیادتی کے باوجود انہیں حکومت سے اشتہارات تواتر سے مل رہے ہیں اب جب موجودہ تبدیلی والی سرکار آئی ہے اس نےجب سے میڈیا پر گھیرا تنگ کردیا ہے ـ میڈیا مالکان نے وہ زور چھوٹے صحافیوں پر نکالنا شروع کردیاہےـ حالانکہ یہ بزنس ٹائیکون ہیں انہوں نے اتنا کما لیا ہے جس کاحساب نہیں ـ مگر برق بے چارے چھوٹے تیس سے چالیس ہزار والے صحافیوں پر گر رہی ہےـ اب تک دوسو کے قریب صحافیوں کو ملک بھر میں اخراجات کم کرنے کی مد میں نکالا جا چکا ہے ـ اور اگر یہی روش برقرار رہی تو صحافی چھابڑی لگانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

ـ عمران خان کے آتے ہی میڈیا پر ہاتھ رکھنے کو کئی لوگ اچھا جبکہ بہت سے لوگ اسے آرمی کی کارستانی قرار دے رہے ہیں کہ اب صحافت کو قید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ـ پیمرا کے بعد جو نئی باڈی بن رہی ہے اس میں سنا ہے آرمی کے افسران ارہے ہیں جبکہ پی ٹی وی میں بھی آرمی بیٹھ گئی ہے ـ جو میڈیا کے لئے پالیسیاں بنا رہے ہیں کہ کون سی چیز میڈیا پر چلے گی اورکونسی کک اوٹ ہوگی ـ کیونکہ یہاں اتھارٹیرین سسٹم رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ـ جس سے صحافی برادری پریشانی کا شکار ہے جبکہ انہیں اپنا کیرئیر ختم ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ انہیں کوئی اور کام بھی نہیں آتاـ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

موجودہ صورتحال دیکھ کر میں اپنے طلبہ کے لئے پریشان ہوں جبکہ طالبات کے لئے پر امید ہوں کیونکہ وہ ویسے بھی فیلڈ میں کم ہی آتی ہیں اور اگر آتی بھی ہیں تو ان کے لئے مواقع ہیں کیونکہ فیلڈ میں اُن کی قلت ہے پریشانی ہے تو ان طلبہ کی جو بطور صحافی میدان میں نکلیں گے وہ جب میدان صحافت میں آئیں گے تو انہیں ہم ٹیچر جھوٹے نظر آئیں گے ـ وہ سوچیں گے کہ ہمارے ٹیچرز نے ہمیں کیا کیاسہانے خواب اس فیلڈ کے حوالے سے دکھائے تھے ـ یہ سوچ پریشان کر رہی ہےکہ جو ڈاؤن سائزنگ ہورہی ہے اس سے ہمارے صحافی بھائیوں کا کیا ہوگا اور تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طلبا ء کا کیا ہوگا ــ جو اس فیلڈ کے لئے سہانے سپنے سجائے بیٹھے ہیں ـــ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”صحافت پر آفت۔۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

Leave a Reply