سنہالی کہانی/ترجمہ،مبین مرزا​

سنہالی کہانی

مصنف : ٹیسا ایبے سیکارا
ترجمہ: مبین مرزا​

7 مارچ 1996ء کی ایک شام میں یہ جھٹپٹے کا سماں تھا، سُورج لیکن اب تک اسی طرح سالم اور نارنجی نظر آرہا تھا جیسا وہ نومبر سے فروری تک کے دنوں میں رہتا تھا۔ جب سُورج خطِ اُفق سے اُترا تو میں ٹیلی ویژن ٹریننگ سے چُھٹکارا پا کر باہر نکلا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ادارے کی حدود اپنے داہنے ہاتھ پر آزادی چوک کی طرف بل کھائے ہوئے تھیں اور میرے بائیں طرف پُرانے ریس کورس پر حاشیے میں کھڑے صنوبر کے درختوں کے اُدھر نارنجی آسمان جھلک رہا تھا۔ کیمرا گونا پالا کے برابر سرک رہا تھا، جو دھان کے کھیتوں سے جو فصلیں کٹنے کے بعد خالی تھے اور جہاں پانی کے تالاب تھے ، جن سے شام کی روشنی منعکس ہو رہی تھی ، خراماں خراماں گذر رہا تھا۔ ہورانیوا کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کی مخصوص دُھن پہلے دھیرے دھیرے یُوں اُبھرتی ہے جیسے کہیں دُور سے آرہی ہو اور پھر اُس کی آواز بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ گونا پالا ٹھہرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی کیمرہ بیلنولا کی سمت کیسبیوا ہائی وے کے پار تک پھیلے کھیتوں کی وسعتوں کو سمیٹتے اور ان سے آگے پُرجلال نارنجی آسمان اور اس کے ساتھ عتیدیہ کی دلدلی زمینوں کو فریم میں لیتے ہوئے تھم جاتا ہے۔ جونہی کیمرہ تھمتا ہے ، مسی نونا کو لئے ہوئے ایک سفید کار گاؤں کی طرف سے اس سڑک پر جو کھیتوں کو بیچ سے کاٹتی ہوئی مین ہائی وے کے متوازی چلتی ہے ، فریم میں نمودار ہوتی ہے ۔ موسیقی کی دُھن اُبھرتی ہے اور ہورانیوا بلڈنگ کی طرف جاتے ہوئے آرکسٹرا کی گُونج میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کیمرہ سب کچھ ہی منظر میں سمونے کے لئے کرین پر بُلند ہوتا چلا جاتا ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply