قصہ حاتم طائی جدید۔قسط 11

اس روز اگر میں کیسٹوں کی بوری لینے کمالیہ نہ جاتا ، اور رستے میں بس خراب نہ ہوتی تو”عالیہ” سے میری کبھی ملاقات نہ ہوتی- لیکن اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا کہ آج میں راوی کنارے یہ آوازہ نہ لگا رہا ہوتا کہ”شادی کر دریا میں ڈال”۔۔ہوا یوں کہ اڈّہ موٹی کیکر پر بس ایک چیخ مار کے رکی اور گھنٹہ بھر رکی رہی- ڈریور ، کنڈکٹر ، ہیلپر اور سواریاں مل کر بس کی بیماری ڈھونڈنے میں مگن ہو گئے- اسی لمحے ایک گوری چِٹّی ماہ رُخ ہمراہ ایک قبول رُخ امّاں کے ، بس میں سوار ہوئی اور کپڑوں سے بھری گٹھڑی میری گود میں آن پھینکی- میں جو تین والی سیٹ پر پھیل کر بیٹھا ہوا تھا استغفار پڑھ کر سمٹا ، پھر جو پھیلنا شروع ہوا تو ماں بیٹی نے استغفار پڑھنی شروع کر دی-

کمالیہ تک اکھ مٹکّا جاری رہا- جودھرہ اسٹاپ پر میں نے ادھ پاؤ بیر خریدے اور امّاں کے حضور نذر پیش کیا- رجانہ آیا تو مجھے مرُنڈے کا ہدیہ پیش کیا گیا- کچھ سفر کے بعد وہ لوگ” پنڈ دھوبیاں”اترنے لگے تو پیچھے پیچھے میں بھی اتر گیا-
امّاں نے پوچھا پُتّر کتھے جانڑاں۔۔۔۔میں نے کہا امّاں جہاں جانا تھا پہنچ چکا ہوں- بزرگوں کی خدمت میرا شعار ہے اور اسی میں دوجہاں کی کامیابی ہے- پھر یہ کہانی گھڑی کہ ایک پرانے بیلی سے ملاقات کےلئے پنڈ دھوبیاں کی نیت باندھی تھی- راستہ معلوم نہیں- خدا نے سبب کیا ، صد شکر کہ قافلہ میسر آیا-یوں میں گٹھڑی سر پہ اٹھائے برابر دو کلومیٹر چلتا رہا- وہ لوگ گاؤں کو چیرتے ہوئے اپنے محلہ کے گھاٹ پر جا رکے- ماہ رُخ نے کپڑوں کی گٹھڑی میرے سر سے اتاری مگر پیار والی پنڈ ہمیشہ کےلیے رکھ دی-

چنانچہ دکان کو تالہ پڑا- ہر روز مونہہ اندھیرے مشکی صابن سے نہاتا ، تیل سرسوں سر پر جماتا ، اور کپڑوں پہ عطر پھلیل چھڑکاتا سیدھا پنڈ دھوبیاں پہنچ جاتا- پنڈ والے بھی حیران تھے کہ”دھوبیاں” میں کون سا ختم شریف ہو رہا ہے جو سائیں روز بھاگا چلا جاتا ہے- کسی کو میرے عشق کی خبر نہ تھی ، سوائے صادق سیکلوں والے کے-اڈہ پِنڈ دھوبیاں پر سائیکلوں کی دکان میرا پکّا”ٹھیّا” بن گئی- میں سارا دن صادق کے پاس بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا-ایک آنکھ سے کانا صادق دور اندیش بندہ تھا- اس نے میری حالتِ زار پر رحم کھایا اور مذکورہ گھرانے میں میرے رشتے کا پیغام بھجوایا- وہ لوگ بھی شاید کسی اچھّے جوائی کے انتظار میں ہی دُبلے ہو رہے تھے- چنانچہ جند جاننے والوں میں چھوارے بٹّے اور میں”شادی شدڑہ” ہو کر واپس ملاں پور آگیا-

گاؤں آتے ہی چچّا نے جائیداد سے عاق کر دیا کہ ذات کا کمہار اور دھوبیوں سے رشتے- ویسے بھی جائیداد میں ایک معمولی احاطے ، مٹی کے بھانڈے بنانے والی ایک بھٹّی اور ایک مریل کھوتے کے سوا تھا ہی کیا-مسجد سے ملحقہ ایک کوارٹر کرائے پر خالی تھا- مولوی صاحب نے عنایتاً مجھے بخش دیا- دکان کا تالہ کھُل گیا- یوں دن عید اور رات شبرات کی طرح گزرنے لگے- میرا ایک پاؤں کیسٹوں والی دکان میں ہوتا اور دوسرا زنان خانے میں- عالیہ بھی جی جان سے میری خدمت کرتی- اور یوں زندگی بڑے مزے سے کٹنے لگی-

Advertisements
julia rana solicitors london

پانچ چھ ماہ بعد ایک روز میں کیسٹوں کا نیا اسٹاک لینے کمالیہ گیا تو واپسی پر تاخیر ہو گئی- رات گئے میں ملاں پور پہنچا- ابھی گھر سے کچھ دور ہی تھا کہ مجھے ایک انسانی ہیولہ دکھائی دیا- میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہیولہ میرے گھر سے باہر نکلا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا-میں وہیں ٹھٹھک کر رک گیا-
جاری ہے۔۔۔۔
قسط10 کا لنک
https://mukaalma.com/article/ZAFARGEE/3958

Facebook Comments

ظفرجی
جب تحریر پڑھ کر آپ کی ایک آنکھ روئے اور دوسری ھنسے تو سمجھ لیں یہ ظفرجی کی تحریر ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply