• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جیوے جیوے پاکستان یا لہو لہو پاکستان۔۔۔۔۔مفتی اسد

جیوے جیوے پاکستان یا لہو لہو پاکستان۔۔۔۔۔مفتی اسد

برطانیہ کے ممتاز اخبار گارڈین نے پاک و ہند کی آزادی کے حوالے سے گزشتہ سال ایک نمایاں اداریہ سپر د قلم کیا تھا اس اداریہ کو گارڈین نے “مشترکہ تقدیر ” کا معنی خیز نام دیا تھا ۔آج کے دن 72 سال پہلے 14 اگست 1947 کو ملنے والی آزادی کا اخبار نے نتیجہ اخذ کیا کہ ہندوستان کی تقسیم ایک بھیانک غلطی تھی اس تاریخ کے نتیجے میں رونما ہونے سے منفی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ” بھارت کی تاریخ میں صرف ایک مرتبہ مسز اندرا گاندھی نے جمہوریت پر ایمرجنسی کے اوچھے ہتھیار کے ذریے حملہ کیا تھا جبکہ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں ہی کھوکھلی ہیں “۔۔۔۔

اخبار لکھتا ہے کہ بھارت ایک ایسی قوم ہے جو اس وقت بھی پوری انسانیت کا پانچواں حصہ تھے جب پاکستان اور پاکستانی ایک نو تشکیل مسلم قوم جس کا متمع نظر اور سوچ اسلامی دنیا میں نمایا ں ریاست بننا تھا ۔ ہندوستان کی تقسیم سوائے محمد علی جناح کے کسی کے لیے بھی کامیابی کی نوید نہ تھی جن کی زندگی کا مقصد ایک اسلامی ریاست کا خواب تھا جبکہ برصغیر میں قائم 26 اسلامی تنظیموں میں سے 23 اہم اور نمایاں اسلامی تنظیمیں نے جناھ اور اس کے پاکستان کی بھرپور مخالفت کی تھی ۔

اخبار لکھتا ہے آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی تعداد اسلامی جمہوریہ پاکستان سے زیادہ ہے ۔

جون 1943 کی بات ہے بروکلین نیویارک میں پروفیسر ڈی شوئی مین نے برصغیر کی تازہ صورتحال پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ “ساؤتھ ایشیا میں حال ہی میں “پاکستان “نامی ریاست عالم وجود میں آئی ہے ۔جس نے آتے ہی دو بلین ڈالر کا قرض امریکہ سے مانگ لیا ہے ۔یہ ریاست ایسے اندھے کنویں کی مانند ہے جس کی کوئی مثال نہیں   ملتی ۔اس کا وجود غیر محفوظ ہے جس کو وقت ثابت کردے گا۔ یہ ریاست نصف صدی سے بھی کم عرصے میں اپنے ہی لوگوں کی پیدا کی ہوئی مشکلات میں گھر جائے گا کہ اس ملک کے باشندوں نے غلامی کی زنجیروں میں جنم لیا ہے ۔وہ ایک آزاد مملکت کی محبت کو محسوس نہیں کرسکتے ۔مرے الفاظ نوٹ کر لیجئے ۔۔۔۔ میں ان کا اندرونی احوال جانتا ہوں ۔”

یہ پروفیسر ڈی شوئی مین کی پیشین گوئی بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی آواز کی طرح اس وقت درست ثابت ہوئی جب 11 دسمبر 1971 کو دو قومی نظریہ ،تین وقمی نظریہ میں بدل گیا ،۔اور کشور حسین شاد باد د ولخت ہوگیا ۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا ۔یہ واقعہ سانحہ،المیہ یا جو بھی تھا غیر جمہوری طرزِ سیاست ،غیر جمہوری طرزِ عمل اور غیر جمہوری دور میں رونما ہوا کہ اس مملکت خدا داد نے عوام کے حقوق اور جمہوری امنگوں کا احترام کرنے سے پہلے دن سے ہی انحراف کیا   تھا ۔

یہاں میں آپ کو اس ملک شاد باد کے ابتدائی دنوں کا ہولناک و شرمناک واقعہ سے روشناس کروانا چاہتا ہوں ۔قیام پاکستان کے فوری بعد جب مشرق اور مغربی پاکستان کے مختلف سیاسی جلسوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کے لامحدود اختیارات پر دبے دبے لفظوں میں سرگوشیاں شروع ہوئیں تو مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر چوہدری خلیق الزماں نے محمد علی جناح کو کرہ ارض کا سب سے عظیم رہنما قرار دیتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ ایک اسلام یریاست کت حاکم اعلی کو لازماً آمریت اختیار کرنی چاہیے ۔خلفائے راشدین مجلسِ شعوریٰ سے مشورہ ضرور کرتے تھے لیکن اس مشورے کو ماننے یا مسترد کرنے کا اختیار ان کے پاس تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں کے پاس بھی اس کا اختیار رہنا اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے ،اسلامی طرزِ حکومت میں آخری فیصلے کا اختیار اسمبلیوں کو سونپنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے”۔

چوہدری خلیق الزماں کا یہ مشورہ ان کے قد کے برابر تھا جبکہ میرے حساب سے محمد علی جناح نے کبھی اس بات کا تصور نہیں کیا ہوگا کہ مارچ 1940 کی قرار داد میں جن ” ریاستوں ” کا مطالبہ کیا گیا تھا وہ ہندوستان سے الگ یے جانے کے بعد جمہوریت ہی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی ۔ جسے انہوں نے پاسکتان کی اساس اور نشان امتیاز قرار دیا تھا ۔

سلور جوبلی ،گولڈن جوبلی،پلاٹینم جوبلی یا ڈائمنڈ جوبلی منا کر جہاں قوموں کو خؤشی ہوتی ہے وہیں انہیں گزرے ہوئے برسوں میں اپنی مجموعی کارکردگی دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے ۔برصغیر کے ماضی کے 71 برس کا اگر ہم تجزیہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان 72 برس ہونے کو آئے ان برسوں میں دونوں ملک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں لیکن پاکستان اس عرصے میں ہر شعبے میں تنزلی کی طرف ہی گی ہے۔نہ صرف ریلوے بلکہ پاکستان  میں  ہر گاڑی پٹڑی سے اتری ہوئی ہے ۔

گزشتہ 71سال میں پاکستان کی سیاسی ،اقتصادی ،معاشرتی،ثقافتی اور معاشرتی ترقی کا گراف اوپر سے نیچے اور بھارت کا گراف نیچے سے اوپر گیا ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ 25 برس پہلے تک پاکستان کا عام آدمی کہتا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم بھارت کی طرح بھوکے ننگے نہیں ،لیکن آج کا پاکستانی شہری کہتا ہے کہ ہم جمہوری اقتصادی اور سماجی لحاظ سے بھارت کی طرح کیوں نہیں ہوسکتے ؟کیوں نہیں بن سکتے ۔آج پاکستان میں نہ صرف اداروں میں بلکہ ملک کی پارلیمنٹ میں بھی بھارت کے حوالے دیے جاتے ہیں اور اس کی ترقی اور اپنی تنزلی کا مقابلہ کیا جاجاتا ہے ۔کتنی بدقسمتی ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جنرل درانی نے ایک انٹر ویو میں بھارت کو پاکستان کے لیے کئی حوالوں سے نمونہ عمل یا رول ماڈل قرار دیا ہے ۔جنرل درانی جو آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں نے کہا کہ بھارت جمہوری اور سیاسی اعتبار سے ہمارے ملک کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ،معیشت کے اعتبار سے ہمارے لیے نمونہ عمل ہے وہ سیکولرزم کے حوالے سے ہمارے لیے رول ماڈل نہیں بنا سکا ،اس کا سبب بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستا ن کو بھارت کی طرح کی سیاسی قیادت فراہم نہیں ہوسکی ۔سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں ہوسکی ؟

میرے حساب سے سیاسی قیادت ریاست کا سسٹم مہیا کرتا ہے ۔مانا کہ پاکستان کی تخلیق مذہب کے نام پر ہوئی ہے لیکن مذہب مارشل لا کا کیا تعلق ؟

یہ ایک طرح طے شدہ امر ہے کہ بھارت اور پاکستان کی سیاست کا بنیادی اہم ترین اور جوہری فرق ہے مارشل لا اور فوجی حکومتیں ۔۔۔۔ پیپلز پارٹی کا ایک دور حکوت جو طویل ترین ہے تین سال چار ماہ اور پندرہ دن پر مشتمل ہے،سول حکومت کا طویل ترین دورانیہ ہے جبکہ بھارت نے ایک بار بھی مارشل لا یا فوجی حکومت کی شکل نہیں دیکھی۔ اور ہم ہیں کہ پانچ مارشل لا بھگتا چکے ہیں ۔1958 سے آج تک جرنیل ہماری زندگی کا مرکزی کردار ہیں ۔میرے حساب سے پاکستان ،پاکستانی سیاست اور پاکستانیوں کا مقابلہ بھارت ،بھارتی سیاست یا بھارتیوں سے ہو ہی نہیں سکتا ۔بھارت میں جمہوریت ،سیکولرازم اور رواداری کے تسلسل نے بھارت کے اندر یہ استعداد اور انرجی پیدا کردی ہے کہ اس نے سیاست،صحافت،ثقافت کے علاوہ فلم ،تھیٹر ،ڈارامہ اور ٹی وی کو بھی قومی ترقی و اتحاد اور مخالف بدی کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔اسکے بر عکس پاکستانی ،مسلم معاشرہ جسے ایک معلومی ٹیلی ویژن تباہ کرسکتا ہے اس کے بارے میں آپ کیسے اور کیونکر خوش فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں ؟۔۔۔۔۔ آخر یہ سارے کمالات ” خود تو پیدا نہیں ہوگئے ہم نے بڑئے خلوص اور محنت سے اس ملک کو جہنم بنایا ہے ،یہ ہم نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرکے خدا کو خوش کرنے کی دیانتدارانہ کوشش کی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تقسیم ملک سے ابتک باقائدگی سے بھارت میں انتخابات ہورہے ہیں بھارت کا الیکشن کمیشن 89 کروڑ ووٹروں کے ہوتے ہوئے آٹھ لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر پورے ملک میں کامیاب اور شفاف انتخابات کا نعقاد کراتا ہے ۔انتقال اقتدار کے مراحل انتہائی خوش اسلوبی سے طے پاتے ہیں اس لیے آج بھارت کو پوری دنیا میں سب سے بڑٰا جمہوریت اور سیکولر ریاست کے طور   پر مانا اور جانا جاتا ہے۔  اس حقیت کو ایک لمحہ کے لیے بھی جھٹلایا  نہیں جاسکتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے بھارت کے پاس کہیں بڑی فوج ہے،ہر صوبے سے تعلق رکھنے والے فوجی خدمات انجام دے رہے ہیں ،اس کے باوجود آج تک  کسی طالع آزما نے بھارت میں نہ شب خون مارا ہے نہ سیاست میں دخل اندازی کی ہے اور نہ ہی مارشل لا لگایا ہے ۔اس کے برعکس ہمارے جرنیل گزشتہ آدھی صدی سے قوم کی تقدیر کو فٹ بال بنا کراس سے کھیل رہے ہیں بھارت تقسیم ملک کے بعد سے خوش قسمت رہا ہے (اور یہ خوش قسمتی اس کی جمہوریت اور سیکولرازم لایا ہے ) کہ اس کے پاس اقتدار اور مال و دولت کے حریص جرنیل کرنیل نہیں ہیں ۔ہمیں گزشتہ 71 برس سے خلائی مخلوق اور بھارت کو جمہوریت مبارک ہو

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply