اِتِّی ذرا سی محبت۔۔۔۔شکور پٹھان

یہ گاؤں نہیں تھا لیکن گاؤں ہی لگتا تھا۔۔۔۔۔

یہ شہر کاحصہ تھا لیکن ماحول پر دیہاتی رنگ غالب تھا۔ یا شاید ہمیں یوں ہی لگتا تھا۔ ہم اس سے پہلے بہارکالوںی جیسی گنجان آبادی میں رہتے تھے۔ جہاں دومنزلہ مکان بھی تھے بلکہ ہمارے محلے میں ایک گھر تو سہ منزلہ بھی تھا۔ پھر یہ چاکی واڑہ، لی مارکیٹ ، کھڈہ، کھارادر سے ہوتا ہوا ٹاور، بندر روڈ سے لیکر صدر تک شہر سے جڑا تھا اور ہم صدر یا بندر روڈ جاتے تو کہتے کہ صدر یا بندر روڈ جارہے ہیں۔

لیکن کورنگی کے ہمارے نئے محلے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ صدر جار رہاہوں۔ وہ چاہے صدر جارہے ہوں ، بندر روڈ یا ٹاور، کورنگی والے ہمیشہ کہتے کہ ” شہر ‘جارہا ہوں”.

اور سب سے بڑا فرق زبان کا تھا۔ بہار کالونی میں ہمارے پڑوسی کانپور کے تھے اور ہم بچے خود کو’ ہم ، بڑوں کو آپ اور برابر والوں کو تم کہہ کر مخاطب کرتے۔ دوسرے پڑوسی بھی بہاری، حیدرآبادی، بوہری ، خوجہ اور میمن تھے۔ لیکن یہاں کورنگی میں ہمارے دائیں بائیں جانب والے پڑوسی جوآپس میں رشتہ دار بھی تھے، دہلی کے مضافات کی زبان بولتے، یا یوپی کے ” بھیا” تھے۔ یہاں بچے ایک دوسرے کو ابے یار کر کے مخاطب کرتے۔ ‘تم ‘صرف بڑوں کے لئے تھا۔ آپس میں ‘تو ‘یا اہے کہہ کر بات کرتے۔ “کیا کرریا ہے،” “کہاں جا ریا ہے ۔”۔” اری سنیو، ” ۔۔۔یہ لہجہ ہمارے لئے بالکل اجنبی تھا۔

یہ سن باسٹھ کی بات ہے ہم اپنے ماموں کی شادی میں شرکت کے لئے بمبئی گئے اور واپس آنے سے پہلے ابا نے کورنگی چار نمبر پر کوارٹر کرائے پر لے لیا تھا۔ بمبئی جاتے ہوئے بہار کالونی سے کیماڑی تک تانگے پر گئے تھے اور پورا راستہ چاروں طرف مکانوں، دکانوں اور بازاروں سے گھرا ہوا تھا۔
لیکن جب واپس آئے تو کالے پل اور آغا خان کی ٹیکڑی کے بعد سے پورا راستہ چٹیل میدان تھا اور یوں لگتا تھا کہ ہم کسی اور ہی دنیا میں جارہے ہیں۔ ہماری ٹیکسی کے سوا اکّا دکّا بس یا ٹرک نظر آتے۔ کورنگی تب بھی اتنا ہی دور تھا جتنا اب ہے لیکن یوں لگتا تھا کہ یہ راستہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔
پھر یہاں بھی بس اسٹاپ سے کافی دور کوارٹروں کا سلسلہ تھا۔ اور ہماری گلی اس سلسلے کی سب سے آخری گلی تھی جس کی پشت پر، گندی گلی کے پیچھے کوارٹروں کی ایک اور لائن تھی لیکن اس کے سامنے کھلا میدان تھا جو کورنگی دو نمبر تک چلا جارہا تھا جہاں کچھ سال بعد ہم جا کر بسنے والے تھے۔
ہماری ایف ایریا والی گلی میں ہمارے گھر کے دائیں جانب سے جہاں گلی ختم ہوتی تھی وہاں سے میدان کا ایک اور سلسلہ شروع ہوتا جس کے درمیان ایک پکی سڑک تھی جو شاید آگے چل کر، لانڈھی سے ہوتی ہوئی نیشنل ہائی وے کہلاتی تھی۔ سڑک کی پرلی جانب کچھ ہٹ کر ‘ جی’ ایریا تھا جو پانچ نمبر کورنگی تک چلا جاتا تھا۔ لیکن جی ایریا سے پہلے کوئی آبادی نہیں تھی اور اگر آپ یہاں سے سیدھے چلتے چلے جائیں تو سمندر کنارے پہنچ جائیں جس کے اگلے کنارے پر ہندوستان تھا۔
اور یہ کوارٹر بھی عجیب سے تھے۔ بہار کالونی میں کچّے صحن کسی گھر میں نہیں دیکھے تھے۔ گھر بھی زیادہ تر تنگ تنگ سے ہوتے تھے۔ لیکن یہ کوارٹر تو ہمیں فٹبال کا میدان معلوم ہوتے۔ داخلی دروازے کے ساتھ ایک کمرہ جس میں دروازہ نہیں تھا۔ کمرے کے ساتھ کُھلا کچّا صحن اور صحن کے ایک جانب باورچی خانہ، غسلخانہ اور بیت الخلا تھے اور ان میں کسی میں دروازہ نہیں تھا۔ سارے کوارٹروں کا یہی نقشہ تھا اور کسی میں بھی داخلی دروازے کے علاوہ اور کوئی دروازہ نہیں تھا۔ پردہ داری اور دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ گھروں میں ٹاٹ کے پردے نظر آتے۔ چند ایک گھروں میں بانسوں اور ٹاٹ سے مزید کمرے بنا دئے گئے تھے لیکن پکا سمنٹ کا کمرہ کہیں نہیں نظر آتا۔
یہاں اجنبیت کا شدید احساس ہوا۔ امی رونے لگیں کہ یہ کہاں اجاڑ بیابان میں گھر لے لیا۔ گھر میں سامان بھی بہت ہی مختصر تھا۔ ابا کچھ سامان تو بہار کالونی والے گھر سے لائے تھے، کچھ نیا لیا تھا جو اجنبیت اور بڑھا دیتا کہ گھر میں برسوں سے پرانی چیزیں ہی دیکھتے آئے تھے۔

بہار کالونی میں درمیانی اور غریب طبقے کے لوگ تھے لیکن زیادہ تر پڑھے لکھے تھےاور دفتروں میں کام کرتے تھے۔ یہاں کورنگی میں ہمارے آس پڑوس میں زیادہ تر غریب راج مزدور، ریلوے میکینک، ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے تھے اور گلی کے کونے میں دو تین کوارٹر گوالوں کے تھےجن کے گھر کے باہر ایک گھوڑا بندھا ہوتا، جو اس گاڑی میں جوتا جاتا تھا جس میں ڈرم رکھ کر دودھ دوسرے علاقوں میں پہنچایا جاتا تھا۔
لیکن ایک دو دن میں ہی یہ اجنبیت دور ہوگئی۔ پڑوسیوں نے یہ نیم تعلیم یافتہ خاندان دیکھا جہاں خاتون خانہ ساڑھی باندھے ہوتی، بچیاں فراکوں میں ہوتیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان راج مزدوروں میں سے کچھ نئی آباد ہوتی ہوئی کورنگی کے ان کوارٹروں یا مارکیٹوں میں کام کرتے تھے جن کا ٹھیکہ ابا کی کمپنی کے پاس تھا، ابا یہاں ملازم تھے اور مارکیٹ کی تعمیر کے کام کی نگرانی کرتے تھے ۔ یہ مزدور ابا کی بڑی عزت کرتےاور ہمارے گھر کے کام بلا اجرت لیکن بڑے شوق سے کرتے۔
اور بچوں کو بھلا گھلنے ملنے میں کیا دیر لگتی ہے؟ کچھ ہی دنوں بعد محلے کے لونڈوں کے ساتھ پتنگیں لوٹتا، گلی ڈنڈاکھیلتا یا پھر غلیل سے چڑیوں کا شکار کرتا نظر آتا۔ یہ اور بات ہے کی کبھی کوئی چڑیا میرا نشانہ نہ بن سکی۔

یہ سارے گھر ایسے ہی تھے سوائے ہمارے سامنے والے دو گوارٹروں کے۔ یہ ایک ہی خاندان کے کوارٹر تھے۔ایک حصہ شاید مجلسوں کے لئے تھا کہ ادھر محرم کی آمد ہوئی اور بیبیوں نے امام کا غم بڑھایا ادھر ہمارے سامنے والے گھر سے نوحوں اور مرثیوں کی دلدوز اور دلسوز آوازیں آنے لگتیں۔

اس سے پہلے رمضان میں یوم شہادت علی پر علم کا جلوس یہاں آکر ختم ہوا۔جلوس کے ساتھ گیس کے ہنڈے تھے۔ رات کا وقت تھا اور ہم اپنے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے جلوس کو ملاحظہ کررہے تھے کہ ایک نوجوان جلوس سے ہٹ کر ہماری طرف آیا اور ابا کو سلام کیا۔ابا کو اسے پہچاننے میں کچھ دیر لگی کہ گلی نیم تاریک تھی ۔ یہاں بجلی نہیں تھی البتہ گیس کے ہنڈوں نے پہلی بار یہاں رات کے اندھیرے کو بھگا دیا تھا۔
یہ نوجوان بہار کالونی میں ابّا سے نویں جماعت کا ٹیوشن پڑھنے آیا کرتا تھا۔ ابّا اسے اندر لے آئے۔ امی نے چائے بنائی۔ نوجوان کچھ دیر ابّا سے باتیں کرتا رہا پھر سامنے والے گھر میں مجلس میں چلا گیا۔
ہمارے سامنے والا یہ گھر واحد گھر تھا جس کے سامنے گیلری بنی ہوئی تھی۔ اندر بھی بہت سے کمرے بنے ہوئے تھے۔ یہ محلے کا خوشحال ترین گھرانہ تھا۔ محلے کے دوسرے گھروں میں لالٹینیں اور مٹی کے دئیے جلتے تھے۔ اس گھر میں گیس کی بتی جلتی تھی جو بجلی کی روشنی جیسی لگتی۔
لیکن یہ اس گھر کے مکین تھے جو اس گھر کو دوسروں سے ممتاز بناتے تھے۔ ان کے تین لڑکے تھے، حسنین، ثقلین اور سبطین اور تینوں بڑے ہی سرخ و سفید اور چندے آفتاب تھے۔ یہ اس محلے کے دوسرے لڑکوں سے یکسر الگ تھے۔یہ تینوں زیادہ تر آپس میں ہی کھیلتے، محلے کے دوسرے لڑکے یا تو مرعوبیت کا مارے ان کے قریب نہیں جاتے یا پھر ان لڑکوں کو گھر والوں کی طرف سے منع تھا کہ محلے کے لونڈوں سے دور رہیں جو ابے تبے سے بات کرتے اور آپس میں گالی گلوچ کرتے نظر آتے۔

مجھے نہیں یاد کہ کیا وجہ ہوئی لیکن ثقلین سے میری دوستی ہوگئی۔ حسنین ہم سے بڑا تھا اور سبطین میری چھوٹی بہن جتنا تھا۔ ثقلین کے ساتھ کھیل کود کم ہوتا البتہ پڑھائی کی بات زیادہ ہوتی۔
میں اس وقت اپوا بوائز اسکول کورنگی چار میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ باجی بھی اپوا گرلز اسکول میں تھیں جو پانچ نمبر پر کورنگی تھانے کے سامنےتھا۔

اور یہ دن تھے جب مجھے زندگی میں پہلی اور آخری بار محبت ہوئی۔

ان بھائیوں کی ایک چھوٹی بہن تھی جو سبطین سے بھی چھوٹی تھی۔ شاید چھ یا سات سال کی۔ یہ کبھی کبھار میری بہنوں کے ساتھ کھیلتی نظر آتی۔ نام اس کا شاید’ افروز’ تھا۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن وہ ‘ افروز’ ہی لگتی تھی۔
میں ساڑھے آٹھ یا نو سال کا گول مٹول سا تھا جس کی اکثر محلے کے لڑکوں سے لڑائی ہوتی جب وہ مجھے ” موٹا آلو پلپلا’ کہہ کر چھیڑتے۔ میں موٹا نہیں تھا لیکن آس پاس کے دبلے پتلے ، سیاہی مائل اور ناک پوچھتے لڑکوں کے مقابلے میں بہتر صحت رکھتا تھا۔ ناک تو خیر میری بھی بہتی رہتی جسے ہم ہاتھ کی پشت سے یا قمیض کی آستینوں صاف کرتے رہتے۔
اور وہ قصہ کچھ یوں ہے کہ ان دنوں ایک ہنڈولے والا محلے میں آیا ہوا تھا۔ یہ ہنڈولا یا جھولا آپ نے میلوں ٹھیلوں میں دیکھے ہونگے جسے جھولے والا ہاتھ سے چلاتا رہتا ہے اور آپ زمین سے فضا میں گول چکر میں اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔
امّی سے دوپیسے لیکر میں بھی اس عیاشی میں شامل ہونے کیلئے ایک ہنڈولے میں بیٹھا تھا جہاں ایک اوربچے کی گنجائش تھی۔ جھولے والا اور بچوں کا انتظار کررہا تھا کہ تعداد پوری ہو اور وہ چکر دینا شروع کرے۔
میری جیب میں دوپیسے اور تھے،امی نےایک آنہ دیا تھا کہ دوپیسے واپس لاکر ان کے حوالے کروں۔ ان دنوں جب سارے دن میں صرف دوپیسے جیب خرچ ملتے تھے، یہ اضافی دوپیسے ایک بہت بڑی عیاشی تھی۔
میرا ہنڈولا نیچے کی جانب تھا کہ مجھے قریب ہی افروز کھڑی نظر آئی جو حسرت سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اسے شاید گھر سے پیسے نہ ملے ہو ں، یا شاید وہ بعد میں اپنی کسی سہیلی کے ساتھ بیٹھنے کا انتظار کررہی ہو۔

میں نے پہلی بار افروز کو اتنے قریب سے دیکھا تھا، اس کے چہرے کے نقوش یاد نہیں صرف چہرے کی گلاب میں گھلی سفیدی ، سرخ ہونٹ اور ہلکے سنہری بال یاد ہیں۔
افروز سے میری نظر ملی اور بے ساختہ ” تم بیٹھو گی ؟ ” کہہ کر میں نے اسے ہنڈولے میں بیٹھنے کی دعوت دی۔ میں نے اپنی مٹھی میں دبے دوپیسے اسے دکھائے اور بھول گیا کہ یہ امی کو واپس کرنے ہیں۔
افروز منہ سے کچھ نہ بولی بس ہلکی سی گردن ہلا کر منع کیا لیکن ایک خفیف سی شرمیلی سی مسکراہٹ کہہ رہی تھی کہ اس نے جھولے میں بیٹھنے سے انکار کیا ہے لیکن میری دعوت کا برا نہیں مانا ہے۔

محبت کی جو لہر میرے دل سے چلی اور افروز کی مسکراہٹ تک پہنچی ، بمشکل چند سکنڈ رہی ہوگی۔ اتنے میں جھولے والے نے جھولا شروع کردیا اور میں مزے سے جھونٹے لینے لگا۔ تین چار منٹ بعد جب میں نیچے اترا تو افروز وہاں نہیں تھی۔ ایک لمحے کے لئے مجھے اس کا خیال آیا پھر میں ایک لڑکے کے ساتھ پہیہ چلاتا گلی سے باہر چلآگیا۔ افروز اس کے بعد شاید زندگی میں چند ہی بار یاد آئی ہو لیکن اگر کبھی زندگی میں کسی کو یوں اچانک ، دل سے چاہا اور اظہار محبت بھی کر ڈالا وہ یہی چند لمحے کی محبت تھی۔

لیکن یہ اِتّی ذرا سی، چٹکی بھر، پل بھر کی محبت ، لگتا ہے سارے جیون پر چھا گئی ہو یا سارے سنسار کو اپنی باہوں میں جکڑ گئی ہو۔ یہ محبت من کے کسی کونے کھدرے میں پڑی رہتی ہے ۔ یہ محبت اگر ایک بار اپنی چھب دکھلا جائے تو پھر من سے کہیں جاتی نہیں۔ اس کا روپ من کے کسی جھروکے میں چھپا رہتا ہے لیکن جب کبھی زندگی کی دھوپ جلانے لگتی ہے تو یہ بادل بن کر ٹھنڈا سایہ بن جاتی ہے۔ جب صرصر کے جھونکے جی کو متلانے لگتے ہیں یہ ٹھنڈی پھوار بن کر مکھڑے کو چومتی ہے۔ جیون کی کٹھنائیں جب کانٹا بن کر چبھتی ہیں تو یہ پھول بن کر زندگی کے دئےگھاؤ سہلاتی رہتی ہے۔

یہ محبت ہے تو زندگی ہے، اگر زندگی میں محبت نہیں ہے تو پھر یہ زندگی اس دئیے کی مانند ہے جس میں تیل اور باتی تو ہے مگر روشنی نہیں۔
یہ محبت جو فاتح عالم ہے زندگانی کی سب سے بڑی نعمت، سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یہ محبت راہ کی ٹھوکریں، پاؤں کے آبلے سب بھلا دیتی ہے، یہ جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہ درد محبت ہی ہے جو مرنے کے غم کا احساس دلاتی ہے تو جینے کا مزہ بھی سکھاتی ہے اور وہ جو کسی نے کہا ہے ناں کہ

عجب چیز ہے یہ محبت کی بازی
جو ہارے وہ جیتے، جو جیتے وہ ہارے

محبت جو پانیوں میں آگ لگاتی ہے تو آگ کو گلزار بنا دیتی ہے۔ اسے جتنا لٹاؤ یہ دوگنی چوگنی ہوتی جاتی ہے۔ یہ کچھ نہیں دیتی محبت کے سوا اور لیتی ہے تو صرف محبت۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کے دل میں بھی یہ محبت کہیں چھپی بیٹھی ہوگی۔۔یہ ہر دل میں کہیں نہ کہیں ضرور ہوتی ہے۔
یہ نہ ہوتی تو پھر یہ جگ یہ سنسار بھی نہ ہوتا۔ اک ذرا گردن جھکائیں اور دیکھیں یہ چٹکی بھر ذراسی، پل بھر کی محبت کہاں چھپی بیٹھی ہے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply