فرد اور اجتماعی شعور کی معراج ۔۔۔۔عمران بخاری

فلسفے کی ایک بنیادی بحث یہ ہے کہ کسی بھی شے کی تخلیق بے مقصد نہیں ہوتی اور کوئی بھی تخلیق تب تک وجود پزیر رہتی ہے جب تک کہ اُس کی وجہِ جواز قائم رہے۔ مثال کے طور پر کار کا مقصدِ تخلیق انسان کو سواری کی سہولت میسر کرنا قرار ٹھہرا۔ جب کوئی شخص کار خریدتا ہے تو اسی سہولت کو پیشِ نظر رکھ کر ہی خریدتا ہے۔ اب جب تک وہ گاڑی اپنے سوار یا مالک کے مقصد کو پورا کرتی رہے گی تب تک استعمال میں رہے گی۔ جس دن اس گاڑی نے اپنے مالک کو مجوزہ سہولت دینے سے انکار کیا اُس دن اُس کا مالک اُس گاڑی کو ترک کر کے کوئی نئی سواری خرید لائے گا۔ یہی فلسفہ جدید عمرانیات میں فنکشنلزم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس فلسفے کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ وہ اقدار، رسومات یا قوانین جو اپنے وقت کے لوازمات سے ہم آہنگ نہ رہیں انہیں معاشرہ ترک کر دیتا ہے اور اُس کی جگہ نئی اقدار، رسومات اور قوانین معرضِ وجود میں آتی ہیں۔

اسی فلسفے کو قرآن سورۃ اٰلِ عمران میں یوں بیان کرتا ہے کہ “اے میرے رب تو نے کوئی چیز بھی بے مقصد تخلیق نہیں کی”۔ چونکہ یہ عمرانی اصول مسلمّ ہے تو اِس سوال کا پیدا ہونا عین فطری تھا کہ پھر بنی آدم بھی تو ایک تخلیق ہے۔ تو اِس تخلیق کا مقصدِ وجود کیا ہو گا؟ جب انسان نے خالص عقل کی بنیاد پر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی تو اپنی عقلِ محض کو اپنے حواس کا محتاج پایا۔ ہر دور میں عقلِ محض کی بنیاد پر طرح طرح کے مقاصدِ تخلیق بیان ہوئے۔ انسان انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی کے دائرے میں داخل ہوا تو سماج وجود میں آیا۔ سماجی یا عمرانی ترقی کی انتہا پر پہنچ کر انسان آج جس جواب پر پہنچا ہے وہ ہے “نوعِ انسانی کی خدمت”۔ اگر میں یہ کہوں کہ انسان اپنے عمرانی ارتقاء سے منزل بہ منزل آج جس نتیجے پر پہنچا ہے اِس سے آگے بس ایک ہی منزل رہ گئی ہے حقیقت تک پہنچنے کی تو غلط نہ ہو گا۔ ہاں اگر انسان اسی منزل کو ہی آخری منزل سمجھ بیٹھے تو یہ بہت بڑی ٹھوکر اور گمراہی سے کم نہ ہو گا۔ اور حقیقتِ حال یہی ہے کہ آج کے جدید انسانوں کی اکثریت اسی منزل پر ہی اکتفا کیے بیٹھی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے جس سے آج کی نوعِ انسانی دوچار ہے۔

سوال یہ ہے کہ میں اِس نتیجے کو المیہ کن معنوں میں کہہ رہا ہوں؟ اس المیے کی حقیقت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس المیے کی بنیاد تک پہنچا جائے۔ اور وہ بنیاد ہے وجودِ انسانی کی اصل حقیقت۔ وجودِ انسانی مرکب ہے تین اجزاء کا۔ روح، جسم اور شعور۔ انسانی جسم کا منبعِ تخلیق یہی زمین ہے اور روح امرِ رب ہے۔ یہ اللٰہ کی طرف سے آئی ہے۔ جسم چونکہ مادہ سے تخلیق پایا ہے تو اس کی تمام ضروریات بھی اسی مادی کائنات سے ہی وابستہ ہیں۔ چنانچہ انسان کے جسمانی یا حیوانی وجود کا اس دنیا کی طرف رغبت رکھنا عین فطری ہے۔ اسی طرح روح چونکہ اللٰہ کی طرف سے آئی ہے تو اس کی ضروریات یا غذا بھی اس عالم سے وابستہ ہیں جہاں سے یہ آئی ہے۔ چنانچہ روح کا فطری رجحان بھی اللٰہ ہی کی طرف ہو گا۔ اسی لیے بیان ہوا کہ “آگاہ ہو جاؤ کہ دلوں کو اطمینان اللٰہ کے ذکر سے ملتا ہے”۔ ان دو اجزائے وجودِ انسانی کے درمیان ایک کشمکش ہمیشہ برپا رہتی ہے۔ روح انسان کو اللٰہ کی طرف کھینچتی ہے اور جسم دنیا کی طرف۔ ان دو وجودوں میں سے کس کی بات مانی جائے گی اور کس کی رد کی جائے گی، اس کا فیصلہ شعورِ انسانی کرتا ہے۔ عقل انسان کے جسمانی وجود کی ہی ایک فیکلٹی ہے۔ اس کا منبع انسانی تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ اس لیے اسے شعور سے کنفیوز نہیں کرنا چاہئیے۔ عقل کا تعلق آگاہی سے ہے اور شعور کا تعلق تسلیم سے ہے۔ یعنی عقل کی بنیاد پر آپ کسی شے کی حقیقت سے آگاہی تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ انسانی شعور کرتا ہے۔

یہ شعور ہی دراصل وہ “میں” ہے جس کے گرد اقبال کا تصورِ خودی گھومتا ہے۔ یعنی یہ روح “میری” روح ہے اور یہ جسم بھی “میرا” جسم ہے۔ اور “مجھے” ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی روح کی مقتضیات تسلیم کرنا ہیں یا جسم کی۔ ~

روح تیری ہے جسم بھی تیرا

کھوج اپنی لگا کہ تو کیا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

انسان سے جو سوال پوچھا جانا ہے وہ اسی اختیار کا ہے جس کی بنیاد پر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اس نے اپنا رُخ روح کی آواز سن کر اپنے رب کی طرف موڑا یا اس حیوانی وجود کی آواز سن کر دنیا کا بندہ بننے کو ترجیح دی۔ اگر اس کا رخ محض دنیا ہی کی طرف مڑ گیا تو مقصدِ تخلیق کا جواب وہی نکلے گا جو اوپر بیان ہو چکا۔ عقلِ محض یہیں تک ہی پہنچا سکتی ہے۔ اور اگر محض روح کی مقتضیات کے پلڑے میں سارا وزن ڈال دیا جائے تو نتیجہ ترکِ دنیا یا رہبانیت ہو گا۔ شعورِ انسانی کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ انسان بظاہر ایک دوسرے کی ضد دکھائی دینے والی ان دونوں حقیقتوں کو یکجا اور ہم رنگ کر دکھائے۔ جب تک انسان اپنے اندر موجود اس تضاد کو ہم آہنگی اور یکسوئی سے تبدیل نہیں کر لیتا تب تک اسے اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اطمینان کی اس جستجو اور سفر کا پہلا ہدف یا پڑاؤ انسان کی اپنی ذات میں موجود تضاد کو ہم آہنگی اور یکسوئی میں تبدیل کرنا ہے لیکن اس سفر کا آخری ہدف یا تکمیل تبھی حاصل ہوں گے جب فرد اور اجتماعیت میں بھی یہ تضاد ختم کر دیا جائے۔ وہ نظام عدم پزیر ہو جائیں گے جو فرد اور اجتماعیت کے اس تضاد کو دور نہیں کریں گے۔ آج دنیا ظلم اور بربریت کی جس چکی میں پس رہی ہے اس کی وجہ ہی یہی تضاد ہے۔ نوعِ انسانی انفرادی اور اجتماعی سطح پر امن اور اطمینان حاصل کر ہی نہیں سکتی جب تک کہ عالمِ امر اور عالمِ خلق یکجا نہ ہو جائیں۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply