• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ‘سوشل میڈیا دو دن آخر کیسے کر لیتی ہیں؟’۔۔۔۔سیدہ فاطمۃ الزہرہ

‘سوشل میڈیا دو دن آخر کیسے کر لیتی ہیں؟’۔۔۔۔سیدہ فاطمۃ الزہرہ

 

مجھ سے بہت لوگ اس قسم کے سوال کرتے ہیں، سوشل میڈیا کی ایڈیکشن کیسے کنٹرول کرتی ہیں؟ کس طرح صرف دو دن استعمال کرتی ہیں میں نے کوشش کیا مجھ سے نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ۔

مجھے ان سب سوال کا ایک ہی جواب لگتا ہے وہ یہ کہ اپنے دماغ (برین) کو سمجھ کہ اگر چیزیں کرنے کی کوشش کی جاۓ تو پھر گیمز کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دماغ کے ساتھ ٹیم اپ ہو کہ پھر زندگی میں کوئی تبدیلی لائی جاتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ مجھے اس چیز کی کبھی ایڈیکشن تھی ہی نہیں۔ سال پہلے سوشل میڈیا سے ضروررتاً شناسائی بڑھائی مگر اس نے کبھی زندگی کی ذاتیات میں اتنا دخل نہیں دیا۔
سوشل میڈیا ہو جنک فوڈ ہو کچھ بھی چھوڑنا ہو سب سے پہلا کام یہ ہے کہ جانا جاۓ کہ وہ چھوڑنا کیوں مشکل ہو رہا ہے۔ بے شک سیلف کنٹرول سے سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے مگر پیٹرن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے بعد متبادل یعنی substitutionڈھونڈیں۔
میری سمجھ کے مطابق سوشل میڈیا پہ جس جس کو ایڈیکشن ہے ان سب کے ایڈیکشن ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ دیکھیں آپ کس گروپ میں آتے ہیں ۔
۱- سوشل میڈیا اور فیس بکی دانشور
مثال کے طور پہ یہ جو اینٹیلیکچول طبقہ ہے، جو علمی پوسٹیں کرتے ہیں، ان کو سوشل میڈیا نے اس طرح سے اپنا اسیر کیا ہوا ہے کہ جب ان کے دماغ میں کوئی نیا آئڈیا آیا یا کوئی بات آئی، اب اور تو کوئی پوچھ نہیں رہا کہ what’s on your mind؟ سو فوراً سے فون اٹھا کر سوشل میڈیا پہ قابلیت جھاڑ دی جاتی ہے۔ پھر جو واہ واہ کرتے کومنٹس ہوتے ہیں حتی کہ جو لوگ آگے سے سوال کرتے ہیں اس پہ بھی اچھی بھلیintellectual stimulationہوتی ہے اچھے ہارمونز باڈی میں ویسا ہی اثر کرتے ہیں اور یوں نشے کی طرح بار بار یہ کیفیت محسوس کرنے کا دل کرتا ہے۔
پھر کچھ ہیں جو پوسٹیں وغیرہ نہیں کرتے مگر وہ ‘علم کے شیدائی’ ہیں۔ ان حضرات کو جب بھی کچھ ‘اچھا پڑھنے’ کی ہڑک اٹھے گی یہ بھی فوراً سے فیس بکی دانشوروں کے پروفائلز پہ حاضری دینے پہنچ جایئں گے۔۔۔ وہ وقت جب پہلے کہیں باہر جاتے وقت کتاب ہاتھ میں ہوتی تھی اب موبائل فون کافی ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس میں آخر مسلہ کیا ہے؟ لکھنا پڑھنا دو بہت اچھے کام ہیں پھر اس کی ایڈیکشن بری چیز ہے کیا؟
اس کا جواب جو مجھے اب تک سمجھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں بہت اچھے کام ہیں مگر ان کا مزاج گیجیٹس کے مزاج سے نہیں ملتا۔ سوشل میڈیا اور گیجیٹس اس کام کے لیے نہیں بناۓ گۓ اس لیے ‘علم’ کے حصول کی نیت کر کے دن رات سوشل میڈیا ایکٹوسٹ بن کر انقلاب لانے کی کوشش ایسے ہے جیسے سلائیڈ پہ بیٹھ کہ کھانا کھایا جاۓ۔ اب کھانا کھانا بہت ضروری ہے صحت کے لیے مگر سلائیڈ پہ جھولتے ہوۓ کھائیں گے تو حلق میں پھنسے گا اور الٹی بھی آنے کا اندیشہ ہے۔
بس یہ ہی کہ اس کو اتنا استعمال کریں کہ یہ آپ کو استعمال نہ کرنے لگ جاۓ۔جو اس میری گو راؤنڈ سے باہر نہیں آ پاتے وہ سمجھتے ہیں ان سے کنٹرول نہیں ہوتا ایسی بات نہیں ہے۔ وہ صرف اس پراسیس کو سمجھیں اور اگر اس سے بچنا چاہیں یا سوشل میڈیا کے وقت کو لمٹ کرنا چاہیں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ متبادل ڈھونڈیں۔ اس سائیکل کوپہچانیں ، پھر اس کو ریپلیس کریں۔ پڑھنے کا شوق ہے کتابیں ساتھ رکھیں۔۔۔لکھنے کا شوق ہے قلم اور کاغذ ساتھ رکھیں۔ (اور اگر قلم کو داد رسی کی طلب ہے تو پھر یہ تو ایک دوسرا بڑا مسلہ ہے اس کا علاج ہونا چاہے)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل ذوق سے اپنی تحاریر شییر کرنے کا دل کرتا ہے اور کوئ ہائڈ پارک نہیں بنے ہوۓ جہاں انسان دل کی بھڑاس نکال سکے یا اپنا آرٹ ہی دکھا سکے بہت بڑے وجہ ہے کہ اس لیے لوگ فیس بک سے جڑے ہوۓ ہیں کیونک یہ وہ ضرورت پوری کرتا ہے ایک آئڈیینس دیتا ہے مگر اس کے لیے ہمیں کلب بنانے چاہیے۔ رائٹرز کلب آرٹسٹس کلب وغیرہ۔

۲-سیلفی طبقہ
پھر ہمارے پاس ایک طبقہ ہے جو اپنی سیلفیز اور کھانے کی تصویریں اپ لوڈ کرتا ہے۔ یہ ہی طبقہ چیزوں کو وائرل کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔ اب یہ وہ لوگ ہیں جس دن رات کچھ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ کچھ لوگوں کے سامنے کچھ اپنے آپ کے سامنے۔ اب اس میں سیم سائیکل ہے۔ تصویریں اپ لوڈ کر کے لائکس آتے ہیں کومنٹس آتے ہیں اس سے ‘اچھا’ محسوس ہوتا ہے۔ بار بار دل کرتا ہے اس کیفیت کو محسوس کیا جاۓ۔ اس طرح سوشل میڈیا اپنے شکنجے میں قید کر لیتا ہے۔اور پکچرز اور تعریفیں اور رش!
اور اسی طرح کئ بار کوشش کرنے کے باوجود ان کو سمجھ نہیں آتی کہ ‘سوشل میڈیا’ کیسے کم کیا جاۓ۔ یہاں بھی اس چیز کو پہچاننے کی ضرورت ہے
۳- گھوسٹ طبقہ (ghost )
یہ طبقہ سب سے بڑا ہے اور مارک زکربرگ کو ان کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس کی روزی روٹی انہی سے چل رہی ہے۔ یہ لکھتا ہے نہ پڑھتا ہے تصویریں اپ لوڈ نہیں کرتا کہیں کومنٹ نہیں کرتا کبھی کبھار سٹیٹس دے دیا جیسے ‘عید مبارک اور کوئی مشہور قول یا شعر
اس کے علاوہ یہ گھوسٹ قبیلہ ہے۔ یہ کچھ نہیں کرتا صرف دیکھتا ہے۔ گھات لگا بیٹھا ہوا ہے۔ ہر بیگانے شادی میں دیوانہ ہوا یہ عبد اللہ ہے۔ اس کی ہر طرف نظر ہے اور ذہن میں یہ ہی آتا ہے کہ اس کو ایڈیکشن نہیں ہونی چاہیے مگر نہیں جناب اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔ اس طبقے کو ‘دیکھنے’ کی ایڈیکشن ہے۔ یہ بس بے شمار اپنے پراۓ سب لوگوں کو ‘دیکھتا’ ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کو سب پتا ہے کون سا ٹرینڈ گیا کون سا آیا کس کے سٹیٹس میں کون سی گرائمر کی غلطی تھی اور کون سی سپیلنگ مسٹیک۔ ان سب کو لگتا ہے کہ یہ بھی ‘فیس بک پہ ہیں’ حالانکہ یہ بس پنڈال میں موجود ہیں۔ اکھاڑے کے قریب نہیں پھٹکتے۔
ان سب کو یہ ہی کہنا ہے کہ آپ کی مشاہدہ کرنے کی صلاحیت قابل قدر ہے مگر سوشل میڈیا کی ایڈیکشن کی بجاۓ،
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوۓ سورج کو ذرا دیکھ

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں؟
ان فری سوشل میڈیا کی سائٹس کا وکٹم بن جانا یا اپنی زندگی ایک بڑے مقصد کے لیے گزارنا
ہماری قوم میں فری کھانے کی عادت ہے۔ نسلوں کی غلامی کے بعد فری چیز سے شاید ہمیں کوئی آزادی کا احساس ہوتا ہے یا لگتا ہے ‘دا لگ گیا ہے’ تو ہم اب ہاتھ دھو کہ اس کے پیسے پورے کرنے لگے ہیں۔ یہ ہی رویہ شادی پہ ‘روٹی کھل گئ’ پہ آتا ہے۔
الحمد للّٰہ کہ ہمارے دور میں انٹرنیٹ ہے اور ہم اتنے کمال انسانوں سے رابطے میں ہیں مگر یاد رکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا ہمارے دور کی نئی چیز ہے۔ ان گیجیٹس کو زندگیوں میں آے ہوۓ ابھی ۱۰۰ سال بھی نہیں ہوۓ۔ نئی چیزیں پہلے ٹرائی نہیں کی ہوتی تو ان کے حوالے سے بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ہم پہ پہلا تجربہ ہے۔ اس طرح سے اگر اس پوری گیم کو سوچیں تو ایڈیکشن چھوڑنے کا فیصلہ آسان ہو گا۔ نشہ کسی کا بھی ہو خواہ وہ کوئ چیز ہے یا انسان نشہ نشہ ہی ہے۔ حواسوں میں رہنا ہی اس زندگی کا اہم ترین امتحان ہے۔
ان تمام باتوں کا سِرا شاید تب سمجھ آۓ جب روح کی پیاس کو سمجھا جاۓ۔ اصل میں یہ ایڈیکشنز کیا ہیں؟ اپنی روح کی پیاس دور کرنے کی ناکام کوششیں۔
عجیب بات ہے کہ انسانی روح کو اس کی غذا نہ ملے تولوگوں کی شکل ایتھوپیا کہ لوگوں جیسی نہیں ہوتی کہ پھر لوگوں کو ترس آنے لگے اور لوگ فنڈ اکٹھا کرنے لگیں۔ جسم پانچ دن بعد مرنے والا نہیں ہو جاتا۔ مہینوں روح کی غذا نہ ملے تو انسان کے سانس بند نہیں ہوتے۔
عام پیاس کے مقابلے میں اس پیاس کو شناخت کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔ ستم بالاۓ ستم اس کے لیے اس طرح ایڑھیاں رگڑنا کہ زم زم جاری ہو یہ ایک اور الگ کام ہے۔ بہرحال ڈھونڈتے رہیے
جن کو راستے مل گۓ ہیں وہ بتاتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply