ایک درویشی کالم ۔۔۔ معاذ بن محمود

عجب دور ہے کہ معاشرہ زوال پذیر مگر معاشرے میں قحط الرجال عروج پہ ہے۔ وہ کہتی تھی میرے کرن ارجن آئیں گے۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا۔ پاک ہے وہ ادارہ جس نے انہیں چلتی زمین سے نگل ڈالا۔ وہ مگر پھر بھی آگئے۔  لہسن لگ گئے۔ 

اکہتر میں بھٹو کے خلاف قتال کے دور میں فقیر ضیاء کی شان میں زمین آسمان چیپ دیا کرتا۔ مرد قلندر مرد حق بخدا کوئی تھا تو فقط ضیاءالحق۔ یہ ضیاء کی باقیات ہیں کہ لبوں پہ درود مگر دراصل مردود بنے چلی جارہی ہیں۔ عدالت کا فیصلہ ہے کہ یہ مجرم ہیں۔ شہید ضیاء کے یہ شیشہ سر برادران شہید کے جانشین بننے لائق ہرگز نہ تھے۔ ناچیز کے تمام پلاٹ سپہ سالاران ملت کی جانب سے ہدیہ ہیں لہذا بوٹوں پہ گرتی گرد کا ہر ذرہ دشمن ٹھہرا۔ عوام کی عسکریت اس بار اکثریت سے عسکریت کی مشیت کو کامیاب بنایا چکی ہے، فقیر بھلا ابناء العساکر کے خلاف لکھے تو کیوں بولے تو کیسے؟ سمجھ لیجیے کہ میاں برادران ضیاء شہید کی باقیات تو ہیں اور اس نسبت اعزاز بھی رکھتے ہیں ہیں مگر آج کا سپہ سالار گر دن دن کہے تو دن کہے رات تو رات ہے۔ آج کا نواز شریف ایک قومی مجرم ہے۔ صدق اللہ العظیم۔ فل سٹاپ۔ پیریڈ۔ 

قومی افق پر اس وقت کپتان نامی ستارہ چمک رہا ہے۔ بیگم کو بتلایا کہ کپتان کی بائیس سالہ کوشش سے سبز ستارہ ذہن میں آتا ہے۔ بیگم شروع دن سے بلے کی شیدائی تھیں لہذا خوب ٹھکائی فرمائی۔ بعد ازاں اتنی ہی محبت سے ایک ایک چوٹ کی سکائی بھی کی۔ آخری پٹی لگاتے کہنے لگیں کہ اب سے کپتان کی ذاتی زندگی پہ کوئی فقرہ کسنا ممنوع ہے۔ میں نے خاتون اوّل پانے کی بائیس سالہ کوشش کو فوری طور پر سیاست سے منسلک کرنا شروع کر دیا۔ تب سے مؤرخ سکون ہی سکون لکھتا ہے۔ کل شام ہی باہمی دلچسپی کے دیگر امور میں بھاگیوان کے ساتھ شیروانی میں مطلوب کم سے کم جیبوں کی تعداد پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ بقول حافظ صفوان، جابر حکمران کے سامنے اس کی مرضی کا کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے۔ اللہ ہمارا جہاد قبول فرمائے۔ آمین۔ 

پچھلے ہفتے ایک درویش سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ملاقات کی جملہ شرائط میں سے اہم شرط دھمال تھی۔ بندہ احقر کی ہڈیاں عمر کے ہاتھوں نہ ہلنے پر مجبور تھیں لہذا کسی معجون کا استعمال ناگزیر تھا۔ گنڈہ پوری بیٹھک کو عرصہ ہوا لہذا جام خالی تھے۔ بھری سگریٹ کے ذریعے درویش تک رسائی اس طرح مجبوری ہی رہی۔ درویش کے چرن چھوتے ہی سوال داغ ڈالا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں؟ درویش کے باطن کی سختی ناف پیالہ کے نزدیک ظاہر ہونے لگی۔ الف نون ننگے بابا جی سوال سن کر جلال میں آگئے۔ یوں محسوس ہوا کہ ایک مشہور زمانہ آنٹی کی روح ان میں حلول فرما چکی۔ کہنے لگے “یہ سب کے سب مل کر ہمیں یوتھیا بنا رہے ہیں آرڈرِ بوٹ کے بچے”۔ بندے کو جواب مل چکا تھا۔ کچھ سوچ کر بابا جی سے دوسرا سوال کیا، “بابا جی، یہ علی سجاد شاہ کبھی باہر آ پائے گا؟”۔ بابے نے میرے ہاتھ سے فتنہ ہائے دھواں دھواں چھین کر ایک گہرا کش لیا اور اپنے پھیپھڑوں کی دنیا و آخرت کی بربادی کا سامان مہیا کرتے گویا ہوا:

“عجب دور ہے کہ معاشرہ زوال پذیر مگر معاشرے کا قحط الرجال عروج پہ ہے۔ وہ کہتی تھی میرے کرن ارجن آئیں گے۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا۔ پاک ہے وہ ادارہ جس نے انہیں چلتی زمین سے نگل ڈالا۔ وہ مگر پھر بھی آگئے۔ لہسن لگ گئے۔”

چند دن بعد ابو علیحہ اور علی سجاد شاہ واپس میدان میں تھے جبکہ عمران خان اور عامر لیاقت حسین حکومت میں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply