پال تھیرو کے سفرنامے ۔۔۔ شبیر سومرو

آج دنیا کے نامور ٹریول رائیٹر پال تھیرو سے متعلق کسی دوست کی پوسٹ دیکھی تو مجھے یاد آیا کہ میں نے بھی کافی عرصہ پہلے پال تھیرو کا ایک انٹرویو ترجمہ کر کے چھاپا تھا۔۔۔اور اس سے پہلے امیزون والوں سے ان کی کتابیں بھی منگوائی تھیں۔
یہاں ان کا انٹرویو اردو میں پڑھنے کا لطف لیجیے۔

سفرنامہ ادب کی سب سے کمزور ترین صِنف ہے۔
بیشترسفرناموں میں من گھڑت مگر تخلیقی قسم کے شوشے چھوڑے گئے ہوتے ہیں۔
لکھنا در اصل تاریکی میں چھلانگ لگانے جیسا ہوتا ہے اور لکھنے والا ہر چھلانگ سے نئی امیدسے لگالیتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہم سیاستدانوں کے جتنا قریب جاتے ہیں ،اتنا ہی ہم انھی کی طرح اخلاقی طور پر اندھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

شہرہ آفاق سفر نامہ نگار پال تھیروکا زندگی نامہ

Advertisements
julia rana solicitors

شبیر سومرو
” میں جب بچہ تھا اور اسکول میں پڑھتا تھا تو ان دنوں ہر جانب سے مجھ پر لعنت پھٹکار برستی رہتی تھی۔ پڑھنے کے لحاظ سے میں انتہائی غبی تھا۔ کھیل بھی کوئی نہ میں جانتا تھا اور نہ مجھے بھاتا تھا ۔ جب کسی نہ کسی طرح اسکول سے پڑھ کر کالج میں داخل ہوا تو وہاں بھی مجھے پسند کرنے، مجھ سے دوستی کرنے والا کوئی نہ تھا۔امن فوج میں جاکر شامل ہوا تو وہاں سے بھی مجھے جلد ہی نکال باہر کیا گیا۔ تب میں بیزار ہوکر سنگا پور چلا گیا اور وہاں جا کر ٹیچر بن گیا۔ مگر شاید میں اچھا استاد نہ بن سکا، اس لئے وہاں بھی مجھے ذِلّتیں نصیب ہوئیں اور بالآخر ملازمت سے نکال دیا گیا۔ لندن آیا تو اس شہرِ غدّار میں بھی مجھ پر بہت ستم توڑے گئے۔ لندن سے نکل بھاگنے کے لئے امریکن ایکسپریس والوں کے پاس جاکر ویزہ کی درخواست دی تو وہ بھی پھاڑ کر میرے منہ پر دے ماری گئی۔ ان حالا ت میں میری بیوی نے بی مجھ سے طلاق لے لی اور اس وقت میری عمر بتیس سال تھی۔ زندگی میں ناول نگا ربننے کا خواب دیکھا، کئی کتابیں لکھیں جو شایع بھی ہوئیں مگر ادیب بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور پھر تینتیس سال کی عمر میں ایک نیا آئیڈیا جیسے آسمان سے گرا اور میرے ذہن میں آکر اٹک گیا۔ میں نے ایک پبلشر کے پاس جاکر اپنا آئیڈیا یوں شیئر کیا:
”ناول تو میرے آپ چھاپتے نہیں ۔۔۔ سو میں نے ایک نئی بات سوچی ہے ۔ شاید وہ آپ کو بھاجائے !“۔
”وہ کیا بات ہے؟“۔
” میں نے سوچا ہے کہ میں لندن سے ٹرین میں بیٹھ کر ملکوں ملکوں گھومتا ، شہروں میں اترتا، لوگوں سے ملتا اور ان کا احوال لکھتا چلا جاؤں۔ واپس لندن پہنچ کر اس احوال کو ایک سفرنامے کا روپ دے دوں۔۔۔تو کیا وہ آپ شایع کریں گے؟“
میرا پبلشر پہلے تو آنکھیں اور منہ پھاڑ کر مجھے دیکھتا رہا اور پھر جوش و خروش میں اثبات میں سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھ سے زبردستی مصافحہ کیا اور فوراً اس آئیڈیا کو قبول کرتے ہوئے ، پیشگی رقم دینے کی پیشکش بھی کردی۔ یوں میں وہ آوارہ گرد بن گیا ۔ جس کے پہلے سفر کا احوال The Great Railway Bazzar کے عنوان سے شایع ہوا اور پھر مجھ پر دولت ، شہرت اور سیاحت کے دروازے کھلتے چلے گئے“۔
… اور وہ نا معلوم لکھا ری اپنے آئیڈیا کے تحت دنیا بھر میں سفر کر کے ، ان کا دلچسپ احوال قلمبند نہ کرتا تو ہم مستنصر حسین تارڑ، محمد اختر ممونکا، الطاف شیخ، قمر علی عباسی، حکیم محمد سعید اور ان جیسے دیگر سفرنامہ نگاروں ہی کے ناموں سے واقف ہوتے… کبھی پال تھیرو کا نام بھی نہ سن پاتے ، جن کے تحقیقی تخلیقی سفرنامے آج اس جدید صِنف ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
پال تھیرو(Paul Theroux) آج عمر رسیدہ ہو چکے ہیں مگر ان کے پاؤں کا چکر انھیں آج بھی چَین سے ایک مقام پر ٹھہرنے نہیں دیتا۔ انھوں نے گریٹ ریلوے بازار کے بعد جو شاہکار سفرنامے لکھے ہیں، ان میں The Old Pantagonia Express ،لاطینی امریکہ کے سفر کا احوال The Kingdom by the Sea ،(برطانیہ کے ساحلوں کا سفر) ،Riding The Iron Rooster, (چین کا سفر)اور افریقہ کی سفر گزشت Dark Star Safari پال تھیرو کے کریڈٹ پر ہیں ۔ ان کا آخری سفر نامہ The GhostTrain to the Eastern Star ہے، جس میں انھوں نے اپنے پہلے سفرنامے دی گریٹ ریلوے بازار کے پرانے روٹ پر تین عشروں کے بعد دوبارہ سفر کیا ہے، اس سفر میں انھوں نے چند نئے ملک بھی شامل کیے ہیں ، جن میں فرانس ، ترکی، آذربائیجان، جارجیہ، ترکمانستان ، ازبیکستان، بھارت، سری لنکا، برما ، تھائیلینڈ اور روس کے نام آجاتے ہیں۔
اپنے سفر کے دوران پال تھیرو ہر مقام پر اصل مکالمہ عوام سے کرتے ہیں مگر ساتھ ہی انھوں نے ان علاقوں ، ملکوں کی خاص شخصیات سے ملاقاتیں کرکے ، ان سے متعلق اپنے تخلیقی انداز میں خاکے بھی لکھے ہیں۔ ان شخصیات میں نوبل پرائز کے حامل ترک ادیب اور خان پاموک، وی ایس نائپال ، مولانا رومی اور شمس تبریز پر Forty Rules of Love جیسی معرکہ آراءکتاب لکھنے والی ترک ادیبہ ایلف شفق، ترکمانستان کے نیم پاگل اور نہایت دولتمند ڈکٹیٹر نیازوف کے خاکے شامل ہیں۔ ان کے ساتھ جاپان کے موجودہ بین الاقوامی پارو کی موراکامی کی شخصیت اور فن سے متعلق بھی پال تھیرو نے بہت متاثر کن پروفائل تحریر کیا۔
پال تھیرو کے سردست آخری سفرنامےThe Ghost Train to the Eastren Star نے بھی مقبولیت اور فروخت کے رکارڈ قائم کر لئے ہیں۔ اس میں انھوں نے بہت تاسّف سے لکھا ہے کہ وہ اس سفر میں ایران نہیں جا سکے کیوںکہ ایک امریکی ہونے کے باعث یہاں انھیں پولیس پہرے میں گھومنا پھرنا پڑتا، دوسرے ایرانی حکومت نے بھی ان کی آمد پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ۔۔اور یہ بات انھیں قطعی گوارہ نہ تھی ۔ وہ تو ایک آوارہ گرد ہِپٹی ٹائپ روح رکھتے ہیں ۔ اس لیے پولیس پہرے یا پروٹوکول سے دور بھاگتے ہیں ۔انکا مکالمہ ہمیشہ عوام سے ہوتا ہے، خواص سے قربت رکھنا وہ کبھی پسند نہیں کرتے۔
پال تھیرو اپنے تازہ سفر نامے Ghost Train to the Eastren Star میں کہتے ہیں:
٭سفرنامہ ادب کی سب سے کمزور ترین صِنف ہے، جس میں صرف لکھنے والی اپنی خواہشیں، شیخیاں اور خواہ مخواہ کی شکایتیں اور محرومیوں کے تذکرے یکساں اہمیت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ من گھڑت مگر تخلیقی قسم کے شوشے چھوڑے گئے ہوتے ہیں ۔ یہ خود فریبی کے ساتھ ساتھ خود ستائشی کے کہنہ مرضی سے لبریز تحریر ہوتی ہے۔
٭لکھنا در اصل تاریکی میں چھلانگ لگانے جیسا ہوتا ہے ۔ اور لکھنے والا ہر چھلانگ اس امیدسے لگاتا ہے کہ شاید اس بار اسکے پاؤں دھرتی پر ٹِک جائینگے اور اسے کہیں سے روشنی کی کرن نظر آئے گی۔
٭کچھ بے وفائیاں اور دھوکے ایسے ہوتے ہیں جو معاف کردی جاتی ہیں۔ مگر کچھ ایسی بے وفائیاں اور فریب بھی ہوتے ہیں جو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں اور وہ عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔ میری بیوی نے مجھ سے فریب اور دغا کی اور چوری چھپے کسی مرد کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھالیں۔ اس بات کو کئی برس گزر گئے جب میرے بیٹے جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوگئے تو میں ان سب کی زندگیوں سے نکل گیا۔ بیوی چھوڑی تو ساتھ ہی اپنے دیس برطانیہ سے بھی جلا وطنی اختیار کر لی۔امریکہ جا کر رہنے لگا، مسلسل تینتیس سال تک میں نے برطانیہ کی شکل بھی نہیں دیکھی ،مگر پھر اتنے طویل عرصے کے بعد لندن لوٹ آیا ، جہاں سے مجھے بطور سفر نامہ نگار اپنے سفر کی ابتدا کرنا تھی۔ یہاں پہنچ کر میرے ماضی کے تمام زخم ایک بار پھر تازہ ہوگئے۔ امریکہ میں طویل عرصہ رہنے کے دوران میں سمجھتا تھا کہ میرے زخم بھر گئے ہیں اور میں ایک بدلا ہوا انسان ہوں ۔ مگر افسوس کہ وہ سب خود فریبی تھی ۔ اپنی قریب ترین ہستی کی دغا بازی بھلانا ممکن نہ تھا۔
٭استنبول میں قیام کے دوران نوبل انعام یافتہ ترک ادیب اورخان پاموق نے مجھے بڑے تاسّف سے کہا تھا:
”ہمارے ملک میں صرف پاشا،صوفی،درویش اور پولیس والے ہی معزز و محترم ہوتے ہیں ۔ان کے لئے ترقی کرنے کے موقع بھی ہوتے ہیں ۔لیکن ہمارے لوگ ادیبوں کو قطعی اہمیت نہیں دیتے۔ انھیں تب اہمیت ملتی ہے ،جب وہ برسوں تک جیلوں میں سڑکر ، عدالتو ں کے کٹہڑوں میں ذلیل و خوار ہوکرباہر آتے ہیں“۔
٭میں سیاستدانوں پر کبھی اعتبار نہیں کرتا ۔ اگر کوئی مقبول یا طاقتور سیاستدان میری جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو میں اس سے دور بھاگ جاتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سیاستدانوں کے جتنا قریب جاتے ہیں ،اتنا ہی ہم انھی کی طرح اخلاقی طور پر اندھے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
٭مغرب کے جن ملکوں نے سامراج بن کر افریقہ اور ایشیا کے غریب ملکوں پر قبضے کیے، ان کے وسائل ، سونا ،ہیرے سب خود کر اٹھا لے گئے، ان کے غریب شہریوں کو غلام بنا لیا۔آج وہی تہذیب یافتہ ملک ہونے کے دعوے کرتے ہیں اور افریقہ ایشیا کے ہنوز غریب ملکوں کو مہذب بننے کی نصیحتیں کرتے نہیں تھکتے!۔
٭بڈا پیسٹ میں مجھے ایک شخص نے بتایا کہ آج کل یورپی کثیر القومی کمپنیوں کی ہنگری کے غریب بے روزگاروں پر نظر کرم ہے۔ ان کمپنیوں کو یہاں سے سستے ملازم ، مزدور چاہئیں۔ ہنگری کے شہری یورپ بھر میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ، ذہین اور معاملہ فہم ہوتے ہیں۔ اپنی انھی صلاحیتوں کی وجہ سے انھیں یورپ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت ہونا پڑتا ہے۔ یہی شکایت میں نے ایشیائی ملکوں سے گزرتے بھی سنی ہے، اسی طرح البانیہ اور رومانیہ بھی مغربی یورپ کی تعمیر و ترقی کےلئے سستی افرادی قوت،خوبصورت عورتیں اور گاڑیاں چرانے والے بھیج رہے ہیں۔
٭ ترکمانستا ن میں مجھ سے ایک بوڑھے نے پوچھا:
”تم ناول کیسے لکھ لیتے ہو ؟“
میں نے جواب دیا:
”پہلے مرکزی خیال میرے ذہن میں نمودار ہوتا ہے ۔ پھر میں کرداروں اور ان کے پس منظر پر سوچتا رہتا ہوں ۔ اس کے بعد لگاتار دو تین برس تک خود کو قید تنہائی کی سزا دیکر لکھ ڈالتا ہوں“۔
اس نے کہا:
” ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں مگر ہم کتابیں لکھنے کے بجائے پھلدار درخت لگاتے ہیں!“۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply