جلیس شیروانی کی زندگی پر ایک نظر۔ ۔ ۔ صفی سرحدی

بالی ووڈ کے معروف ڈائیلاگ رائٹر نغمہ نگار اور شاعر جلیس شیروانی کا جنم جولائی 1954 کو اتر پردیش کاسگنج میں ایک شیروانی نسل پٹھان خاندان میں ہوا تھا۔ انکے والد کا نام انیس احمد شیروانی تھا جنکا پورا خاندان تقسیم ہند کے بعد پاکستان کراچی منتقل ہوگیا تھا لیکن وہ ہندوستان میں رہ گئے تھے۔ جلیس شیروانی نے ابتدائی تعلیم کاسگنج سے اور اعلی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔
جلیس شیروانی کے قلمی سفر کی ابتدا تب ہوئی جب بچپن میں علی گڑھ میں ان کے پڑوس میں مجروح گورکھپوری ال احمد سرور اور بشیر بدر سے ملنے بہت سارے لوگ ملنے آیا کرتے تھے اور یہ چہل پہل دیکھ کر انکا بھی من ہوا کہ میری بھی ٹھیک اسی طرح لوگوں میں عزت ہونی چاہیئے۔ پر جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ سبھی تو شاعر و ادیب ہیں تب انہوں نے سوچا کہ پھر تو مجھے بھی شاعر و ادیب بننا ہوگا۔ اور یوں انہوں نے لکھنے پڑھنے کا اغاز کیا۔ وہ روز کچھ روپے خرچ کرکے چائے کا اہتمام کرتے، یار دوستوں کو اپنی شاعری سنانے کیلئے بلوا لیتے اور یوں انہیں واہ واہ سننے کو ملتی۔ لیکن ایک دن انہیں خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ واہ واہ انہیں چائے کیوجہ سے مل رہی ہے۔ تب ایک دن انہوں نے چائے کا اہتمام نہیں کیا لیکن جب یار دوست اگئے تو انہوں نے بغیر چائے کے شاعری سنانی شروع کردی لیکن پھر بھی یار دوستوں نے انہیں ڈھیر ساری داد دی۔ اور یوں انکا خود پر اعتماد مزید بڑھ گیا۔ پھر وہ استادوں کو اپنی شاعری دکھانے لگے تو انہیں کہا گیا کہ بیٹے محنت کرتے رہو اچھا آغاز ہے اور اگے بہتر ہوجاؤگے۔ بہرحال جب جلیس شیروانی نویں کلاس میں ہوئے تو وہاں کے ایک لوکل میگزین میں انکا پہلا افسانہ چھپ گیا۔ اور یہ انکی زندگی کا بڑا دن تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انکا علی گڑھ سے بچھڑنا پڑا اور انہیں خاندان کے ہمراہ واپس اپنے گاؤں جانا پڑگیا اور یوں وہ علی گڑہ کی ادبی فضاء سے محروم ہوگئے۔
گاؤں جاکر جلیس شیروانی نے کرکٹ کھیلنی شروع کی یوں تو جلیس شیروانی آل راؤنڈر تھے لیکن فاسٹ باولر کے طور پر زیادہ مشہور ہوئے اور اسی لیے انکا نام قصائی پڑ گیا کیونکہ بمشکل ہی کوئی بلے باز انکے سامنے ٹک پاتا تھا۔ بعد میں وہ متھرا اور اگرہ کی ٹیموں کیلئے سو روپے کے عوض ایک میچ کھیلنے لگے اور بہترین کرکاردگی کیوجہ سے انہوں نے بہت ساری ٹرافیاں اور انعامات بھی جیتے۔ ان دنوں جلیس شیروانی نوجوانی سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے انکی زندہ دلی مثالی تھی باپ امیر تھے اس لیے انکے پاس گاڑی بھی تھی اور وہ ہمشیہ اسٹیرنگ کو انگلی لگا کر گاڑی چلایا کرتے تھے اور جب باہر سے واپس گاؤں آتے تو دو میل دور سے ہارن بجانا شروع کردیتے تھے اور یوں دور سے گاؤں کے لوگوں کو معلوم پڑ جاتا تھا کہ اپنے جلیس میاں گاؤں پہنچ گئے ہیں۔ جسم میں پٹھان خون ہونے کیوجہ سے جلیس شیروانی گرم مزاج بھی تھے اور ایک دن گاؤں میں انکی کسی سے ان بن ہوگئی جسکی وجہ سے وہ 1979 میں مجبوراً گاؤں چھوڑ کر ممبئی چلے گئے اور وہاں ایک سٹور میں تین سال تک کام کرتے رہے اور جب وہ سٹور بند ہوا تو وہ سڑک پر اگئے اور تب وہ روز بوریت دور کرنے کیلئے ٹرین میں بیٹھ کر سفر کرتے اور شام واپس ممبئی اکر فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر سوجاتے تھے۔ بہرحال ان دنوں انہوں نے واپس ادبی دنیا کا رخ کیا اور خود کو سنبھالنے لگے۔ شروعات میں وہ صحافت کرنے لگے اور ساتھ ہی بیسویں صدی اور نئی دنیا سمیت بہت سارے رسالوں کیلئے بھی لکھنا شروع کیا۔ نئی صدی کیلئے وہ مکالمے لکھتے تھے جس کے مدیر مولانا وحید الدین صدیقی تھے جو انہیں بہت سراہا کرتے تھے۔ بعد میں جلیس شیروانی نے ڈرامے لکھے اور خود بھی ان ڈراموں میں کام کیا۔ شروعات میں جلیس شیروانی کے طبیعت میں باغیانہ پن کا عنصر شامل تھا وہ ہر اس سسٹم کے ہر اس اقدام کے خلاف تھے جو زبرستی یا اپکی مرضی کے خلاف اپ پر تھوپ دیا جاتا ہے وہ شخصی ازادی کے قائل تھے انکا ماننا تھا کہ اگر میں اپکی کسی بات نہ مانوں تو یہ جرم نہیں۔ میری زندگی میری مرضی میں کسی کو نقصان تو نہیں دے رہا۔
اور انکی یہ بغاوت شروعاتی دور کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔
ہمارے خدا پہ بھروسہ ہے ہم کو !
ہمارے لئے کیوں پریشان ہو تم !
خوش قسمتی سے شروعات میں انہیں انکے مزاج کے مطابق فلمیں مل گئیں جو زیادہ تر سسٹم سے بغاوت پر بنی تھی اور یہ بیشتر ایکشن فلمیں تھیں لیکن بعد میں بھی وہ ایکشن فلموں کیلئے ڈائیلاگ لکھتے رہے۔
ان فلموں میں پراتیگھاٹ (1987) کنورلال (1988) ہتھیارے (1989) سنگرام (1993) گیم (1993) مافیا (1996) لوفر (1996) ایک تھا راجہ (1996) مریتیو داتا (1997) ہفتہ وصولی (1998) اکروش (1998) باغی (2000) اورر انتقام 2003 شامل ہیں جس کے ڈائیلاگ انہوں نے لکھے ہیں۔
جلیس شیروانی نے اپنی کیریئر میں 75 فلموں میں، کسی کے ڈائیلاگ تو کسی کی کہانی اور کسی کے گانے لکھے، یوں تو انکی شناخت ایکشن فلموں میں بطور ڈائیلاگ رائٹر مشہور رہی لیکن ساتھ ہی انہوں نے رومانوی فلموں کیلئے بھی لکھا۔ لیکن بعد میں انہوں نے مشہور نغمہ نگار نقش لائل پوری مرحوم کے مشورے پر فلموں کیلئے گانے لکھنے شروع کردیئے کیونکہ وہ انہیں معیاری شاعر مانتے تھے اور جب انہوں نے اپنی شاعری کا جادو فلموں میں دکھایا تو پھر انہوں نے بہت سارے مشہور گانے لکھ دیئے اور جن فلموں کیلئے انہوں نے گانے لکھے ان میں ہم تمہارے ہیں صنم، تیرے نام، پارٹنر، ہیلو، وانٹیڈ، پینگ گیسٹ، ڈھونڈتے رہ جاؤگے، دبنگ، تمکو بھول نہ پائینگے، میں نے دل تجکھو دیا، معشوقہ، ہم تمہارے ہیں صنم، گرؤو، میں اور مسسز کھنہ، دی کلر، مجھ سے شادی کروگی، ویلکم، کیا یہ پیار ہے، چشم بدور، دبنگ، دبنگ ٹو، دبنگ تھری، اور ٹائیگر زندہ ہے۔ فلم دبنگ کیلئے انکا لکھا گیت ھوڑ ھوڑ دبنگ دبنگ، بہت مشہور ہوا۔ اس گیت کو لکھنے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ جلیس شیروانی معروف اداکار قادر خان کے اچھے دوست تھے اور وہ انہیں استاد بھی مانتے تھے کیونکہ قادر خان بھی بڑے اچھے ڈائیلاگ رائٹر تھے بہرحال قادر خان کے بولنے کے انداز میں بڑبڑاتے ہوئے “ھوڑ” لفظ ضرور آتا تھا وہی سے یہ لفظ جلیس شیروانی کے زہن میں آٹکا ہوا تھا۔ جلیس شیروانی کی سلمان خان کے ساتھ زہنی ہم اہنگی تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سلمان خان کی اکیس فلموں کے گیت لکھے۔ جلیس شیروانی کی مادری زبان اردو تھی لیکن تعلیم انہوں نے ہندی اور اردو دونوں میں حاصل کی اس لیے انہوں نے اردو ہندی دونوں میں خوب لکھا۔ جسکا ترجمہ بھی وہ خود کرلیا کرتے تھے۔ لیکن جب وہ فلم انڈسٹری آئے تو انہوں نے پنجابی اور انگریزی بھی سیکھ لی۔ اور پھر انہوں نے اردو ہندی کے ساتھ ساتھ پنجابی اور انگریزی میں بھی گانے لکھے۔ جلیس شیروانی کے لکھے ہوئے چند مشہور گانوں میں، میں منگیا سی منتاں وے منتاں، تو جو ملے جنڈری جنتاں وے جنتاں چوری کیا رے جیا، یہاں بھی ہوگا وہاں بھی ہوگا جلوہ، منی بدنام ہوئی، لو می لو می، سونی دے نخرے سونی لگدے
، پھرتا رہوں دربدر ملتا نہیں تیرا نشان، رب کرے تجھکو بھی پیار ہوجائے، دل کو چرایا تم نے صنم، مجھ سے شادی کروگی، لال دوپٹہ اڑ گیا بیری ہوا کے جھونکوں سے، جینے کے ہیں چار دن، بینگ بینگ زمانہ بولے، تاروں کو محبت امبر سے، پانڈے جی سیٹی، کرلے بے بی ڈانس وانس، اور لگن لگ گئی شامل ہیں۔
جلیس شیروانی 1990 سے 1993 رائٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکٹری اور بعد میں 2008 سے 2012 اور 2014 سے 2016 تک فلم رائٹر ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے اور سوشل ایکٹوسٹ کے طور پر بھی وہ بہت سرگرم دکھائی دیتے تھے وہ پروگریسو فاونڈیشن کے ممبر اور چند ٹی وی شوز کے جیوری ممبر بھی رہے۔
جلیس شیروانی نے فلموں کیلئے لکھنے کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کی۔ 1993 کی فلم گیم میں وہ ایوب خان کے کردار میں نظر آئے۔ بعد وہ 1993 کی ہی گلشن نندا کے ناول پر بنی فلم کلانکینی میں نظر آئے اور اس فلم کی سکرین پلے بھی انہوں نے لکھی۔ 1993 کے بعد وہ 2009 میں فلم تھینکس ماں میں ایک مختصر کردار میں نظر آئے اور اس کے اگلے سال 2010 میں وہ فلم تم جو ملے میں نظر آئے۔
اگر جلیس شیروانی کی نجی جیون کا رخ کیا جائے تو انہیں جب 1987 میں پہلی فلم پراتیگھاٹ میں کام ملا تو اسی سال ہی انہوں نے اپنی دوست رانی سے شادی کرلی جو شادی کے بعد رانی شیروانی کہلانے لگی۔ رانی شیروانی انڈو فرنچ لڑکی تھی جو تب ممبئی کی ایک کمپنی میں ملازمت کررہی تھی، جلیس اور رانی کی کوئی اولاد نہیں ہے۔
جلیس شیروانی کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ غرور سے پاک انسان تھے وہ نہایت خود دار اور اپنے اصولوں پر چلنے والے انسان تھے جدید دور کے ساتھ انہوں نے پیسوں کیلئے ماڈرن گانے لکھے لیکن کبھی ان گانوں پر فخر نہیں کیا۔ وہ کہتے تھے جب میں ہر طرف سے شانتی کا ماحول پاتا ہوں تب میں وہی لکھتا ہوں جو میرا جی چاھتا ہے جس پر میں ناز کرسکتا ہوں۔
غرور سے بچنے کی تلقین اسے ماں کی طرف سے ملی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی کسی مشاعرے میں جاتے تو لآغاز اپنے اس شعر سے ضرور کرتے تھے۔
“بچپن میں میری ماں نے بڑا کام کر دیا
دل سے غرور چھین کر اخلاص بھر دیا”
غرور سے بچنے کی تاکید انکے اشعار میں جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
“چڑھتے ہوئے تیور کا انجام اترنا ہے
ہر شام تکبّر سے سورج یہی کہتا ہے”
ایک اور جگہ کہتے ہیں
“خود کو سورج ماننے والے
دیکھ، وہ سورج ڈوب ر ہا ہے”
جلیس شیروانی کو اردو زبان سے بے انتہا کی محبت تھی اپنے وہ ایک شعر میں اردو سے محبت کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
“کیسی تہذیب سکھا دی ہمیں اردو نے جلیس!
کس قدر ٹوٹ کے ہم اہلِ زباں ملتے ہیں”
یہاں جلیس شیروانی کے چند بہترین اشعار پیش خدمت کررہا ہوں۔
“غزل جہاد مسلسل سے کم نہیں ہوتی
جگر کا خون پلاؤ تو شعر ڈھلتا ہے”
“تیرے پہلو سے میرا درد تو گزرا ہی نہیں
اس لئے تیری غزل میں میرا لہجہ ہی نہیں”
“دنیا کی رونقوں سے بہلنے لگا ہوں میں
اے آرزوِ دوست مجھے پھر نڈھال کر”
“ہم کو تسلّی دینے والو
کیا جانو کیا بیت گیا ہے”
“جسے میں ڈھونڈتا پھرتا تھا اوروں کے روییے میں
وہی احساس ناکامی میرے اندر کہیں نکلا”
“میں لوٹ آیا اجل کے در سے جینے کی دعا لے کر
میری معصوم بٹیا کا بہت کامل یقیں نکلا”
“جہاں امّید روشن تھی اندھیرا بھی وہیں نکلا
کبھی تو ہم نہیں جاگے کبھی سورج نہیں نکلا”
“ہوا کے رخ پہ کئی کروٹیں بدلتا ہے
زرا سی جان ہے پھر بھی چراغ جلتا ہے ”
“جلیس آگہی کی وہ منزل تو آگئی
کہ دل خود سے خود کو جدا مانتا ہے”
“بڑی مدًت سے دل میں پل رہے ہیں
یہ آنسو جو غزل میں ڈھل رہتے ہیں”
“فنکاروں نے بازازِ ادب جب سے سجایا
ہم ایسے قلمکاروں نے فن چھوڑ دیا ہے”
“تمام لوگ مجھے دے رہے تھے خیراتیں
مجھے تھی بھوک فقط آپ کے نوالے کی”
“ہوش کہتا ہے وفا ان میں نہیں
مگر دل ان کی حمایت کر رہا ہے”
جلیس شیروانی نے یوں تو زندگی میں بہت کچھ پایا لیکن جب ایک ٹی وی انٹریو میں معروف اینکر اشرف کریم نے ان سے پوچھا کہ زندگی دوبارہ جینے کو ملے تو زندگی کا وہ کونسا صفحہ ادھورا رہ گیا ہے جسے آپ مکمل کرنا چاھینگے۔ جس پر انہوں نے ابدیدہ ہوتے ہوئے جواب دیا کہ اگر دوبارہ زندگی جینے کو ملے تو ایک ہی صفحہ خالی پڑا ہے اور وہ ہے ماں باپ کی خدمت جو میں نہیں کرسکا۔
جلیس شیروانی کو شوگر کا عارضہ لاحق تھا لیکن وہ پھر بھی تندرست نظر اتے تھے یکم اگست 2018 کو انہیں اچانک دل کا دورہ پڑا اور بیوی انہیں اسپتال پہنچانے والی ہی تھی کہ راستے میں انہوں نے اپنی آخری سانس لی۔ جلیس شیروانی کو ممبئی کے علاقے اوشیورا کے قبرستان میں رات کے وقت سپردخاک کیا گیا۔
اداکار اگر کامیاب ہوتے ہیں تو انکے پیچھے قلم کار اور ہدایت کار کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے لیکن افسوس جب کوئی ہدایت کار یا قلم کار دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یہ بڑے اداکار اپنے محسنوں کو الوداع کہنے بھی نہیں جاتے۔ جلیس شیروانی کے جنازے میں فلم انڈسٹری سے انکے دوست اداکار رضا مراد موسیقار ساجد واجد اور قلم کار دوستوں میں دلیپ شکلا، وسیم صدیقی اور دیگر قریبی احباب نے شرکت کی۔ لیکن فلم انڈسٹری سے سلمان خان سمیت کوئی بھی بڑا نام انہیں الوداع کہنے نہیں آیا۔ جلیس شیروانی کے لکھے ڈائیلاگ ہو یا انکے لکھے ہوئے گانے یا پھر انکی شاعری، اس کی وجہ سے وہ ادب دوست اور فلم بینوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہینگے۔
جلیس شیروانی سے آپ کی ملاقات ہوچکی ہے اب وہ اپنے اس شعر میں آپ سبھی سے رخصتی چاھتے ہیں۔
مجھے لحد میں سلانے کا شکریہ لوگو !
ہمارا ساتھ یہیں پر تمام ہوتا ہے !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply