گاہکوچ اور اس کے مضافاتی پکنک پوائنٹس ۔۔۔۔امیرجان حقانی

گاہکوچ ضلع غذر کا سٹی ایریا ہے۔گلگت شہر سے گاہکوچ تک 70کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔سرکار کے تمام مرکزی محکمے گاہکوچ میں ہی ہیں۔گاہکوچ کے دائیں بائیں درجنوں پکنک پوائنٹس ہیں جہاں زندگی کی تمام فطری خوبصورتیاں موجود ہیں۔گاہکوچ سے 17کلومیٹر کے فاصلے پر ہوپر نامی جگہ ہے۔یہ ایک مختصر سی جگہ ہے۔ ہوپر گارڈن کے نام سے ایک ہوٹل قائم کیا گیا ہے جو بہترین پکنک پوائنٹس میں شمار ہوتا ہے۔ملکی و غیرملکی سیاح  یہاں چائے نوشی کے لیے ضرور رُکتے ہیں۔ہم نے بھی کئی بار ہوپرگارڈن میں چائے کی چاہ پوری کی۔ہوپر میں چنار کے درختوں پر ایک بہترین دو منزلہ نشست بنائی گئی ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے الگ تھلگ ہے۔ یہاں سیاح بیٹھ کر خوب محظوظ ہوتے ہیں، ہوپر کے بعد راؤشن کا خوبصورت گاؤں ہے۔ گاہکوچ سے ہائم تک دس کلومیٹر جبکہ راوشن تک 30کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔یہ تمام نالے اور وادیاں بھی حسن و جمال اور قدرتی رعنائیوں میں اپنی مثال آپ ہیں۔گاہکوچ سے اگر گلگت کی طرف جاتے ہیں تو 4کلومیٹر کے فاصلے پر کانچے،۹ کلومیٹر بوبر،۴۱ کلومیٹر پر سنگل،29کلومیٹر پرشیرقلعہ34کلومیٹر پر گلاپور اور بیارچی ہیں۔یہ سارے علاقے بھی مثالی ہیں۔

گاہکوچ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ گاہکوچ بالا اور گاہکوچ پائین۔ پرانی آبادی گاہکوچ بالا میں ہے تاہم ابھی لوگوں کی بڑی تعداد سٹی یعنی گاہکوچ پائین میں منتقل ہوچکی ہے۔ گاہکوچ بالا کے متصل عیشی نام کا گاؤں بھی ہے۔عیشی بہت بڑا اور پھیلاہوا گاوں ہے۔ میرے دوست حکیم جاوید صاحب کی معیت میں عیشی کی  سیر کی۔ عیشی ٹھوکو(ٹیلے)میں ایک بہت بڑا گروانڈ سلطان مدد نے تعمیر کروایا ہے جو اپنی نوعیت کا ٹیلہ نما پہاڑی پر بنایا گیا ایک بہتر ین گروانڈ ہے۔ ہزاروں ناظرین کے لیے بہترین نشستیں بنائی جارہی ہیں۔ عیشی پولو گراونڈ سے گاہکوچ اور اس کے تمام مضافاتی پکنک پوائنٹس اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔ حکیم جاوید صاحب اور اس کے ماموں نے عیشی کی گلی گلی گھمایا یا، قبرستان سے لے کر ٹھوکو تک کے سفر نے سفر کا مزہ دوبالا کردیا۔

عیشی میں جتنی بڑی آبادی ہے اسے زیادہ بنجر اراضی بھی ہے۔حکیم جاوید صاحب کی پوری فیملی اسماعیلی کمیونٹی سےتعلق رکھتی   ہے۔ ننھیال عیشی میں ہی ہیں اور اسماعیلی ہیں لیکن جاوید صاحب 22 سال پہلے اپنے کنبے کے ساتھ اہل سنت کمیونٹی میں شامل ہوئے ہیں۔جاوید صاحب کے اپنے ننھیال اور دوھیال کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں۔اپنے رشتہ داروں اور فیملی کے حقوق کا بھرپور خیال کرتے ہیں۔ ان کی زندگی تلخ و شریں یادوں سے عبارت ہے۔ گاہکوچ سٹی میں ان کا حجامہ سینٹر ہے جہاں مریضوں کا طب نبوی ﷺ کی روشنی میں علاج فرماتے ہیں۔طب پر دو کتابیں بھی تصنیف فرماچکے ہیں۔ بہت ہی ملنسار اور عاجز انسان ہیں،علم دین کے ساتھ علم طب کا بھی عالم ہیں۔ گاہکوچ بالا میں آغاخان فاونڈیشن اور سرکارکے اشتراک سے اسماعیلی کمیونٹی کے لیے ایک بڑی ”دیدار گاہ“ بھی تعمیر کی گئی ہے۔

گاہکوچ بالا میں ایک ڈھائی سوسال قدیم فورٹ بھی ہے۔یہ ایک بہت بڑا فورٹ تھا لیکن امتداد زمانے نے اس کوتہہ و بالا کیا ہے۔ گاہکوچ فورٹ سیکورٹی کے اعتبار سے قدیم زمانے میں انتہائی مناسب جگہ میں بنایا گیا تھا۔ بقول ممتاز گوہر کے اس فورٹ کے چار برج تھے۔ اب صرف ایک ہی باقی ہے۔ فورٹ کی بوسیدگی پر انتہائی افسوس ہوا۔فورٹ کے سامنے ایک پرانا پولو گراونڈ بھی ہے۔ فورٹ کی کئی عمارتیں اب بھی اصل حالت میں موجود ہیں۔ ہم نے کئی کنال پر مشتمل فورٹ میں ماضی کو ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یاد ماضی عذاب ہی رہا۔ چند تراشے ہوئے تعمیراتی پتھروں اور کچھ تعمیراتی لکڑی کے لیے فورٹ کو ڈھانے والوں نے قیامت ہی ڈھایا ہے۔ آج بھی آغاخان فاونڈیشن تھوڑی سی توجہ دیں تو بلتت فورٹ کی طرح گاہکوچ فورٹ کو بھی ایک بہترین سیاحت گاہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جو لاکھوں زرمبادلہ کمانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔گاہکوچ بالا سے بہت سارے گاوں واضح نظر آتے ہیں۔

گاہکوچ سٹی میں مفتی شیرزمان صاحب اور ا س کے رفقاء نے 1998ایک بہترین اور وسیع دارالعلوم کا قیام عمل میں لایا ہے جو دارالعلوم غذر کے نام سے معروف و مشہور ہے جہاں چار سو سے زائد طالبات اور تین سو سے زائد طلبہ ہمہ وقت دینی تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں۔جن کے مکمل قیام و طعام کا بندوبست دارالعلوم غذر ہی کرتا ہے۔دارالعلوم کے تعلیمی اور تربیتی امور کے حوالے سے مفتی صاحب اور اس کے رفقاء بالخصوص مولانا شاہ عبداللہ اور مولانا عبدالرزاق قاضی سے نشستیں ہوتی رہتی ہیں۔دارالعلوم غذر پورے گلگت بلتستان و کوہستان میں دوسرا بڑا دینی تعلیم ادارہ ہے جہاں بہترین تعلیمی انتظام مفت میں کیا جارہا ہے۔دارالعلوم میں ایک خوبصورت لائبیریری بھی ہے جو استفادہ عامہ کے لیے اوپن رہتی۔گاہکوچ سٹی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہیں جن میں آغاخان ہائی سیکنڈری اسکول اور اقراء حفاظ روضۃ الاطفال سکول بہت ہی معروف اور معیار کے اعتبار سے مشہور ہیں۔

آغاخان ہائی سیکنڈری اسکولز کا بہت بڑا جال ہے ضلع غذر میں جہاں جدید اور مغربی طرز تعلیم و تربیت کا بہترین اہتمام بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے جبکہ اقراء روضۃ الاطفال ٹرسٹ کے بھی غذر میں کئی اسکولز ہیں جہاں طلبہ و طالبات کے لیے حفظ قرآن سے لے کر میٹرک تک بہترین تعلیم کا انتظام ہے۔اس کے باوجود بھی اسکول میں بہت ساری تعلیمی اصلاحات کی ضرورت ہے۔امید ہے کہ اقراء کے کرم فرما اقراء اسکول کی بہتری کے لیے مثبت اصلاحات فوری نافذ العمل کریں گے۔گاہکوچ سٹی میں ایک وسیع پارک بھی ہے جو محکمہ فارسٹ کے زیر انتظام ہے۔گاہکوچ سٹی میں کئی نئے ہوٹل بنائے گئے ہیں جو ہر وقت سیاحوں کی آمد کے منتظررہتے ہیں۔پارک کے ساتھ ہی مونسپل لائیبریری ہے جہاں بہت ساری بہترین کتابیں دستیاب ہیں۔میں نے بھی کئی کتابیں مطالعہ کے لیے عاریتا لی جو ہنوز زیر مطالعہ ہیں۔ لائیبریرین صاحب نے تھوڑی سی گفت و شنید کے بعد خندہ پیشانی سے کتابیں عنایت کی۔ادبی اور دینی کتابوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو قارئین کو ہمہ دم دعوت مطالعہ دے رہی ہیں۔

گاہکوچ کے ساتھ سلپی ہے جو بہت ہی مختصر گاوں ہے جہاں ایک بڑی تعداد کوہستانی براداری کی آباد ہے۔گاہکوچ کے بالمقابل ہاتون کا علاقہ ہے۔ یہ علاقہ لمبائی کے اعتبار سے ضلع غذر کا سب سے بڑا گاوں ہے۔ ہاتون میں گورنمنٹ ڈگری کالج اور قراقرام انٹرنیشنل یونیورسٹی کا کیمپس تعمیر کیا گیا ہے۔آج کل قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے گریجویشن کے ایگزام کنڈکٹ کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے جو خوش اسلوبی سے نمٹا رہا ہوں۔سلپی پل نے سٹی ایر یا کو وادی اشکومن سے ملایا ہے۔ سلپی پل حفیظ دور میں بنائی گئی ہے جس نے بہت سارے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔سلپی کے متصل گولوداس کا علاقہ ہے۔ یہاں اکثریت آبادی ہنزہ سے مائیگریٹڈ ہے۔گلوداس میں برلب دریا گلوداس پارک ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے انتہائی جاذب النظر ہے۔یہ پارک ایک شرابی کبابی انسان کا تھا جس نے پارک  کی تزئین و آرائش کا سلسلہ شروع کیا تھا اسی دوران اللہ نے اس کو راہ راست نصیب فرمایا اور وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ چاہ ماہ پر نکل گے اور پھر تبلیغی سفر میں ہی اللہ کو پیارے ہوئے۔

گاہکوچ سٹی سے32کلومیٹر کے فاصلے پر ”بیرگل فش پوائنٹ“ ہے۔یہاں ٹروٹ مچھلیوں کے لیے کئی پارٹیوں نے درجنوں بڑے چھوٹے تالاب بنائے ہیں۔ یہ ٹرواٹ محکمہ فشریز کی معاونت سے نمو پارہے ہیں۔ ان کو فیڈ دیا جاتاہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مختلف تالابوں میں ہم نے ٹروٹ دیکھی۔ محکمہ فشریز سے بالکل ابتدائی مرحلے کی مچھلی جو بچے کی شکل میں ہوتی ہے خرید کر ان تالابوں میں ڈالاجاتا ہے پھر تین ماہ بعد دوسرے تالاب میں، پھر تین ماہ بڑے تالاب میں ڈال کر ان کی فیڈ کے ذریعے پرورش کی جاتی ہے۔ ایک ہی کلر و جسامت کی ہزاروں مچھلیاں ایک ہی تالاب میں پرورش پارہی ہوتی ہیں اور بڑے ہوٹلوں کو تھوک کے حساب سے فروخت کی جاتی ہیں۔ غذر کی اوریجنل ٹروٹ مچھلیوں کے مقابلے میں یہ فارمی ٹروٹ ذائقے میں بہت کم تر ہے۔ماونٹین ٹروٹ فش فارم برگل کے ذمہ داروں کی گفتگو سے، اندازہ ہوا کہ بہت جلد یہ پوائنٹ ترقی کرجائے گا۔ ایک تو قدرتی لوکیشن خوبصورت ہے، دوم یہاں ایک چشمے کے شفاف پانی نے فارمی ٹروٹ کی پیداوار میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

اس فش فارم کو بنائے دو سال گذرے ہیں اگر رفتار یہی رہی تو بہت جلد فارمی ٹروٹ جی بی میں سستے داموں ملے گی۔اس سال صرف ایک گروپ نے پندرہ سو کلو ٹروٹ فروخت کیا ہے۔ چار ٹروٹ سے ایک کلو بنتا ہے۔گاہکوچ سٹی سے 34کلومیٹر کے فاصلے پر چٹور کھنڈ ہے جہاں سابق گورنرپیر کرم علی شاہ کا محل ہے۔ یہ محفل اپنی خوبصورتی اور پھولوں کی فراوانی اور جدید طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ہم نے خصوصیت کے ساتھ پیرکرم علی شاہ صاحب سے ملاقات کی۔وہ مریضوں کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے۔ تعویذ گنڈوں کی پانچ کتابیں سامنے رکھی ہوئی تھی۔ کسی مریض کو دم کررہے تھے تو کسی کے لیے تعویذ لکھ رہے تھے۔ جمعہ کا دن تھا، رش زیادہ تھا تو ہم نے فورا اجازت طلب کی اور اشکومن ویلی کے مین روڈ سے پیرصاحب کے محل تک جانے والے روڈ میں گاڑی نے فراٹے بھرنا شروع کیا۔ کاش مین روڈ سے پیر صاحب کے محل تک جو شاندار اور وسیع روڈ ہے وہی روڈ پورے اشکومن میں ہوتا تو ہزاروں لوگ روڈ کی تکالیف سے بچ جاتے۔

اشکومن میں میرے دوست مولانا نادر شاہ نے ایک بہترین دارالعلوم کا قیام عمل میں لایا ہے۔ دارالعلوم کے ساتھ ہی قدیم جامع مسجد ہے۔جہاں کئی دفعہ حاضری دینے کا موقع ملا۔گاہکوچ سٹی سے 67 کلومیٹر کے فاصلے پر اشکومن پراپر ہے۔اشکومن پراپر کے دائیں بائیں ایمت اور پکورا کی حسین وادیاں ہیں جو ہمہ دم سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہوتیں ہیں۔بنیادی طور پر یہ سارے علاقے اشکومن کے ہیں۔اشکومن کی مشہور وادیوں اور نالوں میں نالہ پکورہ،نالہ اسمبر،نالہ دلتی، نالہ تھپشکن،نالہ اشقمتر، نالہ بڑوگہہ، نالہ متھنتر، نالہ گلوگہہ،نالہ چھنتر،نالہ شمس آباد اور نالہ قرمبر ہیں۔ان تمام نالہ نما،وادیوں میں قدرت کے انمول خزانوں کے ساتھ تمام تررعنائیاں موجود ہیں۔ان معروف نالوں میں کئی اور نالے ہیں۔ گلشیرز ہیں،بلند بالا چوٹیاں ہیں۔موسم سرما میں خوبصورت سبززاروں میں لپٹے ان چھوٹے چھوٹے نالوں کی خوبصورتی اور حسن دوبالا ہوجاتا ہے اور سیاح ان مقامات سے محظوظ ہونے دور دور سے آتے ہیں۔ہم نے بھی حتی المقدر ان قدرتی رعنائیوں سے معمور ندی نالوں، آبشاروں، چشموں اور جنگلات و جنگلی حیات سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کی۔ جتنا گھومو پھرو، میٹھی بولی کے لوگوں سے ملو مگر سچ یہ ہے کہ دل نہیں بھرتا۔

گاہکوچ سٹی سے قرمبر جھیل تک 142 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ قرمبر جھیل نالہ قرمبر میں واقع ہے۔ ایمت سے سطح مرتفع پامیر تک پھیلے نالہ قرمبر کو ”بام دنیا“ بھی کہا جاتا ہے۔پامیر چترال تک پھیلا ہوا ہے۔اشکومن میں کئی درے بھی ہیں جن میں درہ اسمبر جو اشکومن کو یاسین سے ملاتا ہے،درہ ہلوجد بڑو گہہ میں ہے،جواشکومن کو ہندریاسین سے، درہ آٹر پاس درکوت کو، درہ چھتر“ یارخون چترال کو، ”درہ قرمبر“یارخون چترال کو،”درہ شینج“ واخان کو ”درہ خورہ بورتھ“ ایمت کو، ”درہ قلندریو“ اور درہ چلیج پاس“غندی چپوسن کو ملاتا ہے جبکہ ”پکورہ پاس“وادی اشکومن کو گلگت نلتر سے ملاتا ہے۔اشکومن کی وادیوں میں اکثریت اسماعیلی برادری کی ہے جبکہ بہت کم تعداد میں اہل سنت بھی آباد ہیں۔اشکومن میں دیامر، ہنزہ، یاسین اور پامیر سے آکر لوگ قدیم زمانے میں آباد ہوئے ہیں۔اشکومن میں ایک طویل عرصہ راجگی نظام رہا ہے۔ آج بھی لوگ راجوں کے اثر سے نہیں نکلے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اشکومن کی قدیم تہذیب میں بدھ مت کے اثرات بھی موجود ہیں۔اشکومن میں پرنس آغاخان کی ایماء پر 1948/1947کو پہلا ڈی جے اسکول اشکومن سنٹرکورٹ میں قیام عمل میں لایا گیا جہاں ہنزہ سے میراحمدخان نامی استاد پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔آزادی کے بعد سرکاری اسکول بھی بنائے گے۔ اب تو وادی اشکومن میں آغاخان فاونڈیشن کے ذیلی ادارہ AKESP کے اسکولوں کا جھال بچھا ہوا ہے۔ اقراء روضۃ الاطفال نے بھی دو چار چھوٹے چھوٹے سکول قائم کیے ہیں۔گاہکوچ سے متصل اشکومن کی وادیوں میں شینا، گجری، بروشسکی اور وخی زبانیں بولی جاتی ہیں۔میں نے 2013ء کو بھی اشکومن کی وادیوں کا سیر کی ہے۔ اب کی بار بھی جی بھر کر گھوم رہا ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ دل نہیں بھرا۔دل نے بھرنا بھی نہیں۔ حسن اپنی طرف مائل کررہا ہے۔اور حسن انسان کی کمزوری ہے۔انسان اپنی کمزوریوں کے سامنے جھک جاتا ہے۔ پھر تو انسانوں نے یہاں آنا ہے اور بار بار آنا ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply