سیکولرائزیشن، سیکولرزم اور مذہبی آزادی۔۔۔۔۔۔ محمد دین جوہر

سوال:(۱) مجھے اس امر کی کچھ مزید وضاحت مطلوب ہے کہ بالفرض اگر سیکولر طبقات مضمون ہٰذا [سیکولرائزیشن، افعالِ انسانی اور اعمال صالحہ] میں فرد اور سسٹم کے مابین جاری اس جدلیاتی کشمکش میں سسٹم کے فرد پر ہر اعتبار سے حاوی ہونے کا منکر ہو [تو]؟ کیونکہ اس سسٹم کی طرف سے فرد کو عبادات کے لئے دی گئی آزادی اور اجتماعیت کی حامل اقدار (جیسے آنجناب نے عدل اجتماعی کی مثال بھی دی) پر اصرار کے ساتھ ساتھ اس فرد کو انفرادی اقدار اور اعمال صالحہ (مثلاً صلہ رحمی، ایثار، تواضع) کے اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہے (اگرچہ وہ سسٹم خود ان انفرادی اختیار کی جانے والی اقدار اور اعمال صالحہ کا پرچاری نہ بھی ہو)؟ دریں صورت اس سسٹم کو فرد کا جبری خدا قرار دینا کیونکر درست ہو گا (کما ھو زعمہم)؟؟؟
اسحاق الہندی صاحب(۲) میرے سوال کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ سسٹم فرد کو عبادات و اجتماعی اقدار کو بروئے کار لانے میں مزاحم نہ بن رہا ہو تو کیا تب بھی اسے خدا کی replacement کہا جا سکتا ہے؟
عمر فائق صاحب
۔۔گزشتہ دنوں سیکولرائزیشن اور اعمال صالحہ کے حوالے سے ایک پوسٹ پر دو احباب نے مندرجہ بالا اہم سوال اٹھایا۔ مذکورہ پوسٹ میں زیربحث امر یہ تھا کہ سیکولر تصورات پر قائم ہونے والا اجتماعی سیاسی اور معاشی نظام فرد پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے، اور اس کی اخلاقی خودی کیونکر نئی تشکیل میں ڈھلتی ہے۔ میری رائے میں اخلاقی خودی کی یہ نئی تشکیل مذہبی مطالبات کے برعکس ہے، اور بالآخر مذہب کے خاتمے کا باعث بنتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکولر نظمِ اجتماعی نجی دائرے میں فرد کی آزادی پر براہ راست کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اگر مذہبی مطالبات کو ذاتی اوراد و وظائف اور عبادات، اور مکارم الاخلاق کو ’سماجی‘ اچھائی اور ڈسپلن تک محدود سمجھا جائے تو سیکولر نظم اجتماعی اور مذہب میں کوئی تضاد، تخالف اور تغایر نہیں رہتا۔اپنی بے بضاعتی کے باوجود، سابقہ تحریر سیکولر نظم اجتماعی میں واقع ہونے والی نئی انسانی تشکیل جیسے اہم موضوع کو سمجھنے اور اس میں احباب کو شریک کرنے کی ایک کوشش تھی۔ سیکولرائزیشن کا پروسث سیکولرزم کی براہ راست پیدا کردہ اجتماعی صورت حال کا لازمہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سیکولر تصورات جس اجتماعی سیاسی اور معاشی نظام کو جنم دیتے ہیں، سیکولرائزیشن اس نظام ہی کی تاثیرات ہیں۔

گفتگو میں ابہام کی بنیادی وجہ ’اجتماعی‘ اور ’معاشرتی‘ کا التباس تھا جس کی میں خاطر خواہ وضاحت نہیں کر پایا۔ اجتماعی اور معاشرتی دو مختلف چیزیں ہیں، اور انہیں مساوی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ’اجتماعی‘ سے مراد ہر وہ عمل اور ادارہ ہے جس میں سیاسی طاقت اور اس کا کوئی نہ کوئی تصور موجود ہو، جبکہ معاشرتی ہر وہ عمل ہے جس میں طاقت یا اس کا کوئی تصور غیرحاضر ہو۔ عبادات اور اخلاق وغیرہ فرد کی نجی، خانگی اور سماجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں، اور بالعموم وسیع تر معاشرے پر اس کا اثر معمولی ہوتا ہے۔ ’فرد‘ کو ٹھیک کر کے معاشرے کو بہتر بنانے کا موقف بے خبری اور نادانی سے پیدا ہوتا ہے۔ معاشرہ اصل میں وہی کچھ ہوتا ہے جو یہ اپنے سیاسی عمل اور نظام میں ہوتا ہے۔

اجتماعی کی ضروری تفصیل یہ ہے کہ اس سے مراد ’سیاسی عمل‘ اور اقتدار ہے۔ معاشرے میں واقع ہونے والا سیاسی عمل عبادات اور اخلاق وغیرہ سے قطعی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ عبادات، اخلاق وغیرہ سیاسی عمل سے اثر قبول کرتی ہیں، لیکن سیاسی عمل پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہب سیاسی طاقت سے کوئی مطالبات رکھتا ہے یا نہیں؟ یقیناً، اور وہ بہت واضح ہیں۔ سیاسی طاقت سے مذہب کا مطالبہ حدود اور قانون کے دائرے میں ہے، اور اس مطالبے کا مطلب یہ ہے سیاسی طاقت absolute sovereign نہیں ہو سکتی۔ دوسرا مطالبہ سیاسی طاقت کے ذریعے قائم ہونے والے معاشی نظام سے ہے کہ سود پر قائم نہیں ہو گا، اور زکٰوۃ کا نظام نافذ ہو گا۔ سیکولرزم اور مذہب میں بنیادی تضاد اسی جگہ پر ہے، اور مذہب کے نجی مسئلہ ہونے کا مسئلہ بھی یہیں سے پیدا ہوا ہے۔ سیکولرزم، سیاسی طاقت اور معاش کا جو بھی نظام قائم کرتا ہے، وہ مذہب کی ضدِ عین ہے۔ اور یہ نظام قائم ہونے پر اپنے زیرسایہ زندگی گزارنے والے افراد کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ اب اس سسٹم میں رہتے ہوئے فرد عبادات کی پابندی کر سکتا ہے، اور ثقافتی اور تنظیمی اخلاقیات پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک ایسے سیاسی اور معاشی نظام کی عطا ہے جو مذہب کی بنیادی ترین اجتماعی اقدار کے رد پر قائم ہوتا ہے۔

سیکولرزم کے زیر سایہ مذہبی آزادی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کے تعین کا اختیار مذہب کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اس کا دائرہ سیکولرزم متعین کرتا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ مذہب معاشرے کے اجتماعی معاملات سے قطعی طور پر خارج ہو گا۔ سیکولرزم اور مذہب میں بنیادی خلط مبحث اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک سیاسی عمل اور نظام کی درست معنویت متعین نہیں ہو سکی۔ مذہب سے اخذ ہونے والے متداول سیاسی تصورات بھی دراصل سیکولر سیاسی عمل اور نظام کو مضبوط بناتے ہیں، اور مذہب کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس حوالے سے قطعی بات یہ ہے کہ سیاسی عمل، اقتدار، سرمایہ اور طاقت ہر معاشرے کی طرح مسلم معاشرے کے لیے بھی بنیادی ترین اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے بالمقابل عبادات، اخلاق، تقویٰ، علم، کلچر وغیرہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، اگرچہ اپنی جگہ ان کی اہمیت مسلم ہے۔ مخالفانہ سیاسی طاقت سے عبادات وغیرہ کی صرف گنجائش کی استدعا کی جا سکتی ہے۔ فلاح آخرت کی بنیاد تقوی اور تزکیہ ہے اور فلاح دنیا کی بنیاد سرمایہ اور سیاسی طاقت ہے۔ سیکولر فکر اور سیکولر نظام یہ بات سرے سے قبول ہی نہیں کرتے کہ مذہب کا ان اجتماعی امور سے کوئی سروکار ہو سکتا ہے۔ بطور مسلمان ہم نے یہ بات سمجھنے میں ازحد تاخیر کی ہے کہ معاشرے کی تشکیل اور فرد کی تشکیل کے ذرائع باہم مختلف ہیں، اور آج بھی ہمارے مسائل کے لاینحل ہونے کی بڑی وجہ ان ذرائع میں التباس ہے۔

محمد دین جوہر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply