الٹے قدموں کا سفر۔۔۔شکور پٹھان

جانے کیوں ایسا لگتاہے  کہ یاروں کا جی میری باتوں سے اوب گیا ہے۔ ایک سے قصے بار بار سناتا ہوں۔ دنیا آگے کی جانب دیکھ رہی ہے اور میں گئے دنوں کے قصے ہی سناتا رہتا ہوں۔ لوگوں کی نظریں آنے والے وقت پر لگی ہیں کہ دنیا کیا سے کیا ہونے والی ہے۔ اور میں یہی رونا روتا ہوں کہ دنیا کیا تھی اور کیا ہوگئی۔ یقیناً آنے والی دنیا بہت خوبیوں والی دنیا ہوگی۔ آج کی دنیا بھی بہت خوب ہے۔ ہر کسی کے پاس وہ کچھ ہے جو کبھی ، کسی کسی کو ہی میسر ہوتا تھا۔
اور کیا یہ اچھی بات نہیں کہ آج جھگیوں میں بھی رنگین ٹیلیویژن ہے، خاکروب کے بھی کانوں پر موبائل فون لگا رہتا ہے۔ مزدور کا بچہ بھی کمپیوٹر کا استعمال جانتا ہے۔ جن محلوں میں کبھی کبھار ایک آدھ کار نظر آتی تھی ، وہاں آج ہر دوسرے شخص کے پاس کار یا موٹرسائیکل ہے۔وقت نے سفر بڑی تیزی سے طے کیا ہے اور اس میں مزید تیزی آتی رہے گی۔ پھر میری سوئی کیوں گئے دنوں میں ہی اٹکی رہتی ہے۔ اور شاید دنیا اسی طرح تیزی سے آگے ہی آگے بڑھتی جارہی ہے۔ لیکن میرے وطن کا حال پہلے سے بھی زیادہ بے حال ہوا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج ہی کی ایک خبر سن لیں۔۔برازیل کے شہر ریو میں اولمپک کھیلیں شروع ہوگئی ہیں جس میں ” سات رکنی” پاکستانی دستہ بھی شامل ہے۔ کیا آج سے بیس پچیس سال قبل بھی ہمارا “سات رکنی” دستہ شرکت کیا کرتا تھا۔ مجھے اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔آج میرا بیٹا جس نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے، اور جسے آج کے دور کی تمام ایجادات سے کما حقہ آگاہی ہے۔ لیکن اسے یہ نہیں خبر کہ پاکستان کے صدر کا نام ” ممنون حسین” ہے، جبکہ مجھے دوسری جماعت میں، جی ہاں جب میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا تو مجھے علم تھا کہ پاکستان کے صدر کا نام جنرل ایوب ہے، مغربی پاکستان کا گورنر نواب امیر محمد خاں ہے، مشرقی پاکستان کے گورنر کا نام عبدالمنعم ہے اور یہ کہ جنرل موسی کمانڈر انچیف ہے اور اصغر خان فضائیہ اور اے آر خان بحری فوج کے سربراہ ہیں۔ اور اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا۔ میرے ساتھ کے سارے بچوں کو یہ سب کچھ معلوم تھا۔ انہیں کیوں کر معلوم تھا، یہی آج کی کہانی ہے جو میں آپ کو سنانے جارہا ہوں۔

اب تک آپ سب جان گئے ہوں گے کہ میں نے کراچی کے پسماندہ ترین علاقے” لیاری” میں آنکھ کھولی۔ ہم جہاں رہتے تھے یہ علاقہ بہار کالونی کہلاتا تھا جس کے ایک طرف چاکی واڑہ اور روانگی واڑہ ،( جہاں چمڑے کے کارخانےہروقت شدید ترین بدبو پھیلاتے رہتے تھے) اور دوسری طرف آگرہ تاج کالونی، اور لیاری ندی جس کے اگلے کنارے شیرشاہ کی آبادی تھی، اور یہ سارے علاقے، غربت، پسماندگی اور گندگی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔  اور اس بہار کالونی کے مشرق میں ٹینری روڈ اور مغرب میں مسان روڈ واقع تھے۔ ان دونوں سڑکوں کو ایک کچی سڑک ملاتی تھی جو فلاح روڈ کہلاتی تھی۔ اس فلاح روڈ کے عین درمیان ایک جانب بہار کالونی کی جامع مسجد الفلاح تھی، جس کے ساتھ یہاں کا مشہور فٹبال گراؤنڈ تھا جہاں شہر کی بہترین ٹیمیں ٹورنامنٹ کھیلنے آتی تھیں۔ یہاں مسجد کے سامنے ایک گھر جس کی پیشانی پر سیمنٹ سے بڑے حرفوں میں ” قبلہ نما” لکھا ہوا تھا،اور اس گھر میں جامعہ کراچی کے استاد، ریڈیو کے مشہور کوئز ماسٹر اور اردو میں کئی سائنسی کتابوں کے مصنف، میجر آفتاب حسن رہتے تھے۔ میدان پار کر کے دوسری جانب جہاں مسلم اسکول ہوا کرتا تھا وہاں اسکول سیے پہلے ایک گھر کے سامنے اونچے سے چبوترے پر ‘ شمشیر علی بیگ’ صاحب کی با رعب شخصیت براجمان نظر آتی۔ یہ صدر مملکت کے باڈی گارڈ دستے کے سالار تھے۔ مسلم اسکول میں اکثر وبیشتر اسکول کے بانی ‘آزاد بن حیدر ‘ قدم رنجہ فرماتے، جو کونسل مسلم لیگ کے لیڈر تھے۔

فلاح روڈ کی دوسری جانب گورنمنٹ گرلز اسکول تھا۔ اس سے دو گلیاں چھوڑ کر ہمارا مکان تھا، جہاں ہم کرائے پر رہتے تھے۔ اسکول کی پچھلی گلی میں ایک لمبی سی ناک والا لڑکا رہتا تھا جو اکثر میرے چھوٹے چچا سے ملنے آتا۔ اس کا نام جامع الحسن موہانی تھی، اور یہ مولانا حسرت موہانی کا نواسہ تھا۔ مسجد اور میجر صاحب کے گھر کے درمیانی میدان میں ‘ماجد جہانگیر’ نامی ایک نوجوان نے بغیر گڈی کی سائیکل مسلسل پانچ دن تک چلانے کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اسے شہرت ڈھاکہ کی فلموں میں کام کرکے ملی جہاں وہ “کے کمار” کے نام سے مشہور ہوا۔ یہیں کہیں عبدالقادر کا گھر تھا جس نے خالد عباداللہ کے ساتھ مل کر آسٹریلیا کے خلاف اپنے پہلے ہی میچ میں پچانوے رنز بنائے تھے۔ (عباداللہ نے پاکستان کی جانب سے اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری بنانے والے پہلے کھلاڑی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ )لیکن جب ہم وہاں تھے، عبدالقادر کو کوئی نہیں جانتا تھا، ہاں اس کے بھائی عبدالعزیز کا نام پورے بہار کالونی میں مشہور تھا۔ نوجوان عبدالعزیز ، قائد اعظم ٹرافی کے ایک میچ میں سینے پر گیند لگنے سے جاں بحق ہوگیا تھا۔

یہ وہ علاقہ تھا کہ اگر آپ دیکھیں تو ناک پر رومال رکھ لیں۔ لیکن یہاں کے باسیوں کو دیکھیں تو شہر کے ترقی یافتہ علاقے بھی یہاں کے پاسنگ نہ ہوں۔
ایسا کیوں تھا۔ یہ بھی جان لیں۔
گورنمنٹ اسکول بہار کالونی جہاں میں نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا، مجھے اب تک یاد ہے کہ ‘کچی اور پکی پہلی’ کے بچے ٹاٹ پر بیٹھ کر کسب علم کرتے تھے۔ دوسری کلاس سے میٹرک تک البتہ کرسیاں اور ڈیسک تھے۔ اس اسکول کے کوریڈور میں ٹیبل ٹینس کی میز تھی اور چھوٹے سے میدان میں والی بال کا کورٹ تھا۔ ایک کونے کے کمرے میں کرکٹ ، ہاکی اور فٹبال کے سامان کے ساتھ ایک کونے میں سنگینیں لگی ہوئی بندوقیں تھیں جو اسکاؤٹس کے استعمال میں آتی تھیں۔ اور یاد رکھئیے ، یہ گورنمنٹ اسکول تھا، جسے پیلا اسکول کہتے تھے، اور جہاں پرائمری اسکول میں تعلیم مفت تھی۔ اور یہ سن ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ ذرا آج کے، اس ترقی یافتہ’ دور کے “لٹل بوپیپ” اور بابا بلیک شیپ اسکول جہاں ہزاروں میں فیسیں ہوتی ہیں ، جا کر دیکھیں ، اور دیکھیں کہ وہاں کون کون سی غیر نصابی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

کھیل کود کیا ہوتے ہیں۔ آج کمپیوٹر اور موبائل فون اور گیم پارلر میں کھیلنے والے بچوں کو شاید اس لطف اور اس ماحول کا اندازہ ہی نہ ہو۔ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشونما، ہماری آج کی ترجیحات میں کہیں ہیں تو مجھے بھی مطلع فرمائیں۔
واپس آئیے ہمارے محلے کی طرف۔ جن لمبی ناک والے حسرت موہانی کے نواسے کا میں نے ذکر کیا، ان کے گھر کے سامنے، یعنی گرلز اسکول سے ذرا ہٹ کے، اونچائی پر بنی ہوئی ایک چھوٹی سی عمارت پر بورڈ لگا ہوا تھا ” مخزن ادب، لائبریری و دارالمطالعہ” ۔ یہاں آپ ممبر بن کر کتابیں گھر لے جا سکتے ہیں، اور بغیر ممبر شپ کے یہیں بیٹھ کر کتابیں پڑھ سکتے ہیں۔ چوتھی جماعت تک ہم اس محلے میں رہے۔ مخزن ادب سے بچوں کے ناول کے علاوہ ” کھلونا نئی دہلی” ، اور ” تعلیم و تربیت’ بھی لاتے تھے، جنھیں بڑے بھی شوق سے پڑھتے تھے۔
شام کے وقت لائبریری بھری ہوتی، اور کیوں نہ ہوتی۔ یہ وہ دور تھا جب میرے ابا ایک سو دس روپے کماتے تھے، جس میں سے چالیس روپے گھر کے کرائے میں چلے جاتے تھے۔ ہمیں روزانہ دو پیسے جیب خرچ ملتے تھے، جن سے ہم ایک پیسے کے اتنے چنے لیتے تھے جتنے آج شاید پندرہ بیس روپے میں بھی نہ آئیں اور ایک پیسے سے تین ” یونین کے بسکٹ” یا پھر دو پیسے کی “بی پی’ کی ٹافی خریدتے تھے۔ لیکن تنخواہ والے دن ابا ہمارے لئے کبھی ” پھلواری” تو کبھی “غنچہ” یا کبھی “بچوں کی دنیا” یا ” نونہال” جیسے رسالے لے کر آتے۔

اور ابا، اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ تقسیم کے ہنگاموں میں اپنا میٹرک کا امتحان نہ دے سکے تھے، لیکن مطالعے کے شوق کا یہ عالم تھا کہ کام سے گھر آتے ہوئے دو چیزیں ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتیں۔ا یک تو ہم بچوں کے لئے کوئی پھل، یا مٹھائی یا کوئی اور کھانے کی چیز، اور دوسرا کوئی نہ کوئی اخبار یا رسالہ۔ ابا جو کئی زبانیں جانتے تھے، انگریزی اور اردو کے علاوہ وطن اور ملت گجراتی بھی لاتے۔ کبھی کبھار ان کے ہاتھ میں مراٹھی کی کوئی کتاب بھی ہوتی جو ہندوستان سے آنے والے کسی رشتہ دار نے لائی ہوتی۔ انگریزی کے شام کے اخباروں کے علاوہ، “السٹریٹڈ ویکلی آف پاکستان ” یا “اسپورٹائمز” وغیرہ لاتے۔ اور وسیع المشربی کا یہ حال تھا کہ جماعت اسلامی کے رسائل ” ترجمان القرآن” کے علاوہ، ماہر القادری کا “فاران” یا تجلی بھی ان کے ہاتھ میں ہوتا۔ مطالعے کا یہ شوق مذہبی رسالوں تک ہی محدود نہیں تھا۔ ادبی رسالے، ماہ نو، نقاد، شعور، نیا دور، سیپ، افکار، اور نقوش کے علاوہ شمع نئی دہلی اور بیسویں صدی نئی دہلی بھی ہمارے گھر میں یہاں وہاں نظر آتے۔ کبھی کبھار فلمی رسالے رومان یا ایسٹرن فلم یا فلم فئیر بھی خرید لاتے۔ اور تو اور میں نے اپنے گھر میں “الفضل” بھی دیکھا جو کہ جماعت احمدیہ کا ترجمان تھا۔

پڑھنے کا یہ شوق ایک بیماری کی طرح تھا۔ چوتھی جماعت میں جب میں اپنی دادی کے پاس رہتا تھا اور چھٹیوں پر گھر آتا تو ابا اور باجی نے میرے لئے۔ سندباد جہازی، حاتم طائی، عمروعیار، داستان امیر حمزہ، گل بکاؤلی اور گل صنوبر وغیرہ کی کہانیاں جمع کر کے رکھی ہوتیں۔ اور یہ بیماری بچپن سے تھی کہ گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تو اسے کھانے کے ساتھ ساتھ کوئی اچھی سی کتاب پڑھنا ضروری ہوتا۔ جتنی اچھی کتاب ہوتی اتنا کھانا مزیدار لگتا۔ یا جتنا کھانا ذائقے دار ہوتا، اتنی کتاب بھی پرلطف لگتی گویا کہ  ” نشہ بڑھتا ہے  شرابیں جو  شرابوں میں ملیں”۔۔

پانچویں کلاس میں آئے تو کورنگی کے ایک چھوٹے سے پرائیوٹ اسکول میں داخلہ لیا جو دو کوارٹروں پر مشتمل تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بے ایمانی اور بدعنوانی نے ہمارے اندر جڑ نہیں پکڑا تھا۔ اسکولوں کو جو گرانٹ ملتی تھی اس کا ایمانداری سے استعمال ہوتا تھا۔ یہ ایک ٹوٹا پھوٹا سا اسکول تھا لیکن یہاں بھی دو چیزیں قابل ذکر تھیں، ایک تو ہاکی کی  سٹکیں اور دوسرے ایک چھوٹی سی لائبریری۔ لیکن شاید کسی بہت ہی باذوق استاد نے اس لائبریری کے لئے کتابوں کا چناؤ کیا تھا۔ اس لائبریری سے میں پہلی بار فیروز سنز کے بچوں کے ناولوں سے روشناس ہوا۔ ” عالی پر کیا گذری” محمود کی آپ بیتی” دو یتیم” بہادر علی” اور اس قسم کے بچوں کے معیاری ناول پڑھنے ملے۔

جہاں بہار کالونی میں پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت تھی، وہاں کورنگی میں مزدور طبقے کی اکثریت تھی۔ لیکن یہاں بھی ‘ ناصر لائبریری ” کی صورت ہمارے ذوق مطالعہ کی تسکین ہوجاتی۔ اب یہاں سے پہلی بار ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور عمران سیریز سے ایک ایسا رومانس شروع ہوا کہ عمران سیریز کے اگلے ناول کا انتظار محبوب کے فراق سے زیادہ جاں گسل ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی نسیم حجازی کے ناولوں کا دور بھی شروع ہوا اور تقریباً سارے ناول پڑھ ڈالے۔ نسیم حجازی کا “خاک اور خون” تو نجانے کتنی ہی بار پڑھ ڈالا۔ اسی طرح عمران سیریز کے زمین کے بادل، ڈاکٹر دعاگو، پیاسا سمندر اور شوگر بینک وغیرہ بھی لاتعداد مرتبہ پڑھے۔

ابن صفی اور نسیم حجازی کے ناول تو دھڑلے سے گھر لے آتے تھے جو اگر ابا کے ہاتھ لگ جاتے تو پھر جب تک وہ ختم نہ کرلیں واپس نہیں ملتے تھے، لیکن ایم اسلم، قیسی رامپوری، دت بھارتی اور عادل رشید کے کے ناول گھر میں کم ہی لاتے کہ ہم نے خود ہی اپنے اوپر سنسر نافذ کیا ہوا تھا۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ گھر میں ابا کے علاوہ باجی اور امی بھی پڑھنے کے شوقین تھے۔
نویں جماعت سے لے کر بارہویں تک پھر دادی کے پاس رہنے چلا گیا، لیکن اب وہ بہار کالونی نہیں بلکہ سوسائٹی کے صاف ستھرے اور متمول علاقے میں رہتی تھیں۔ یہاں ایک محلے دار (جو کہ این ای ڈی کالج کے بہت ہی ہونہار طالبعلم تھے اور آگے چل کر ایک بہت بڑی غیرملکی کمپنی کے وائس پریذیڈنٹ بنے اور آئی بی اے کے استاد بھی رہے، ) نے اپنے گھر پر لائبریری کھولی اور کرائے پر انتہائی معیاری کتابیں صرف ایک آنہ روزانہ پر دینا شروع کیں۔ یہاں میری کزنز بھی رہتی تھیں چنانچہ اب گھر میں اے آر خاتون اور زبیدہ خاتون کی افشاں، شمع، کرن، ہالہ رومانہ اور تصویر اور رضیہ بٹ کی نائلہ، صاعقہ، وحشی اور سلمی کنول کی عندلیب جیسے ناول نظر آنے لگے۔

اب تک لیکن ادب عالیہ سے دور ہی تھے۔ نویں جماعت کے بعد ہی کہیں جا کر، پریم چند، پطرس، عصمت چغتائی۔ یلدرم اور میر، سودا، درد اور غالب سے شناسائی ہوئی اور ایک نئی دنیا آشکار ہوئی۔ کچھ تو نصابی کتابوں میں ہی ان بڑے ناموں کی تحریریں مل جاتیں، اور وہ جو کہتے ہیں ناں کہ خدا شکر خورے کو ہمیشہ شکر دیتا ہے۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد پھر کورنگی واپس آگیا۔ یہاں اب ایک حلقہ ان دوستوں کا تھا جو شعر وادب کا شغف رکھتے تھے۔ میرے عین پڑوس میں ایک دوست تھے جو ” چھڑے” تھے اور ان کا کمرہ محلے بھر کے لڑکوں کی بیٹھک ہوتا تھا۔ ہمارے یہ دوست ریڈیو پاکستان کی لائبریری میں کام کرتے تھے اور کبھی کبھار فرمائشی پروگرام بھی پیش کرتے تھے۔ یہ لائبریری سی کبھی انشاء جی، کبھی یوسفی صاحب یہ کسی ایسے ہی معتبر نام کے ادیب کی کتابیں لے آتے لیکن چونکہ یہ سرکار کی امانت ہوتیں چنانچہ دوستوں کو نہیں دیتے۔ بلکہ اس کا حل یہ نکالا کہ بغیر دودھ کی چائے بنائی جاتی اور ہمارے یہ اناؤنسر دوست کتاب کی تلاوت کرتے جیسے آج کل ضیا محی الدین کرتے ہیں، اور ہم سب ہمہ تن گوش سنتے رہتے۔

اور یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ دوسرے ادباء یعنی اشفاق احمد، اے حمید، ندیم قاسمی، کرشن چندر، منٹو، شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، کنہیا لال کپور وغیرہ وغیرہ کو بھی ساتھ ساتھ پڑھا جاتا۔ اس کے علاوہ اردو اور سیارہ ڈئجسٹ  جنہیں بچپن سے پڑھتے آئے تھے اب ان کے علاوہ انشا (عالمی) ڈائجسٹ، سب رنگ، جاسوسی ڈاءجسٹ اور نئے افق بھی زیر مطالعہ رہتے۔ ریڈیو کے دوست کی بدولت ” آہنگ” بھی پابندی سے ملتا رہتا۔

لیکن اب وہ وقت آگیا کہ سارا مطالعہ، گوگل اور وکی پیڈیا پر ہونے لگا۔ چونکہ زمانہ ترقی کرگیا ہے اس لئے قلم اور کتاب کو فارخطی دے دی گئی۔ پڑھنے والے نہ رہے تو لکھنے والے بھی غائب ہوگئے۔ لیکن جسے پڑھنے کی “ٹھرک” ہو وہ کیا کرے۔ بالآخر تھک ہار کہ میں نے بھی فیصلہ کرلیا کہ زمانے کو اپنی چال چلنے دو۔ کوئی لکھے یا نہ لکھے۔ پڑھنے والے رہیں یا نہ رہیں۔ اب میں خود لکھوں گا۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply