ڈھول اورخٹک،تاریخ کے جھروکوں سے۔۔۔۔۔عارف خٹک

ڈھول کی تھاپ اللہ ہمیں نا سُنائے۔کیوں کہ اس کو سُننا اور خاموشی سے سُننا،اور   اُس کے بعد پھر ہاتھ پیروں کو کنٹرول میں رکھ پانا بالکل ایسا ہی ہے۔جیسے سُہاگ رات کو ایک شوہر پر اس کی بیوی یہ کہہ کر بم گرا دے۔کہ مُجھے لال جھنڈیاں لگی ہیں۔

ڈھول آپ کے ہاں خوشی میں بجتا ہے۔ مگر خٹک قبیلے میں ڈھول کی شروعات میدان جنگ سے ہوئی ہے۔ دُشمن پر حملہ کرنے سے پہلے فوجیوں کو ڈھول کی مخصوص تھاپ پر رقص کروایا جاتا۔اور یہ رقص آہستہ آہستہ اتنا جنونی ہوجاتا۔کہ دل جذبۂ شہادت سے بھر جاتا۔اور وہ یہ بھول جاتے۔کہ جس پر حملہ کیا جارہا ہے۔وہ بھی  اُن جیسے کلمہ گو اور ہم زبان ہیں۔اور یوسفزئی ہیں۔ لہذا ڈھول خٹک قبیلے میں ایک جنگی طبل کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی فرنٹیئر کور میں خٹک ڈانس کے اپنے اپنے پلاٹون ہیں۔ جن کا کام صرف ناچنا ہوتا ہے۔لیکن یہ ضروری نہیں ،کہ کوئی جنگ بھی ہورہی ہو۔
میرا دوست ڈاکٹر اعجاز یوسفزئی فرزانہ لیب والا کہتا ہے۔ کہ یوسفزئیوں کا خون ناحق کا ہی نتیجہ ہے کہ خٹک آج تک ناچ رہے ہیں۔

اگر آپ سمجھ رہے ہیں، کہ میرا قبیلہ دنیا کا سب سے شریف ترین قبیلہ ہے۔تو یقینًا آپ غلطی پر ہیں۔البتہ سیکولرازم جو خوشحال خان سے وراثت میں ملی ہے۔ ابھی بھی اس قبیلے کی سرشت میں شامل ہے۔ مولوی اور مُقتدی ایک ہی صف میں ناچتے ہیں۔ بلکہ بچپن میں،میں نے اپنے گاؤں کے امام مسجد کے پاس اپنا ذاتی ڈھول  بھی دیکھا ہے۔ کہتا تھا ثواب کا کام ہے۔ گاؤں والوں کو سحری اور افطاری اسی سے کرواتا ہوں۔ کیوں کہ آذان تو 1990ء کے اواخر میں متعارف کروائی گئی ہے۔جب بجلی کی سہولت سے ہمیں پتہ چلا کہ ہم پاکستانی ہیں اور مسلمان بھی ہیں۔

خٹک قبیلہ کبھی بھی انتہاء پسند نہیں رہا ۔کیونکہ انتہاء پسندی جہاں ختم ہوتی ہے۔وہیں سے خٹک شروع ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اگر دُشمن پر حملہ کرنا ہو،تو ڈھول بجایا جاتا ہے۔ نا بھی کرنا ہو تو بھی ڈھول بجایا جاتا ہے۔ اگر دشمن کو شکست ہو تب بھی ڈھول بجایا جاتا ہے۔اگر وہ آپ کو شکست سے ہمکنار کردیں۔تب بھی اُسی کے بجائے ہوئے ڈھول پر آپ کو ناچنا پڑتا ہے۔اور تو اور سحری کیلئے بھی ڈھول کا رواج ہم نے دیکھا ہے،اور بھگتابھی ہے۔ بس خٹک قبیلے کی یہ خواہش اب تک پوری نہیں ہوسکی کہ جنازہ بھی ڈھول کےساتھ ہو۔
میرا تعلق اس قوم سے ہے۔ جہاں مسجد میں بھی ڈھول کی آواز آئے،تو یہ نہیں سوچا جاتا کہ ڈھول دشمن بجا رہا ہے۔یا پھر بذات خود حریف کو شکست خوردہ کیا گیا۔مگر وہ ٹوپی پھینک کر بھنگڑا ڈالنا شروع کردیتا ہے۔

خٹک مذہب اور نفس دونوں میں انتہاء کے قائل ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،جہاں خوشحال خان خٹک اپنے فوجیوں کی امامت کرتا تھا۔وہاں اُس نے وہ وہ اقوال چھوڑے ہیں ،جن کو پڑھنا بذات خود ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
خوشحال خٹک کی پرانی دیوان کے کچھ قصے ہاتھ لگے۔ اشعار پڑھے تو کانوں سے دُھواں، ذہن سے اچھے خیالات، جسم سے گندگی اور قریبی دوستوں سے عزت و احترام سمیت ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اُس نے اپنے دیوان میں لکھا ہے۔کہ صُبح سویرے جب مولوی آذان دینے کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے۔وہاں میری طرف کچھ اور کھڑا ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم خٹک لوگ انتہائی زندہ دل قوم ہیں۔ ہم نے جہاں جہاں علماء کو ووٹ دیئے ہیں۔وہاں وہاں آج بھی قوم پرست سرخ جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ باپ کے ہاتھ اگر مذہبی جماعت کا جھنڈا ہے۔تو بیٹا عمران خان کا رنگین رومال لئے تھرک رہا ہے۔ جمہوریت کا اصل حُسن دیکھنا ہو۔ تو بلاشبہ آپ کرک تشریف لائیں۔ جہاں ابا ایم ایم اے زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے۔ جہاں شریعت کے مطالبے ہوتے ہیں۔ جہاں عریانی فخاشی کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ وہاں بیٹا مولویوں سے جان چُھڑانے کی بات کرتا ہے۔اور سرعام ناچنا اپنا حق سمجھتا ہے۔جہاں بہن کو اے این پی پسند ہوتی ہے۔ تاکہ الیکشن والے لال جھنڈے اُس کی شادی میں کام آسکیں۔ وہاں ماں مصّلے پر بیٹھ کر ان تینوں عزیز اور خونی رشتوں کیلئے دُعا گو ہوتی ہے۔ کہ سب کے اُمیدوار کامیاب ہوں۔
الیکشن سے کسی کو سروکار نہیں ہوتا۔ کہ کون جیتا کون ہارا۔ مگر سب نے مُشترکہ طور پر ڈھول والے کے ساتھ ناچنا ضرور ہوتا ہے۔ آخر میں نتیجہ جو بھی آئے۔یہی باپ بیٹا دونوں ایک ساتھ مل کر ڈھول کے سامنے ناچنے لگتے ہیں۔ اس بار تو ہم نے ایم ایم اے کی دونوں صُوبائی سیٹوں پر جیتے ہوئے نامی گرامی عُلماء کو بھی ناچتے  ہوئے دیکھا ہے۔ یہاں ناچنے سے مراد ہرگز خوشی نہیں ہوتی۔ یہاں ناچنا اور شدید ناچنا دشمن کو شکست دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ جو بھی فریق تھک ہار کر ناچنا بند کردیتا ہے۔ وہ شکست مان لیتا ہے۔ اور ایسے فریق کیلئے پشتو میں ایک بہت بُرا لفظ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس الیکشن پر مُجھ پر بھی کافی الزامات لگے۔ کہ آپ تو نیوٹرل بندے ہو۔ مگر پھر بھی پی ٹی آئی کے ترانے پر آپ کو ناچتے دیکھا ۔ تو دوستوں کے دل کو ٹھیس پہنچی۔
اس دن معمول کے مطابق ہم چاک گریبان شہر کے نظارے دیکھ کر سبق حاصل کررہے تھے۔ کہ بھائی بھائی کا مخالف بنا ہوا تھا۔ میاں بیوی کے سیاسی اختلافات آسمان کو چُھو رہے تھے۔ ایسا ہی دُھواں دُھواں سا ماحول  ہر طرف دکھائی دے رہا تھا۔
پہلے ن لیگ کے کیمپ پر گیا۔ سب غمگین تھے۔ ایم ایم اے والوں کے ہاں بھی سناٹا تھا۔ پی پی پی کے قومی ترانے والے دھن نے کبھی مُتاثر نہیں کیا۔ پی ٹی آئی والے بھی ماتم زدہ چہرے لئے گُھوم رہے تھے۔ اچانک شاہد خٹک کا فون آیا، کہ لالہ میں جیت گیا ہوں۔ میں نے نعرہ لگایا۔ اور پی ٹی آئی والے بنا سوچے سمجھے تھرکنے لگے۔ ان کےلئے بس نعرہ کافی تھا۔ سو خود پر قابو پانا ناممکن ہوگیا۔میں نے ناچنا شروع کیا۔ اتنا ناچا،اتنا ناچا،کہ سارے گُھنگھرو تُڑوانے کے بعد اگلے دن اپنی بیگم کے سپائنل سرجن سے ملاقات ناگزیر ہوگئی۔
بس یہی کہانی ہے۔ ورنہ ایم ایم اے والوں سے کہیں۔کہ ڈھول بجاکر تو دکھائیں زرا۔ مایُوس نہیں کروں گا۔
انشاءاللہ

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ڈھول اورخٹک،تاریخ کے جھروکوں سے۔۔۔۔۔عارف خٹک

  1. زندگی میں رب تعالیٰ کی انسان کو رشتوں کی صورت میں عطا کردہ نعمتوں کے کیا کہنے مگر ان سب میں دوستی وہ نایاب نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے دوستی رب کائنات کا وہ تحفہ ہے جو قدرتی رشتوں سے منفرد وہ ناطہ ہے جو ہمت،حوصلہ عطا کرتاہے انسانی خصلت میں شامل ہے کہ وہ جہاں رہتا ہے وہاں کے لوگوں سے اس کی جان پہچان ہو جاتی ہے وہاں کے لوگوں کے ساتھ وہ گھل مل جاتا ہے اور اسے پھر دوستی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ محض جن سے جان پہچان ہو وہ دوستی کے زمرے میں نہیں آتے…

    کسی سے تعلق ہونے کو اس سے ملنے جلنے کو یا جان پہچان کو ہم دوستی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ یہ بہت سے لوگوں کے ساتھ ہو تی ہے لیکن دوست صرف وہی ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہہ سکتے ہیں دوست وہ ہے جو دوست کیلئے اپنی جان تک قربان کر دینے کا حوصلہ رکھ سکتا ہو موجودہ دور میں ایسی باتیں محض کتابی محسوس ہوتی ہیں ہر بندہ اپنی غرض کا غلام ہے مگر پھر بھی دوستی کے رشتے نبھانے والوں کی کمی نہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ دوستی ایک اجالا ہے ایک ایسی روشنی ہے جس کے آگے کسی بھی اندھیرے کا تصور نہیں ہے….

    لیکن یہی دوستی اس وقت سیاہ رات یعنی اندھیرا بھی ثابت ہوتی ہے جب انسان کی پہچان غلط نکلتی ہے جب وہ دوستی اور جان پہچان میں فرق نہیں کر پاتا اور یقین جانیں کہ انسان کو اس وقت بہت دکھ ہوتا ہے جب اسے دوستی کی آڑ میں دھوکا ملتا اور اخلاص و اعتبار کے اس رشتے سے ٹھوکر لگتی ہے تو ایسے میں اس کے پاس کرنے کو یا کہنے کو کچھ نہیں بچتا، عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دوست ایک حسین خواب بھی ہے اور خواہشات سے بھرا ہوا ایک ایسا جزیرہ بھی ہے

    اگر سچی ہو تو دوستی ایک ایسا ہی رشتہ ہے جسے اگر دیکھا اور سمجھا جائے تو بہت مضبوط جسے دنیا کی کوئی طاقت نہ توڑ سکے لیکن اگر اگر آپ میں صبر اور برداشت کی کمی ہے تو یہ رشتہ ٹوٹنے پہ آۓ تو ایک کچے دھاگے سے بھی کمزورہے ،دوست کے تقدس سے دل لبریز ہو تو روشن ہو اور اگر نا شکرا ہو تو پتھر بن جاتا ہے۔حضرت علی کا قول ہے کہ جس کا کوئی دوست نہیں وہ تن تنہا ہے

    ایک اور مقام پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ غریب ہے وہ شخص جس کا کوئی دوست نہیں اور دوست ہمدرد ہوتا ہے اور اس شخص کا کوئی ہمدرد نہیں،نفسا نفسی کے اس دور میں اب کسی سے تعلق واسطہ بھی رسمی اور مجبوری بنتا جا رہا ہے،جب خون کے رشتے کمزور اور کھوکھلے ہونا شروع ہو جائیں تو پھر دوستی جیسے رشتوں پر اعتماد کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے ویسے بھی دوست بنانا یا دوستی رکھنا کسی عام کے بس کی بات نہیں ھے یا خاص لوگوں کا کام ہے اور خاص لوگ وہ ہوتے ہیں جو صابر ہوں، جو خوش نصیب ہوں جو تحمل سے اپنے دوست کی خطاؤں کو معاف کرتے ہوں، ایسے ہی لوگوں کو الله بخت لگاتا ہے اور یہ خوش بختی اس کی دوستی کو مزید چار چاند لگاتی ہے

    یاد رکھیں اچھا اور سچا ، مخلص دوست وہی ہوتا ہے جو اپنے دوست میں خامیاں نہ ڈھونڈے بلکہ اُس کی خوبیوں کو سراہے اور اُس کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے

    یاد رکھیں مخلص دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اوراپنے دوست کی غیر موجودگی میں اُس کی عزت کی حفاظت کرے

    یاد رکھیں مخلص دوست وہ ہوتا ہے جو دوست اگر صحیح مشورہ نہیں دے پاتا تو اُسے غلط مشورہ بھی نہیں دیتا

    یاد رکھیں مخلص دوست وہ وہی جس کی نظر دوست کے عیش وآرام یا دولت پر نہ ہو بلکہ اُس کی اچھائیوں اور اچھی عادات پہ ہو….

    یاد رکھیں مخلص دوست وہی ہے جو آپکی غلطیوں پہ آپکی اصلاح کرے اور آپکی خوبیوں پہ آپکا سراہے…

    قصہ مختصر اگر تو جیون میں دوست کا ساتھ میسر ہے تو آپ خوش قسمت ہیں ورنہ مادی وسائل کے ہوتے ہوۓ بھی اگر ایک مخلص فرد آپکا میسر نہیں تو آپ جیسا تہی داماں اور کوئی بھی نہیں ہے…!!!

    #ہیپی_ورلڈ_فرینڈ_شپ_ڈے

Leave a Reply