تیسری دُنیا۔۔۔سیدعلی احمد بخاری

دور جدید میں جب انسانوں نے مریخ پر آبادکاری کے لئے سنجیدگی سے سوچ بچار اور پلاننگ کرنا شروع کر دی ہے، عین اِسی عہد میں دنیا کے نقشے پر ایک ایسا خطہ پایا جاتا ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کہنےکوتو اِسکو لوگ حویلی فارورڈ کہوٹہ کے نام سے جانتے ہیں مگر حقیقتاً اِس کو بجا طور پر بیک ورڈ کہوٹہ کہا جائے توبے جا نہ ہو گا۔

موجودہ حالات میں اِس خطہ میں داخل ہونے کے دو ہی راستے ہیں ، ضلع باغ سے براستہ ڈھلی لسڈنہ روڈ کو اختیار کیا جائے یا ضلع پونچھ سے ہجیرہ عباسپور روڈ کو اِختیار کیا جائے۔ ڈھلی سے جوں ہی گاڑی لسڈنہ روڈ کی طرف رُخ کرتی ہے، اچانک اُس کو کپکپی اور لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔اچھی بھلی گاڑی کابی پی ڈاؤن ہو جا ہے اور وہ روڈ پر چلنے کی بجائے بمشکل رینگنا شروع کر دیتی ہے۔ ڈھلی سے آگے کہوٹہ کا یہ پچاس کلومیٹر کا سفر ساڑھے تین گھنٹے میں بمشکل طے پاتا ہے جو کہ سفر کم اور ٹارچر زیادہ ہوتا ہے۔گاڑی میں جنگل کے قوانیں نافذ ہوتے ہیں ڈرائیور اور کنڈکٹر  اِس جنگل کے بادشاہ ہوتے ہیں، اُن کی من مانی کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی، وہ سواری کو ناپسندیدہ قرار دے کر کسی بھی جگہ اُترنے جانے کا حکم صادر کر سکتے ہیں، چنانچہ سواری کو فوراً اَپنی شکایت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

اِس تاریخ ساز روٹ پر گاڑیوں کی حالتِ زار کسی عجوبہ سے کم نہیں ہوتی۔ اگر سیٹ پر تھوڑا سا دباؤ پڑ جائےتو گردو غُبار کے جھونکے اِستقبال کرنے کو دوڑتے ہیں۔باوجود اِس اَمر کے ڈرائیور اپنے آپ کو ایف سولہ کا پائلٹ سمجھتے ہیں۔ ہر گزرتی گاڑی کے پاس رُک کر سلام دُعا کرنا گپ شپ کرنا ، حتیٰ کہ گاڑی کی چھت بھی کھچا کھچ بھری ہونے کے باوجود ہر سڑک کنارے ہاتھ دینے والے شخص کے پاس رُک کر پوچھنا کہ کدھر جانا ہے، ہر سواری کو گاڑی میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے اِس طرح کوشش کرنا جیسے یہ آخری گاڑی ہو ۔ یا پھر یہ کہہ کر چلے جا نا کہ جگہ نہیں ہے اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔گاڑی کے اندر ٹیپ پر بے ہودہ میوزک اِس قدر بلند آواز میں چلانا کہ جیسے گاڑی پر تما م سوار افراد بہرے ہوں۔

کہوٹہ پہنچ کرسواریوں کو لاری اڈا میں چھوڑنے کے بجائے بائی پاس پر اِس وجہ سے اُتا ر دینا کہ گاڑی کو واپس موڑنے کے لئے آدھا کلومیڑ کا چکر بچ جائے۔ بے چارے مسافر کواپنا سامان کندھوں پر اُٹھائے اڈے  تک پیدل جانا پڑتا ہے۔ کچھ ڈرائیور تو چار ہاتھ آگے ہوتے ہیں ، وہ تو کہوٹہ سے باغ ساڑھے چار گھنٹے ٹارچر کرنے کے بعد جاتے جاتے ایک اور پیریڈ اِس طرح لگاتے ہیں کہ گاڑی کو کہوٹہ پٹرول پمپ کے پا س سروس سٹیشن پر سواریوںسمیت کھڑا کر کے گاڑی دُھلانا شروع کر دیتے ہیں ۔ بے چارے مسافر جنہوں نے دُور افتادہ گاؤں میں جانا ہوتا ہے اور پہلے ہی بہت لیٹ ہو چُکے ہوتے ہیں ، مزید پریشانی اور ٹینشن کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض حویلی کے ٹرانسپوڑرز حویلی آنے والے مسافرں کے سفر کو مشکل بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں اُٹھا  رکھتے۔اِخلاقیات سے عاری یہ طبقہ اپنی مثال آپ ہے۔ اِس تیسری دُنیا کے لوگ تو اِس صورت حال کے عادی ہو چکے ہیں ، مگر جب کوئی باہر سے پبلک ٹرنسپورٹ کے ذریعے حویلی چلا جائے تو پھر دوسری بار حویلی جانے سے توبہ کر لیتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply