آئیے اس افسانے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ سید مصطفین کاظمی/قسط2

آئیے اس افسانے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ ۔۔۔۔ سید مصطفین کاظمی/قسط1

 

اس دن کے بعد ریحام دکھائی نہیں دی وہ دینا بھیڑ میں کھو گئی تھی

دن مہینوں میں بدل گئے ،بھائی ہیرو سے دیوداس بن چکے تھے ،بات ڈسپرین اور والیم ٹین سے بھی آگے نکل چکی تھی – بھائی نے گھٹیا سے گھٹیا نشہ کر کے دیکھ لیا تھا لیکن عین جوانی میں سچی محبت کا درد کیسے کم ہو ۔۔ریحام کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ۔

بھائی کی خاطر قرشی مسلسل ملتان کی درگاہوں  کے چکر کاٹ رہا تھا اور ترین بھائی کی پارو کی تلاش میں صبح شام ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر لوگوں کے گھروں میں جھانکتا رہتا، کئی بار تو وہ استغفار پڑھتا ہوا لوٹتا ۔ شیدا کبھی ترنگ میں آ کر کہتا ۔
اوئے فئیر کے ویکھ آ ویں ؟؟
تو بیچارا ترین شیدے کے گلے لگ کہ پھوٹ پھوٹ کر رو لیتا لیکن اسے  بولتا کچھ نہیں تھا ۔

ایک دن شیدا اور پرویز  لالا بڑی دیر تک کھسر پھسر کرتے رہے اور پھر بھائی پاس بیٹھ گئے ، بھائی اس وقت بھی مکمل ٹن تھے ۔ شیدا بولا یار تیرا کام ہو سکتا ہے لیکن تجھے بھی ہمت کرنی ہوگی  ۔
بھائی نے کہا۔۔۔۔
بول جانی بول !
رک کیوں گیا تو ۔۔۔۔؟
جانتا نہیں میں پارو کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔
پارو ! پارو ۔۔
ارے سالی گر گئی ۔۔۔۔
خیالات میں گم پرویز لالا نے سٹپٹا کر کہا ۔۔ کون ؟ کہاں ؟
ابے ڈھکن بوتل تھی !!!۔۔۔
شیدے نے اسے چنڈ لگاتے ہوئے کہا ۔۔

خیر پرویز لالا نے بات  آگے  بڑھاتے ہوئے  کہا ۔۔۔بھائی پاروتی مل سکتی ہے لیکن اس کے لئے آپ کو اصلی پٹھان بننا پڑے گا ۔۔۔

یہ سنتے ہی سرور جاتا رہا اور بھائی کو یوں جھٹکے سے ہوش آ یا جیسے کسی نے بجلی کی ننگی تار تھما دی ہو ۔

نہیں یار میں ویسا لڑکا نہیں ہوں ۔۔
“دیکھیں پرویز “آپ سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔
گاؤں والے کیا کہیں گے ۔۔۔میری بھی کوئی عزت ہے کہ نہیں ؟

او ہو جانی تم غلط سمجھ رہے ہو شیدے نے معاملے کو بھانپتے ہوئے کہا ، اصل میں ہم کہنا یہ چا رہے ہیں کہ تمھیں اپنی ٹور بدلنی ہوگئی اور ذرا ہمت دکھانی ہوگی تب جا کر کہیں  بھائی کی جان میں جان آئی ۔

اچھا بتاؤ ۔۔۔

ہوا یوں کہ شیدے اور پرویز لالا کو پتہ چلا کہ بھائی کا دل چرانے والی حسینہ روز  ڈی چوک سے گزر کر کالج جاتی ہے لیکن ڈی چوک نثارے بدمعاش کا علاقہ تھا اور اس کا رابطہ لاہوری گینگ سے تھا یہ وہی غنڈے موالی  تھے  جو اکثر بھائی کی کٹ لگاتے تھے ۔ شیدے اور پرویز لالا کو ڈر تھا کہ اگر انہیں پتہ چل گیا تو بہت برا ہو گا ۔

پاروتی کی الفت اور شیدے جیسے  یاروں نے بھائی کو لمبر ون ڈان بنا دیا اور اکھا کے پی بھائی کے انڈر آ گیا ۔ اب باری تھی پنڈی کی جہاں نثار دن کو وگ پہن کر اور رات کو گنجی سری لے کو عوام میں دہشت پھیلاتا تھا ۔ دو  ایک مرتبہ تو اندھیری رات میں اسے دیکھ کر شیدے جیسے شی جوان کا بھی ترا ہ نکل گیا تھا۔

پہلے پہل بھائی نے پنڈی کے مختلف مشہور مقامات کے چکر لگانا شروع کئے لیکن  جب کوئی کامیابی نہیں  ملی تو ایک دن بھائی نے نثار کے ویڑے میں ڈیرہ ڈالنے کا اعلان کر دیا ۔ بھائی نے پہلے ہی دن ڈی چوک پر قبضہ کر لیا لاہوری گینگ کیلئے  یہ جھٹکا اس قدر شدید اور پریشان کن تھا کہ ان کے پرانے کن ٹٹے خواجے کو مرگی  کے دورے پڑنے لگے ۔ بھائی روز چوک کے بیچوں بیج کھڑے ہو کر آواز لگاتا
اوۓ نواز شریف !
اوۓ نثار !
اوۓ خواجے !
باہر نکلو سالو !

چوک میں ڈیرہ جماکے بھائی نے ایک ہی شارٹ میں دو کام کئے ایک وہاں سے گزرنے والی لڑکیاں اور آنٹیاں چیک میں تھیں اور دوسری طرف حریفوں کو دیوار سے لگا دیا ۔ یہاں سب مزے میں تھے شام کو ناچ گانے کیساتھ ساتھ تاش اور کیرم کا ٹورنامنٹ ہوتا جس میں ملکی کھلاڑیوں کے علاوہ قادری پائی کی قیادت میں کیینڈا سے آئی ہوئی ٹیم بھی حصہ لے رہی تھی۔ عمران موٹا اور فیصل وڈا نے چائنہ کی استری اور گھڑیاں بیچنا شروع کر دیں ۔ قریشی نے چنا چاٹ کی ریڑھی لگا لی اور ترین نے رکشہ اور ٹیکسی کا اسٹینڈ بنا لیا ۔ کبھی کبھی رات دیر گئے فضلو اور سراج بھی بھیس بدل کر پنڈال میں گھس آتے اور سٹیج ڈراموں کی کیسٹیں بیج جاتے تھے سب کی موج لگی ہوئی تھی ۔

پھر ایک دن ٹھیک چوک کے بیچوں بیچ پارو اور شیدے کا سامنا ہو گیا شیدے اور عمران موٹو نے پارو کا گھر تک پیچھا کیا اور جب تسلی ہو گئی تو واپسی پر دوڑتے اور پکارتے ہوئے چوک میں پہنچے ۔
بھائی !! بھائی !
مل گئی ۔۔۔
بھائی وہ مل گئی !!

ہاہاہا جانی بہت دیر لگا دی تم دونوں نے ۔ بھائی نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔
لاؤ میز  پر رکھ دو اور اگر تمھارا موڈ نہیں ہے تو جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا ۔

ارے بھائی ہم نے تیری پارو کو ڈھونڈ لیا !
تیری پارو مل گئی بھائی ۔۔۔۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

سیدمصطفین کاظمی
لوگوں نے گفتگو میں کریدا بہت ہمیں ۔ ہم خود سے ہمکلام تھے اکثر نہیں ملے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply