تتھاگت نظم (32)ہست اور نیست

ہست اور نیست
(ایک)
پس منظر

سانپ کے ڈسنے سے ج�آانند نیلا پڑ گیا، تو
بھکشوؤں نے
ماتمی چادر سے اس کو ڈھک دیا تھا
پھر یکا یک اس ن�آنکھیں کھول دیں
اور واپس آ گیا تھا
زندہ لوگوں کے جہاں میں
معجزہ تھا!
سارے بھکشو
سوتروں کا جاپ کرنے لگ گئے تھے !
(یوں لکھا ہے سانگواں برلاپ نے ’’بُدھاکشی ‘‘ میں)

(دو)
منظر نامہ
کچھ دنوں کے بعد پوچھا بدھّ نے آنند سے
’’بھکشو ، بتاؤ
موت کیا ہے؟
اس کا کچھ اندازہ ہوا کیا؟‘‘

’’ہاں، تتھاگت
ایک اندھی کھائی تھی نیچے کی جانب
جس میں سب ذی روح گرتے جا رہے تھے
کوئی جنّت، یا فرشتے
کوئی دوزخ، یا اسُر، دانَو نہیں تھے (اسُر، دانَو ( (د آ ن َ و)بمعنی بدی کے کارندے ، نجس روحیں)
صرف اک اندھا، اندھیرا
سرد، یخ بستہ خلا تھا!‘‘

ہچکچایا، رُک گیا کچھ دیر کو آنند
بولا
’’کیا، تتھا گت، جنّت و دوزخ کے قصّے
دیوتاؤں، دانووں کی ساری باتیں
سیدھے سادے عام لوگوں کے لیے ہیں؟‘‘

’’ہاں،‘‘ تتھا گت نے کہا، ’’یہ سارے قصّے
عام جنتا کے لیے ہیں
ان میں سچّائی کا عنصر کچھ نہیں ہے
ان کا مقصد عام لوگوں کو خدا کے
خوف سے اخلاق کے رستے پہ لانے کا عمل ہے
اس لیے ان کی افادیت سے میں منکر نہیں ہوں!‘‘

چپ رہا کچھ دیر بھکشو، پھر یکا یک بول اُٹھا
’’جنّت و دوزخ نہیں ہیں، تو تتھاگت
کیا خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے؟‘‘
(اس اہم نظم کے دوسرے حصے کے لیے انتظار کریں)

ھست اور نیست
دوسرا حصہ

حصہ اوّل کے آسخری بند میں آنند نے یہ سوال پوچھا تھا

چُپ رہا کچھ دیر بھکشو، پھر یکایک بول اٹھّا
’’جنّت و دوزخ نہیں ہیں، تو تتھا گت
کیا خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے؟‘‘
اب آگے پڑھیں

’’ہاں، خدا جیسی کوئی ہستی نہیں ہے!‘‘
بُدھّ کی آواز میں نرمی تھی، لیکن
گو مگو کی کوئی کیفیت نہیں تھی
کانپ اُٹھا …. دیکھتا ہی رہ گیا ، آنند بھکشو
’’پیر و مرشد؟‘‘ اس نے استفسار میں آنکھیں اُٹھائیں
ایک زخمی، پھڑپھڑاتی سی نظر سے
بُدھّ کو دیکھا ، جو اطمینان سے
اُس کی طرف نظریں اُٹھائے دیکھتے تھے

’’ہاں، کوئی ہستی نہیں ہے
ایک مفروضہ ہے ہستی کا تصوّر
ہست کا کوئی تصور
نیست کے حتمی تصور کے بِنا ممکن نہیں ہے!
ہست کیا ہےِ نیست کیا ہے؟
ایسا استفسار ہی بے معنی و مقصد ہے، بھکشو!‘‘

چُپ رہے کچھ دیر، پھر بولے تتھا گت
’’اس بڑے آفاق میں سب کچھ ہے لیکن کچھ نہیں ہے
اربوں کھربوں سورجوں کی
اربوں کھربوں دھرتیوں کی
ہست کا سیدھا تعلق نیست سے ہے
’’ایشور‘‘ گر’’ ہست ‘‘ہے تو ’’ نیست‘‘ بھی ہے
ایشور قدرت ہے ، بھکشو
اس لیے میں نے کہا تھا، ایشور ’’ہستی ‘‘ نہیں ہے
اک ’’اکائی‘‘ کا کوئی معنی نہیں ہے۔ entity
اک ’’ہمہ گیری‘، ’’مکمل‘‘ اور ’’مجموعی ‘‘ totality
رقم ہی ایشور ہے!

منہ کھلا، آنکھوں میں حیرت اور تجسس
سر بسر حیرت کا پُتلا
کچھ نہ بولا، دیکھتا ہی رہ گیا، آنند بھکشو!

Advertisements
julia rana solicitors london

’’تم ابھی نا پختہ سادھک ہو، نہیں سمجھوگے بھکشو!‘‘ سادھک (تپسوی۔ عابد)
بُدھّ کے ہونٹوں پہ ہلکا سا تبسم مرتعش تھا!
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………
سانگواں ورلاپؔ (برمی بدھّ لیکھک : وفات 1878 عیسوی سن ولادت نا معلوم ) نے متعدد سوتروں کے حوالہ جات سے اس خیال کی تصدیق کی ہے کہ خلا کے لا اختتام ہونے کے جس نظریے کو یورپ کے ساینسدانوں نے انیسویں صدی میں رواج دیا، بدھ مت میں اس کا ذکر متعدد سوتروں میں موجود ہے۔ خلا کا کوئی انت نہیں ہے۔ ستاروں (سورجوں) کی گنتی نہیں کی جا سکتی۔ ان کے گرد گھومنے والے سیاروں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ سوزوکیؔ اور دیگر مفکروں نے ایک ہوا سے چلنے والے رہٹ یعنی Wind Wheel Axis کے تصور کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے ۔ ؛یہ ایک لا اختتام، کبھی شروع نہ ہونے والا اور کبھی ختم نہ ہونے والا، ہمیشہ گردش میں رہنے والا، وہ آفاقی پیہّہ ہے، جو خلایعنی سپیس میں معلق ہے ۔ ہندو عقیدے کے برعکس، جس میں کپل وستو کے شہزادے گوتم نے جنم لیا اور اپنی ابتدائی تعلیم پائی ، جنت اور دوزخ کا کوئی تصور بُدھّ مت میں نہیں ہے۔ کہ یہ کوئی fixed جگہیں ہیں،جو کہیں آسمان میں موجود ہیں ۔۔۔ تو یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ روح کو ایک جنم میں برے اعمال کی کیا سزا ملتی ہے اچھے اعمال کاکیا اجر ملتا ہے ۔ کیا اچھی آباد دنیائیں مختلف دھرتیوں پر آباد جنتیں ہیں اور اسی طرح کیا دوزخ یا دوزخیں وہ دھرتیاں (سیّارے) ہیں، جن پر نا گفتہ بہ برے حالات میں زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ Robert Trueman اور سانگواں ورلاپ کی تحریروں پر منحصر یہ نظم لکھی گئی)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply